Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 17
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ١ؕ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ۖۚ وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے اَنْ : کہ يَّعْمُرُوْا : وہ آباد کریں مَسٰجِدَ اللّٰهِ : اللہ کی مسجدیں شٰهِدِيْنَ : تسلیم کرتے ہوں عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں (اپنے اوپر) بِالْكُفْرِ : کفر کو اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال وَ : اور فِي النَّارِ : جہنم میں هُمْ : وہ خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
(اے پیغمبر اسلام ! ان) مشرکوں کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں ایسی حالت میں کہ خود اپنے کفر کا اعتراف کر رہے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے سارے عمل اکارت گئے اور وہ عذاب آتش میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
مساجد کے متولی ہونے کا حق اہل توحید کے سوا کسی دوسرے کو نہیں ہے : 23: اس وقت تک مسجد حرام یعنی بیت اللہ کی تعمیر و ترقی جن ہاتھوں میں تھی وہ مکمل طور پر شرک میں ڈوب چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دیا اور نبی کریم ﷺ سے ہجرت کے وقت جو وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوگیا تو نبی اعظم و آخر ﷺ نے بیت اللہ اور مسجد حرام سے ان تمام بتوں کو نکال باہر پھینکا جن کی مشرکین عبادت کیا کرتے تھے او ضرورت اس بات کی تھی کہ جس طرح بیت اللہ کو بتوں سے پاک کردیا گیا ہے اسی طرح باقی تمام رسومات سے بھی اس کو پاک کردیا جائے جو مشرکین نے محض رواج کے طور پر اپنا لی تھیں اور ان کے لئے اختراعی دلیلیں تھیں جن کا کوئی وجود موجود نہیں تھا مثلاً ننگے طواف کرنا اور قربانیوں کے خون کو بیت اللہ کی دیواروں پر ملنا ورغیرہ اس طہارت کی ایک اور صرف ایک ہی صورت تھی کہ مشرکین کا داخلہ مسجد حرام میں ممنوع قرار دیا جائے لیکن یہ بات اس دیئے ہوئ امان کے خلاف تھی اور معائدہ کی پابندی ہر حال میں ضروری تھی لہٰذا فتح مکہ کے دوسرے ہی سال اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت جب ابوبکر صدیق ؓ مدینہ طبیہ سے قائد حج بنا کر روانہ کردیئے گئے یہ آیات کریمات نازل ہوگئیں اور نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی ؓ کو اس مقصد کے لئے بیت اللہ روانہ کیا کہ منیٰ ، عرفات اور حرم بیت اللہ میں یہ اعلان کردیا جائے کہ آئندہ سال سے جاہلیت کی تمام رسوم کا خاتمہ کردیا جائے گا چناچہ نبی کریم ﷺ کے حکم کے مطابق یہ آیات کریمات وہاں سارے مقامات پر پڑھ کر سنا دی گئیں اور اس کی مزید تشریح میں سیدنا علی ؓ نے یہ اعلان کیا کہ لا ئحجن بعد العام مشرک ولا یطوفن بلابیت عریان یعنی اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا اور کوئی ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف نہ کرسکے گا۔ زیر نظر آیت میں بھی یہی اعلان کیا گیا کہ ” مشرکین کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کی مساجد کی تعمیر کریں کیونکہ مسجد صرف وہی جگہ ہے جو ایک اللہ وحدہ ، لا شریک کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہے اور کفر شرک توحید الٰہی کی ضد ہے وہ عمارت مسجد کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔ عمارت مسجد کا مطلب ظاہری در و دیوار کی تتعمیر کے سوا مسجد کی حفاظت اور صفائی وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے اور مسجد کی باقی تمام ضروریات کے پورا کرنے پر بھی اور عبادت کے لئے مسجد میں حاضر ہونے پر بھی بولا جاتا ہے اور عمرہ کو بھی عمرہ اسی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ اس میں بیت اللہ کی زیارت اور عبادتت کے لئے حاضری ہوتی ہے۔ مشرکین مکہ بھی ان تینوں ہی معنوں میں اپنے آپ کو معماع بیت اللہ اور عمارت مسجد حرام کے ذمہ دار سمجھتے تھے اور اس پر فخر کیا کرتے تھے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ مشرکین کو اللہ کی مساجد کی مارت کا کوئی حق نہیں ہے جب کہ وہ خود اپنے کفر و شرک کے گواہ ہیں ان لوگوں کے اعمال ضبط بلکہ ضائع ہوگئے اور وہ اس شرک پر قائم رہ کر ہمیشہ ہمیشہ آگ جہنم میں رہیں گے جہاں سے ان کا نکلنا ایسا ہی مشکل اور ناممکن ہے جیسا کہ سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا۔ ” وہ خود اپنے کفر کا اعتراف کر رہے ہیں “ وہ زبان سے تسلیم کریں یا نہ کریں وہ اپنے مشرکانہ افعال و اعمال کے سبب گویا خود اپنے کفر و شرک کی گواہی دے رہے ہیں اور یہ وہ گواہی ہے جو زبان کی گواہی اور اقرار سے بھی بڑھ کر ہے۔ زیر نظر آیت کے اس فقرہ پر اچھی طرح طور و فکر کرنا چاہئے کہ آج بھی جن لوگوں کے اعمال و افعال ان کے کھلے شرک پر شہادتت دے رہے ہیں اگرچہ بزبان قال تسلیم نہ بھی کریم تو وہ اس کا اعتراف نہ کرنے سے بچ نہیں سکتے۔ اس لئے کہ ان کے اعمال و افعال بول بول کر گواہی دے رہے ہیں کہ یہ لوگ مشرک ہیں ۔ بلکہ بعض باتوں میں آج کل کے مشرک اس قت کے مشرکوں سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور ناموں کے سوا کسی چیز میں کوئی فرق نہیں اور اس غلط فہمی کا ذکر ہم بہت سے مقامات پر کرچکے ہیں کہ یہ جو عوام میں مشہور و معروف کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بتوں کی پرستش کرتے تھے اور آج کہیں بھی مسلمان کہلانے والوں میں یہ چیز نہیں پائی جاتی تو یہ صرف ایک دھوکا ، فریب ہے ، صرف بتوں کی پرستش نہ اس وقت کی جاتی تھی اور نہ آج اس وقت بھی پرستش صاحب بت کی ہوتی ہے اور آج بھی پرستش صاحب قبر کی ہوتی ہے۔ ہاں ! فرق ہے تو صرف یہ کہ ان کی علامت بت ہوتے تھے جو کسی صاحب بت کی نسبت سے تراش لئے جاتے تھے اور آج بھی نسبت صاحب قبر کی طرف ہوتی ہے فی نفسہ قبر کی کوئی پرستش ہیں کرتا۔ مشرک ہی وہ لوگ ہیں جن کا سارا کیا کرایا اکارت چلا گیا : 24: فی نفسہٖ نیکی نیکی ہی ہے اور برائی برائی۔ مشرک قومیں جہاں شرک کرتی ہیں وہاں بہت اچھے کام بھی سرانجام دیتی ہیں۔ غور کرو کہ حاجیوں کو پانی پلانا ، بیت اللہ کا تعمیر کان ، کسی مسجد میں چراغ جلانا ، جھاڑو دینا ، پانی اور صف کا انتظام کرنا۔ بھولے کو راستہ دکھانا ، بیمار کا علاج کرنا ، بھوکے کو کھلانا فی نفسہٖ اچھے کام ہیں اور انہی کو نیکیاں کہا جاتا ہے جب کوئی مشرک انسان ایسے کام سر انجام دے تو اس کو برائی تو تمہیں کہا جاسکتا بلکہ اس کو برائی کہنا خود برائی ہے۔ لیکن بعض برائیاں ایسی برائیاں ہیں کہ وہ ان نیکیوں پر بھی پانی پھیر دیتی ہیں یعنی ان کو ضائع کردیتی ہیں اور کرنے والے کو اس کا کوئی اجر نہیں ملتا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ عاقبت کا بیج اس کے ایمان میں بویا ہی نہیں گیا اس نے فقط دنیا کی خاطر یہ کام کئے اور دنیا ہی میں اس کا صلہ وصول کرلیا کہ اس کے اچھے کام کو ہر ایک نے اچھا کہا اور یہی اس کے اعمال کا صلہ ہے۔ دوسری مثال آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک آدمی اپنی ازدواجی زندگی میں بیوی کے سارے حقوق ادا کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ زنا سے بھی باز نہ آئے تو اس طرح اس نے سارے حقوق کی ادئیگی کے باوجود کیا اپنی بیوی کے حق میں پانی نہیں پھیرا وہ کون سی بیوی ہے جو اس بات کو برداشت کرتے ہوئے اپنے خاوند کے حقوق کی ادئیگی کو تسلیم کرلے گی اور کون ہے وہ شخص جو اس کی بیوی سے یہ کہہ سکتا ہے کہ جب تیرے حقوق ادا کئے جا رہے ہیں تو تیری بلا سے اگر وہ منہ کالا کرتا ہے تو کیا کرے تو اپنی جگہ پر مطمئن رہے۔ یہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے جو محض تفہیم کے لئے بیان کی گئی ہے ایک انسان اللہ کی عبادت بھی اور غیر اللہ کے وظیفے بھی پڑھے ، اللہ کو حاضر ناظر جاننے کا باوجود دوسرے لوگوں کو بھی حاضر و ناظر اور مشکل کشا کہے تو غور کرو کہ اس نے کیا کیا ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے شرک اور زانی کی مثال ایک ہی طرح سے دی ہے اور ایک ہی طرح سے تخیل کے پیرو دونوں کو قرار دیا ہے کہ دونوں ہی طرح کے لوگ ایک مقام پر بس نہیں کرتے بلکہ دوسرے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مشرک عذاب دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے ہیں تخفیف ان کے لئے نہیں ہوگی : 25: فرمایا ” اور وہ یعنی مشرک عذاب آتش میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ “ اس کی تشریح پیچھے سورة النساء آیت 28 میں گزر چکی جہاں ارشاد الٰہی ہے کہ ” اللہ یہ بات کبھی بخشنے والا نہیں کہ اس کے ساتھ کسی دوسری ہستی کو شریک ٹھہرایا جائے ہاں ! اس کے سوا جتنا گناہ ہیں وہ چاہے تو بخش دے۔ “ (النسا 4 : 48) بلاشبہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی بس شرک نہ کرے باقی دوسرے گناہ دل کھول کر کرتا رہے بلکہ دراصل اس سے یہ بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ شرک جس کو ان لوگوں نے بہت معمولی چیز سمجھ لیا ہے تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے حتیٰ کہ اور گناہوں کی معافی تو ممکن ہے مگر یہ ایسا گناہ ہے کہ معاف نہیں کیا جاسکتا۔ مشرکین مکہ تو خیر جو کچھ تھے وہ تھے ہی علماء یہود شریعت کے چھوٹے چھوٹے احکام کا تو بڑا اہتمام کرتے تھے بلکہ ان کا سارا وقت ان جزئیات کی ناپ تول ہی میں گزرتا تھا اور خوب بال کی کھال اتارتے تھے لیکن شرک ان کی نگاہ میں ایسا ہلکا فعل تھا کہ نہ خود اس سے بچنے کی فکر کرتے تھے نہ اپنی قوم کو مشرکانہ خیالات اور اعمال سے بچانے کی کوشش کرتے اور نہ مشرکین کی دوستی اور حمایت ہی میں انہیں کوئی مضائقہ نظر آتا تھا اور بہت سے لوگوں کا آج بھی یہی حال ہے۔ بلاشبہ ہم نفرت نہیں پھیلانا اہتے لیکن ان بیماروں کو بیمار سمجھ کر ان کے علاج کی فکر کا ضرور مشورہ دیتے ہیں اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بیمار نہیں ہیں اور اس طرح اگر وہ خود علاج کی طرف رغبت نہ کریں اور عذاب الٰہی کی لپیٹ میں آجائیں تو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مرے ہوؤں کو مرا ہوا تسلیم کرلینا اور مرا ہوا کہنا کوئی گناہ کی بات ہے بلکہ مرے ہوئے کو ” ہائے ہائے نہ مرے “ کہنا گناہ سمجھتے ہیں اس لئے کسی فی الواقعہ مرے ہوئے کے اس دنیا میں زندہ ہونے کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے اس لئے کہ یہ قانون الٰہی کے خلاف ہے جو کبھی ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ اپنے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ ہونے دیتا ہے۔ زیر نظر آیت جس پر حاشیہ 23 تا حاشیہ 25 گزر رہے ہیں ایک بار پھر نظر میں لائیں اور دیکھیں کہ وہ ہماری کیا راہنمائی کرتی ہے۔ قریش مکہ کو بیت اللہ کو مجاوری اور حاجیوں کے کاروبار کے منصرم ہونے کا بڑا غرور تھا اور اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب ایک جماعت اعتقاد و عمل کی حقیقت سے محروم ہوجاتی ہے تو اس طرح کی رسوم و مظاہر کو ہر طرح کی بزرگی وسعادت کا ذریعہ سمجھنے لگتی ہے چناچہ آج کل مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے کسی بزرگ کی سجادہ نشینی ، کسی مزار کی مجاوری ، کسی زیارت گاہ کا متولی ہونا جو اثر و رسوخ رکھتا ہے وہ بڑے سے بڑے اور بہتر سے بہتر مومن و متقی کو بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایک صالح و متقی مسلمان کو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن ایک فاسق و فاجر مجاور یا متولی درس گاہ کی ہزاروں آدمی قدم بوسی کریں گے۔ اس جگہ اس گمراہی کا ازالہ کیا گیا ہے اور یہی مضمون مسلسل کئی آیات میں بیان ہوا ہے۔ فرمایا اصل نیکی یہ نہیں ہے کہ حاجیوں کو پانی پلانے کی سبیل لگا دی یا خانہ کعبہ میں روشنی کردی اصل نیکی تو اس کی ہے جو ایمان لایا اور جس نے اعمال حسنہ انجام دیئے۔ فی زمانہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ محرم میں سبیلیں لگانے والے سبیلیں لگا کر اور جشن میلاد پر چراغان کرنے والے چراغانم کر کے کس چیز کی نمائش کرتے ہیں اور لوگ ان کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ وہ خانقاہیں اور دربار جو اس وقت اس ملک عزیز میں سب سے زیادہ بدکاری کے اڈے ہیں ان کو کس طرح متبرک مقامات سمجھا جاتا ہے۔ علی ہجویری (رح) ، سلاطن باھو (رح) اور شہباز قلندر کے مزاروں پر کیا ہو رہا ہے اور اس ملک عزیز کے عوام تو عوام خواص ان مقامات کو کیا سمجھتے ہیں ؟ ان کے انتظامات میں کیا کچھ نہیں کیا جا رہا ہے اور شرک و کفر کے اڈوں کی کس طرح حفاظت کی جارہی ہے۔ یہ اور اس طرح کی مزید کتنی ہی چیزیں ہیں جو صاحب نظر لوگوں کی نظروں کے سامنے ہو رہی ہیں اور کوئی لب کشائی کرنے کے لئے تیار نہیں۔ الایہ کہ وہ زبان کھولے گا تو اس کا کوئی نیا حسن و خوبی ہی اس کی زبان پر ہوگا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ سب کو یہ محاورہ ازبر ہے کہ ” دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کوئی عقلمندی نہیں۔ “ قرآن کیا کہتا ہے ؟ ان کی بلا سے کیونکہ وہ متبرک کتاب بھی تو آخر چوم کر ناک اور ماتھے ہی پر لگانے کے لئے رہ گئی ہے اس لئے کہ سوائے چند گستاخوں کے کون ہے جو اس کتاب پاک کے ساتھ یہی کچھ نہیں کر رہا اور کون ہے جو اس سے انکار کرے ؟ مزید تشریح کے لئے تفسیر عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة النساء 48 کی تفسیر کا مطالعہ کریں۔
Top