Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 27
ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر يَتُوْبُ : توبہ قبول کرے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جس کی چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر اس کے بعد اللہ جس پر چاہے گا اپنی رحمت سے لوٹ آئے گا اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے
ابھی تک کفر پر قائم رہنے والوں میں سے بعض کے اسلام قبول کرلینے کی پیش گوئی : 39: فرمایا بنی تفیف اور ہوازن نے شکست کھانے کے باوجود اگر ابھی تک کفر نہیں چھوڑا تو ہم تم کو قبل از وقت بطور پیش گوئی اطلاع دیتے ہیں کہ ان میں سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اسلام کی طرف رغبت کریں گے اور یقیناً مسلمان ہوجائیں گے اللہ جس کو چاہے توبہ کی توفیق عطا فرمادے کیونکہ اس کا قانون مشیت اپنا کام کرتا ہی رہتا ہے اور یہی کچھ ہوا ابھی ایک مہینہ پورا نہیں گزرا تھا کہ تفیف و ہوازن کے لاتعداد لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کو قبول کیا اور ہوازن کے چودہ سرداروں کا یک وفد زہیر بن صرف کی قیادت میں آپ ﷺ کے پاس آیا جن میں نبی کریم ﷺ کے رضاعی چچا ابویرقان بھی تھے انہوں نے حاضر ہو کر عرض کیا ہماری اکثریت مسلمان ہوچکی ہے اس لئے ہماری درخواست ہے کہ ہمارے اہل و عیال اور اموال ہمیں واپس دے دیئے جائیں اس درخواست میں کہا گیا کہ یا رسول اللہ ! جو مصیبت ہم پر پڑی ہے وہ آپ سے مخفی نہیں۔ آپ ہم پر احسان فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ کے لئے یہ موقع بہت ہی مشکل تھا کیونکہ ایک طرف ان لوگوں پر رحم و کرم کا تقاضا یہ تھا کہ ان کے سارے قیدی اور مکمل اموال واپس کردیئے جائیں اور دوسری طرف یہ کہ سارا مال اور لوگ قریش مکہ ہی میں تقسیم کردیئے گئے تھے ہو ابھی ابھی مسلمان ہوئے تھے اس لئے نبی اعظم و آخر ﷺ نے بخاری شریف کی روایت کے مطابق ان کو یہ جواب دیا کہ میرے ساتھ کتنے مسلمانوں کا لشکر ہے جن میں یہ اموال تقسیم کردیئے گئے ہیں میں سچی اور صاف بات کو پسند کرتا ہوں اس لئے آپ کو اختیار ہے کہ ان دونوں چیزوں یعنی اموال اور اپنے لوگوں میں سے ایک تم کو واپس کی جاسکتی ہے جس کو آپ پسند کریں۔ ان لوگوں کو قیدیوں کی واپسی کو پسند کیا تو رسول اللہ ﷺ نے تمام صحابہ کرام ؓ کو جمع کر کے ایک خطبہ دیا جس میں حمد و ثنا کے بعد فرمایا : ” یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آئے ہیں میں یہ چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دیئے جائیں۔ تم میں سے جو لوگ خوش دلی کے ساتھ اپنا حصہ واپس دینے کے لئے تیار ہوں وہ احسان کریں اور جو اس کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم ان کو یعنی نبی ثقیفہ و ہوازن کو آئندہ اموال فے میں سے اس کا بدلہ دے دیں گے۔ “ آپ ﷺ کی آواز پر شیدائیوں نے لبیک کہی اور مختلف اطراف سے آوازیں بلند ہوئیں کہ ہم خوش دلی کے ساتھ سب قیدی واپس کرنے کے لئے تیار ہیں مگر عدل و انصار اور حقوق کے معاملہ میں احتیاط کے پیش نظر۔ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کی مختلف آوازوں کو کافی نہ سمجھا اور فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ کون لوگ اپنا حق چھوڑنے کے لئے خوش دلی سے تیار ہوئے اور کون ایسے ہیں جو شرم شرمی خامش رہے ہیں۔ معاملہ لوگوں کے حقوق کا ہے اس لئے ایسا کیا جائے کہ ہر جماعت اور خاندان کے سردار اپنی اپنی جماعت کے لوگوں سے الگ الگ صحیح بات معلوم کر کے مجھے بتائیں۔ اس کے بعد سارے خاندانوں کے سرداروں نے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ اجازت حاصل کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ سب لوگ خوش دلی سے اپنا حق چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔ تب نبی کریم ﷺ نے یہ سب قیدی ان کو واپس کردیئے۔ اس طرح آیت 27 کی پیش گوئی بھی پوری وہئی اور سول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کا امتحان بھی ہوگیا جس میں سارے کے سارے صحابہ ؓ بحمداللہ پاس ہوئے۔ اس واقعہ کی تفصیلات میں عوام اور حکومت دونوں کے لئے بیشمار ہدایات ہیں۔ جو شخص ان عبارات پر غور و فکر کرے گا وہ یقیناً اس میں ہدایت پائے گا اور جوں جوں گہری نظر ڈالی جائے گی انشاء اللہ اس کی بصیرت اس واقع کی روشنی میں دور دور تک کام کرے گی اور خصوصاً جو لوگ خاندانوں اور جماعتوں کے سردار ہیں ان کو اس میں سے بہت کچھ میسر آئے گا۔
Top