Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 132
وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا١ۙ فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہنے لگے مَهْمَا : جو کچھ تَاْتِنَا بِهٖ : ہم پر تو لائے گا مِنْ اٰيَةٍ : کیسی بھی نشانی لِّتَسْحَرَنَا : کہ ہم پر جادو کرے بِهَا : اس سے فَمَا : تو نہیں نَحْنُ : ہم لَكَ : تجھ پر بِمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے نہیں
اور فرعون کی قوم نے کہا تو ہم پر اپنا جادو چلانے کیلیے کتنی ہی نشانیاں لائے مگر ہم ماننے والے نہیں
فرعونیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک ساحر اور آپ کی تعلیم کو جادو قرار دیا : 143: مھما مہ اور ما سے مرکب ہے مہ اسم فعل یعنی توقف ہے اور ما شرطیہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ما اور ما سے مرکب ہے پہلا ما شرطیہ ہے اور دوسرا ما تعمیم کے لئے یعنی جس طرح کہا جاتا ہے کہ جو تو کرنا چاہتا ہے کرلے موسیٰ (علیہ السلام) اس مناظرہ و مقابلہ کے بعد جس کا پے چھ ذکر ہوا ایک عرصہ تک مصر میں مقیم رہے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دلائل وبراہین اور نشانات دکھا دکھا کر انہیں دعوت حق دیتے رہے لیکن فرعونی بھی اپنی ضد اور عناد پر مکمل طور پر اڑے رہے اور انجام کار صاف صاف کہ دیا کہ اے موسیٰ ! آپ جو چاہیں اپنے جادو کے کرتب دکھاتے رہیں ہم ہرگز آپ پر ایمان لانے والے نہیں۔ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ انہیں موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت میں شک تھا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت تو ان کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں تھی لیکن اس کو تسلیم کرنا ان کے لئے ٹیڑھی کھیر تھی کیونکہ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے ناجائز اختیارات اور مراعات سے محروم ہوجائیں اور اس کے لئے کوئی سیاست دان بھی تیار نہیں ہو سکتا۔ وہ کیونکر برداشت کرتے کہ ان کی لوٹ کھسوٹ پر پابندی لگا دی جائے اور ان کی عیش و عشرت کی محفلیں درہم برہم کردی جائیں وہ اس کے لئے کبھی آمادہ نہیں ہو سکتے تھے اور نہ ہی آمادہ ہوئے۔ یہی وہ رکاوٹیں ہیں کو ہر زمانہ میں حق قبول کرنے کے راستہ میں پہاڑ بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کا ذکر قرآن کریم میں آگیا اس کو بہر حال بیان کریں گے اور وقت کے فرعونوں کا نام لینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ اس وقت مصر کے فرعون کا مشکل تھا ۔ اس لئے وقت کے فرعونوں کا نام لینا ہم مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ فی زماننا فراغنہ فرعون مصر سے زیادہ بدیانت ، بےایمان اور دھوکہ باز ہیں اور اس کے ساتھ ہی کند ذہن ، ناسمجھ اور نا عاقبت اندیش بھی ، بد اخلاق ، بد کردار اور بد مذہب بھی اور یاد رکھنے کے قابل بات یہ ہے کہ منافق ہمیشہ اور ہر زمانہ میں کافر سے برا ہوتا ہے اور کافر ایک حد منافق سے اچھا۔
Top