Tafseer-e-Usmani - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور مذکور کر کتاب میں ابراہیم کا2 بیشک تھا وہ سچا نبی3
2 گذشتہ رکوع میں حضرت مسیح و مریم کا قصہ بیان فرما کر نصاریٰ کا رد کیا گیا تھا جو ایک آدمی کو خدا بنا رہے ہیں۔ اس رکوع میں مشرکین مکہ کو شرمانے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ سنایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے باپ تک کو کس طرح شرک و بت پرستی سے روکا۔ اور آخرکار وطن و اقارب کو چھوڑ کر خدا کے واسطے ہجرت اختیار کی۔ مشرکین مکہ کا دعویٰ تھا کہ وہ ابراہیم کی اولاد ہیں اور اسی کے دین پر ہیں۔ انھیں بتلایا گیا کہ بت پرستی کے متعلق تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا رویہ کیا رہا ہے۔ اگر آباؤ اجداد کی تقلید کرنا چاہتے ہو تو ایسے باپ کی تقلید کرو۔ اور مشرک باپ دادوں سے اسی طرح بیزار ہوجاؤ۔ جیسے ابراہیم (علیہ السلام) ہوگئے تھے۔ 3 " صدیق " کے معنی ہیں " بہت زیادہ سچ کہنے والا " جو اپنی بات کو عمل سے سچا کر دکھائے۔ یا وہ راستباز پاک طینت جس کے قلب میں سچائی کو قبول کرنے کی نہایت اعلیٰ و اکمل استعداد موجود ہو۔ جو بات خدا کی طرف سے پہنچے بلا توقف اس کے دل میں اتر جائے۔ شک و تردد کی گنجائش ہی نہ رہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) ہر ایک معنی سے صدیق تھے اور چونکہ صدیقیت کے لیے نبوت لازم نہیں اس لیے آگے " صِدِّیْقًا " کے ساتھ " نَبِیًّا " فرما کر نبوت کی تصریح کردی۔ یہیں سے معلوم ہوگیا کہ کذبات ثلاثہ کی حدیث اور " نَحْنُ اَحَقُّ بالشَّکِّ مِنْ اِبْرَاہِیْمَ " وغیرہ روایات میں کذب و شک کے وہ معنی مراد نہیں جو سطح کلام سے مفہوم ہوتے ہیں۔
Top