Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو رَّبَّكَ : اپنا رب فِيْ : میں نَفْسِكَ : اپنا دل تَضَرُّعًا : عاجزی سے وَّخِيْفَةً : اور ڈرتے ہوئے وَّدُوْنَ : اور بغیر الْجَهْرِ : بلند مِنَ : سے الْقَوْلِ : آواز بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام وَلَا تَكُنْ : اور نہ ہو مِّنَ : سے الْغٰفِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
(اے پیغمبر اسلام ! ﷺ اپنے پروردگار کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں عجز و نیاز کے ساتھ ڈرتے ہوئے اور زبان سے بھی آہستہ آہستہ بغیر پکارے اور ایسا نہ کرنا کہ غافلوں میں سے ہو جاؤ
یاد الٰہی میں مصروف رہنے کا طریقہ قرآن کریم کی زبان میں : 235: اپنے رب کو دل میں یاد کرتا رہ پھر اس کو دل میں یاد کرنے کے لئے تین باتیں ارشاد فرمائیں ایک یہ کہ (تضرعا و خیفۃ ) دوسرا (دون الجھر من القول ) اور تیسرا (بالغدو وا لاصال ) 1 ۔ تضرع و عاجزی اختیار کرنا ۔ 2 ۔ دون کے معنی لغت میں نو طرح کے بیان کئے گئے ہیں ۔ 1 ۔ قل 2.۔ قیل بفتح فسکون۔ 3 ۔ جھرۃ او قبل بکسر القاف و فتح البائ 4 ۔ وراء 5 ۔ الاختصاص و قطع الشرکۃ 6 ۔ امام 7 ۔ غیر او سوی 8 الدنی 9 ۔ التجاوز من حد الی حد اور اس جگہ پہلے معنی مراد لئے گئے ہیں ۔ یعنی قول سے ذکر ہو تو زیادہ بلند آواز سے نہ ہو جس کو (چلانے ) سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کی مزید وضاحت سورة بنی اسرائیل میں اس طرح فرما دی گئی کہ اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے ان دونوں کے درمیان اوسط درجہ کا لہجہ اختیار کرو۔ اور ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ مکہ میں جب نبی کریم ﷺ یا دوسرے صحابہ ؓ نماز پڑھتے وقت بلند آواز سے قرآن کریم پڑھتے تو کفار شور مچاتے تھے اور بسا اوقات گالیوں کی بوچھاڑ بھی کردیتے ۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ نہ تو اتنا زیادہ زور سے پڑھو کہ کفار سن کر ہجوم کریں اور نہ اس قدر آہستہ پڑھو کہ تمہارے اپنے ساتھی بھی نہ سن سکیں اور پھر یہ حکم بھی انہی حالات کے لئے تھا اور اب بھی انہی حالات کے لئے ہے لیکن زور زور سے اور چلا چلا کر پڑھنے کی ممانعت اس سے نکل آئی اور اس کا طریقہ یہ مقرر فرمایا گیا کہ وہ دون الجھر من القول قول سے یعنی بول کر جب ذکر ہو تو تھوڑی سی بلند آواز ہو تو زیادہ بلند آواز سے نہ ہو ۔ ؟ ؟ ؟ 3 ۔ تیسری یہ کہ اللہ کی یاد ہر وقت دل میں موجود رہنی چاہیے کہ انسان اپنی زندگی کی صبحیں اور شا میں یاد الٰہی میں بسر کرے ۔ ذکر تب اپنا پورا اثر دکھاتا ہے جب اس میں ساری مذکورہ شرائط پوری ہوں اور وہ صبح وشام یعنی پورے اوقات کو گھیرے ہوئے ہو اور ایسا نہ ہو کہ تم غافلوں میں ہو جائو ۔ یہ اس کی مزید تاکید ہے یعنی اللہ کی یاد سے کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چائیے ۔ جس طرح جسم کی زندگی کے لئے سانس کی آمدورفت ضروری ہے اسی طرح روح کی زندگی کے لئے ذکر الٰہی ضروری ہے ۔ شیطان ہر وقت گھات میں رہتا ہے اور کسی وقت بھی اس کام سے غافل نہیں ہوتا اس لئے آدمی کو اس سے پناہ حاصل کرنے کے لئے بھی کسی وقت غفلت نہیں کرنی چائیے تاکہ اس کا دائو نہ لگ جائے اور وہ اچانک حملہ آور ہو کر کوئی تباہی نہ پھیلا دے ،
Top