Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 12
قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ١ؕ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ١ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ
قَالَ : اس نے فرمایا مَا مَنَعَكَ : کس نے تجھے منع کیا اَلَّا تَسْجُدَ : کہ تو سجدہ نہ کرے اِذْ اَمَرْتُكَ : جب میں نے تجھے حکم دیا قَالَ : وہ بولا اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر مِّنْهُ : اس سے خَلَقْتَنِيْ : تونے مجھے پیدا کیا مِنْ : سے نَّارٍ : آگ وَّخَلَقْتَهٗ : اور تونے اسے پیدا کیا مِنْ : سے طِيْنٍ : مٹی
اللہ نے فرمایا کس بات نے تجھے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے حکم دیا تھا ؟ کہا اس بات نے کہ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا (خلافت میرا حق ہے)
اللہ تعالیٰ کا استفسار کہ اے شیطان تجھ کو سجدہ شکر ادا کرنے سے کس چیز نے روکا ؟ 12: اس آیت نے کچھ لوگوں کے اس کھپت کا علاج کردیا جن کو یہ وہم ہوا کہ سجدہ کا حکم تو فرشتوں کو ہوا تھا یہ ابلیس کہاں سے آگیا ؟ پھر انہوں نے ابلیس کا رشتہ فرشتوں سے جوڑنے کے لئے طرح طرح کے حیلے تراشے اور انجام کار اس کو فرشتوں میں شامل کردیا۔ اس آیت نے یہ کہہ کر : مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ 1ؕ، یعنی تجھے کس بات نے سجدہ شکر بجا لانے سے روکا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا۔ بات صاف کردی کہ حکم دئیے جانے والوں میں وہ بھی موجود تھا۔ بلکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سرکش طاقتوں کو فرمانبردار طاقتوں سے بالکل الگ کردیا گیا اور چونکہ ان دونوں مخالفت طاقتوں کے مجموعہ کا نام انسان رکھا گیا اس لئے وہ مکلف ٹھہرا کہ ان دونوں طاقتوں کو حد اعتدال پر رکھنے کا اس کو حکم دیا گیا یہی وجہ ہے کہ انسان فی الواقع وہی انسان ہے جس نے ان دونوں طاقتوں کو اعتدال پر رکھا اور یہ بھی کہ فرمانبردار طاقت تو کبھی اعتدال سے تجاوز کر ہی نہیں سکتی لہٰذا اس میں اعتدال تو پہلے ہی موجود ہے اعتدال سے کمی بیشی صرف اور صرف سرکش طاقت ہی کرسکتی ہے جس کا دوسرا نام ابلیس ہے۔ یہ اعتدال سے بڑھے گی تو شیطان کہلائے گی اور کم ہوگی تو ضرور وہ کسی موقع کی تلاش میں ہوگی۔ اس طرح اس کا گھات لگانا بھی کبھی خطرہ سے خالی نہیں ہوگا۔ اس لئے اس کا اعتدال پر قائم رکھنا ہی انسانیت ہے اور یہی چیز انسان کو انسان بناتی ہے۔ یہی تصور اس آیت نے دیا کہ جب اس طاقت سے سوال ہوا کہ تو نے حکم عدولی کیوں کی جب کہ میں نے تجھے حکم دیا ہے تو وہ اس طرح گویا ہوئی کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے اور آگ کو مٹی پر فضیلت ہے۔ یہی اس کی حقیقت میں سرکشی تھی کہ اس نے اپنے وہم سے مٹی سے آگ کو افضل سمجھا جب کہ اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں تھی۔ مٹی تو آگ کو بجھانے کا کام دیتی ہے پھر آگ مٹی سے افضل کیسے ہوگئی ؟ اگر اللہ نے یہ کہا ہوتا کہ آگ مٹی سے افضل ہے تو بلاشبہ اس کو یہ کہنے کا حق تھا لیکن اللہ نے تو کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ آگ مٹی سے افضل ہے لہٰذا اس کا یہ کہنا ہی اس کی لعنت کا باعث ہوگیا کہ اس نے وہ بات کہی جو اللہ نے نہیں کہی تھی۔ اس بحث کو آگے نہیں بڑھایا بلکہ اس جگہ بند کردیا ، کیوں ؟ اس لئے کہ اس نافرمان قوت کو صرف نافرمان دکھانا مقصود تھا اس کو فرمانبردار بنانا مقصود ہی نہ تھا۔ اس کو اس طرح سمجھ لیں کہ زہر کا زہر ہونا ظاہر کرنا تھا زہر کو تریاق بنانا مقصود نہیں تھا۔ اس لئے کہ زہر کا تریاق پہلے موجود ہے۔
Top