Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 23
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
قَالَا : ان دونوں نے کہا رَبَّنَا : اے ہمارے رب ظَلَمْنَآ : ہم نے ظلم کیا اَنْفُسَنَا : اپنے اوپر وَاِنْ : اور اگر لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا : نہ بخشا تونے ہمیں وَتَرْحَمْنَا : اور ہم پر رحم (نہ) کیا لَنَكُوْنَنَّ : ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
دونوں عرض کرنے گے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔
قالا ربنا ظلمنا انفسنا (الآیۃ) توبہ و استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سیکھے تھے جیسا کہ سورة بقرہ آیت 37 میں صراحت ہے، شیطان نے نافرمانی کا ارتکاب کیا مگر نہ صرف یہ کہ اس پر شرمندہ نہیں ہوا بلکہ اڑ گیا اور اس کے جواز پر عقلی و قیاسی دلائل دینے لگا نتیجتًا وہ راندہ درگاہ اور ہمیشہ کیلئے ملعون قرار پایا، اور حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنی غلطی و پشیمانی کا اظہار کیا اور بارگاہ الہیٰ میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا تو اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے، گناہ کرکے اس پر اصرار کرنا اور صحیح ثابت کرنے کیلئے دلائل پیش کرنا شیطانی راستہ ہے اور گناہ کے بعد احساس ندامت سے مغلوب ہو کر بارگاہ الہیٰ میں جھک جانا اور توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا بندگانِ الہیٰ کا راستہ ہے (اللّٰھم اجعلنا منھم) ۔
Top