Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaashiya : 3
عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ
عَامِلَةٌ : عمل کرنے والے نَّاصِبَةٌ : مشقت اٹھانیوالے
(وہ) محنت کرنے والے تھے (لیکن آخرت میں) تھکے ہوئے ہوں گے
وہ محنت کرنے والے تھے لیکن آخرت میں تھکے ہوئے ہوں گے 3 ؎ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں بہت محنت و مشقت کرتے رہے تھے لیکن ان کی ساری محنت و مشقت دنیا کی خاطر تھی اس میں آخرت کے لیے انہوں نے کچھ نہیں کیا ہوگا کیونکہ قیامت کے تو وہ منکر تھے اور اس کو مانتے ہی نہ تھے اس لیے ان لوگوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں عمل کر کے تھک گئے ، انہوں نے جو کچھ دین کے نام پر کیا وہ بھی بدعات تھیں جن کا نام انہوں نے یا ان کے آبائو اجداد نے یا انکے پیروں اور مرشدوں نے اور مذہبی پروہتوں نے ان کو باور کرایا ہوگا کہ یہ دین کے کام ہیں حالانکہ ان کا دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوگا۔ اس وقت آپ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت بھی کثرت سے موجود ہیں کہ دین کے نام پر انہوں نے جتنے کام اختیار کیے ہیں ان میں سے کسی ایک کا تعلق بھی اسلام کے ساتھ نہیں ہے جو لوگ غیر اللہ کی نذر و نیاز کا نظریہ رکھتے ہیں اور نیاز کے نام سے کھانے پکاتے اور تقسیم کرتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے گیارہوں شریف ، نیاز شریف اور بھنڈار رکھا ہے لیکن کبھی کسی دربار کی نذر چڑھا رہے ہیں اور کبھی کسی دربار کی طرف بھاگ دوڑ رہے ہیں اور نہایت اہتمام سے یہ کام کرتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دین کا کام کر رہے ہیں ۔ اس طرح تیسرے ، چوتھے ، ساتویں ، دسویں ، چالیسویں اور برسی کا نام ان کو دیتے ہیں اور کسی کو قل کی رسم قرار دیتے ہیں ۔ ان سارے کاموں میں بڑے اہتمام سے لگے ہیں یہ وہی ہیں جن کے متعلق اس جگہ صرف دو لفظ میں ان کی ساری تاریخ بند کردی ہے کہ یہ مشقت میں لگے رہے ہیں اور اس طرح محنت و مشقت کرتے رہے ہیں کہ یہ کام کر کے تھک گئے کیونکہ انہوں نے وقت بھی لگایا اور پیسہ بھی خرچ کا لیکن اس کا کچھ حاصل نہ ہوا کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا اس کا تعلق دین سے بالکل نہیں تھا۔ اس طرح انہوں نے جو محنت و مشقت کی ساری رائیگاں گئی کیونک وہ سب بیکار تھی ۔ جس گاڑی پر آدمی کو سوار ہونا تھا اس کا وقت تین بجے کا تھا لیکن وہ ٹھیک اپنے گھر سے تین بجے نکلا اور بھاگ بھاگ کر تھک گیا اور سٹیشن پر پہنچا تو پسینہ سے شرابور تھا اور سانس پھولی ہوئی تھی ، اس کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں لیکن گاڑی تو اس وقت ہی چھوٹ چکی تھی جب وہ گھر سے نکلام تھا اب اس کی اس محنت کا کوئی نتیجہ ہرگز نہیں نکلے گا بلکہ اگر اب اس کو دوسری گاڑی پر جانا ہے تو بھی اس جگہ بیٹھ کر بور ہوگا اور اس کے علاوہ اس کو کچھ حاصل نہ ہوگا اور وہ ٹکٹ جو اس نے خریدی تھی وہ بھی تقریباً ضائع ہوگئی یہی حال اس بدعت کے کمانے والے کا ہے کہ جس کام کو وہ دین کے نام سے کرتا رہا اس کا دین سے کوئی تعلق نہ تھا اس لے قیامت کے روز وہ اسی طرح خالی ہاتھ ہوگا جس طرح کچھ نہ کرنے والے خالی ہاتھ ہوں گے بلکہ اس کی حالت ان سے بھی گئی گزری ہوگی اس لیے کہ ایک تو وہ بہت عمل کرنے والا تھا اور دوسرے اس کو اس وقت اس لائن میں کھڑا کرلیا جائے گا جو بدعتوں کے مرتکبین کی لگائی گئی ہوگی اور اس طرح کا دوہرا نقصان ہوگا ۔ بہر حال یہ جو ہم نے عرض کیا ہے اس کو کسی مفسر نے بیان نہیں کیا بلکہ سب نے دوزخ میں پہنچ کر عمل کرنے کا ذکر کیا ہے کہ وہ لوگ دوزخ میں کام پر لگائے گئے ہوں گے اور وہاں کام کر کے تھک چکے ہوں گے حالانکہ کتاب و سنت میں اس کو کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ دوزخ میں کسی انسان کا بطور سزا بھی کام کرنا ثابت نہیں ہے کیونکہ وہ دارالعمل نہیں ہے کہ اس میں عمل کا کوئی تصور ہو خواہ وہ اچھا عمل ہو یا برا ۔ پورا قرآن کریم آپ کے سامنے ہے جس طرح جنت میں کسی جنتی کو کوئی کام نہیں کرنا ہوگا اسی طرح کسی دوزخ کو بھی دوزخ میں کوئی کام نہیں کرنا ۔ ہاں ! جنت والوں کو جو انعامات دیئے جائیں گے وہ ان میں خوش ہوں گے اور اہل دوزخ کو جو کچھ کھانے کے لیے پیش کیا جائے گا وہی ان کے لیے سزا کا سماں پیدا کر دے گا جب کہ ان کو تھوہر کھانا پڑے گا اور پیپ پینا پڑے گی اور پھر کھولتا ہوا پانی ان کو پلایا جائے گا اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کو جلتی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا اور پھر اس پر طرہ یہ کہ ان کے لیے موت بھی نہیں ہوگی کہ موت ہی سے اس سزا سے بچ سکنے کی ان کو کوئی امیدہو۔
Top