Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaashiya : 6
لَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍۙ
لَيْسَ لَهُمْ : نہیں ان کے لئے طَعَامٌ : کھانا اِلَّا : مگر مِنْ ضَرِيْعٍ : خار دار گھاس سے
ان کا کھانا سوائے خاردار جھاڑ کے کچھ نہ ہو گا
ان کا کھانا سوائے خار دار جھاڑ کے اور کچھ نہ ہو گا 6 ؎ (ضریع) خار دار جھاڑ ۔ کانٹے ہی کانٹے۔ چناچہ صحیح بخاری میں ہے کہ ( ضریع) ایک گھاس ہے جس کو شبرق بھی کہا جاتا ہے اور یہی گھاس جب سوکھ جاتی ہے تو اہل حجاز اس کو ( ضریع) سے موسوم کرتے ہیں اور یہ ایک قسم کا زہر ہے۔ ( بدر الدین یمنی) ایک بدبودار گھاس ہے جس کو سمندر کنارے پر ڈال دیتا ہے۔ ( عمدۃ القاری) خیال رہے کہ اس جگہ سورة الغاشیہ ہی میں ( ضریع) کا لفظ آیا ہے جس کا مفہوم اوپر بیان کیا گیا ورنہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اس کو ( شجرۃ الزقوم) (44 : 43) (من شجر من زقوم) (56 : 52) اور زقوم کو ہمارے ہاں تھوہر (Cactus) سے موسوم کیا جاتا ہے جو کانٹے دار بھی ہوتا ہے اور بہت کریہہ اور کڑواہٹ میں بھی وہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ شکل و صورت خراب اور بری ، بد مزہ اور سخت کڑوا ہے اور ( ضریع) کے متعلق بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جو طعام کہ بسبب ضرامت اور خواری اور طبیعت کی بد مزگی کا پودہ (ضریع) ہے اس صورت میں وہ اشکال بھی رفع ہوجاتا ہے۔ ( تفسیر فتح العزیز سورة الغاشیہ) اگر تم ذرا غور کرو گے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ دنیا طلبی کی بھوک کا نقشہ ہے جو آخرت میں ظاہری طور پر محسوس ہوگی ۔ دنیا دار انسان دن رات دنیا طلبی میں لگا رہتا ہے اور جس قدر بھی دنیا حاصل کرتا ہے تو اس کے باطنی وجود کی جس نے آخرت میں ظاہر ہونا ہے کوئی نشو ونما ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی دنیوی بھوک میں کوئی کمی ہوتی ہے جیسا کہ شیخ سعدی (رح) نے کہا ہے ؎ چشم ننگ مرد دنیا دار را یا قناعت پر کند یا خاک گور پس جہنم کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی اپنی ہی خواہشات و جذبات کا ایک رنگ ہے یا ایک کیف ہے۔ یہ کھولتے ہوئے پانی اور کانٹے دار درخت اس دنیا طلبی کے نتائج ہیں جن سے فطرت کی پیاس اور بھوک کبھی نہیں بجھتی اور اس کی روح کو سکنیت اور ٹھنڈک کبھی نصیب نہیں ہوتی۔
Top