Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 68
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ : اور پھونک ماری جائے گی صور میں فَصَعِقَ : تو بیہوش ہوجائے گا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : سوائے مَنْ : جسے شَآءَ اللّٰهُ ۭ : چاہے اللہ ثُمَّ : پھر نُفِخَ فِيْهِ : پھونک ماری جائے گی اس میں اُخْرٰى : دوبارہ فَاِذَا : تو فورا هُمْ : وہ قِيَامٌ : کھڑے يَّنْظُرُوْنَ : دیکھنے لگیں گے
اور صور میں پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں میں اور زمین میں ہوں گے سب بیکار ہوجائیں مگر جنہیں اللہ چاہے پھر اس میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو وہ اچانک سب کھڑے ہوئے دیکھتے ہونگے۔
قیامت کے دن صور پھونکے جانے کا تذکرہ پھر فرمایا (وَنُفِخَ فِی الصُّورِ ) (الآیۃ) (اور صور میں پھونک ماری جائے گی تو جو بھی آسمانوں میں اور زمین میں ہیں سب بےہوش ہوجائیں گے مگر جنہیں اللہ چاہے پھر صور میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو اچانک وہ کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے) جب قیامت قائم ہوگی تو اس کی ابتداء صور پھونکے جانے سے ہوگی اور دو مرتبہ صور پھونکا جائے گا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اسرافیل (علیہ السلام) کان لگائے ہوئے ہیں اور پیشانی کو جھکائے ہوئے انتظار میں ہیں کہ کب صور پھونکنے کا حکم ہو آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ صور ایک سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 482) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ البتہ قیامت ضرور اس حالت میں قائم ہوگی کہ دو شخصوں نے اپنے درمیان (خریدو فروخت کے لیے) کپڑا کھول رکھا ہوگا ابھی معاملہ طے کرنے اور کپڑا لپیٹنے بھی نہ پائیں گے کہ قیامت قائم ہوجائے گی (پھر فرمایا کہ) البتہ قیامت ضرور اس حال میں قائم ہوگی کہ ایک انسان اپنی اونٹنی کا دودھ نکال کرلے جا رہا ہوگا اور پی بھی نہ سکے گا اور قیامت یقیناً اس حال میں قائم ہوگی کہ انسان اپنا حوض لیپ رہا ہوگا اور ابھی اس میں مویشیوں کو پانی پلانے بھی نہ پائے گا اور واقعی قیامت اس حال میں قائم ہوگی کہ انسان اپنے منہ کی طرف لقمہ اٹھائے گا اور اسے کھا بھی نہ سکے گا۔ (رواہ البخاری) پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو جو لوگ زندہ ہوں گے وہ مرجائیں گے اور ان پر بیہوشی طاری ہوجائے گی اور جو اس سے پہلے مرچکے تھے وہ بےہوش ہوجائیں گے آسمانوں میں اور زمینوں میں جو لوگ ہوں گے سب پر بےہوشی طاری ہوجائے گی پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب اٹھ کھڑے ہوں گے، قبروں سے نکل کر موقف (یعنی حساب کی جگہ) کی طرف چل دیں گے، دونوں بار جو صور پھونکا جائے گا ان کے درمیان کتنا فاصلہ ہوگا حضرت ابویرہ ؓ نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہوئے چالیس کا عدد ذکر کیا حاضرین نے عرض کیا اے ابوہریرہ کیا چالیس دن کا فاصلہ ہوگا ؟ فرمایا مجھے پتہ نہیں عرض کیا گیا کہ چالیس مہینے کا فاصلہ ہوگا ؟ فرمایا مجھے پتہ نہیں، عرض کیا گیا چالیس سال کا فاصلہ ہوگا ؟ فرمایا مجھے پتہ نہیں۔ اِِلَّا مَنْ شَآء اللّٰہُ کا استثناء (اِِلَّا مَنْ شَآء اللّٰہُ ) میں کن حضرات کا استثناء ہے اس کے بارے میں احادیث مرفوعہ صحیحہ میں کوئی واضح بات نہیں ملتی البتہ ایک حدیث میں یوں ہے جو حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان کچھ گالی گلوچ ہوگئی، باتوں باتوں میں مسلمانوں نے یوں کہہ دیا کہ قسم اس ذات کی جس نے محمد رسول اللہ ﷺ کو سارے جہانوں پر فضیلت دی ہے یہ سن کر یہودی نے یوں کہا قسم اس ذات کی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سارے جہانوں پر فضیلت دی ہے یہ سن کر اس مسلمان نے یہودی کے منہ پر طمانچہ مار دیا وہ یہودی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں چلا گیا اور واقعہ بیان کیا نبی اکرم ﷺ نے اس مسلمان کو بلایا جس نے طمانچہ مار دیا تھا اور اس سے صورت حال معلوم کی، اس نے صورت حال بیان کردی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت نہ دو (یعنی اس طرح کی کوئی بات نہ کہو جس سے ان کے مرتبہ کی تنقیص ہوتی ہو) کیونکہ قیامت کے دن سب لوگ بیہوش ہوجائیں گے اور میں بھی ان کے ساتھ بیہوش ہوجاؤں گا پھر سب سے پہلے مجھے ہی ہوش آئے گا میں دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کی جانب کو پکڑے کھڑے ہیں، میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ ان لوگوں میں ہوں گے جو بےہوش ہوگئے تھے اور انہیں مجھ سے پہلے ہوش آگیا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کا استثناء کیا گیا ہے یعنی (اِِلَّا مَنْ شَآء اللّٰہُ ) کے عموم میں وہ بھی شامل ہوں گے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نہیں جانتا کہ طور پر انہیں جو بیہوشی طاری ہوئی تھی اس کو اس وقت کی بیہوشی کے حساب میں لگا دیا گیا (اور ان پر بیہوشی ہی نہ ہو) یا بےہوش تو ہوں گے لیکن مجھ سے پہلے ہوش میں آچکے ہوں گے۔ (رواہ البخاری ص 485: ج 1، ص 965: ج 2، ص 688: ج 2) چونکہ اس کی تصریح نہیں ہے کہ (اِِلَّا مَنْ شَآء اللّٰہُ ) کا مصداق کون ہے اس لیے مفسرین میں سے کسی نے یوں کہا کہ جو حضرات بےہوش نہ ہوں گے ان سے جبرائیل، اسرافیل اور میکائیل اور ملک الموت مراد ہیں اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے حاملین عرش مراد ہیں اور یوں بھی لکھا ہے کہ پہلی بار صور پھونکے جانے پر جو حضرات بیہوشی سے محفوظ رہیں گے بعد میں ان کو بھی موت آجائے گی۔
Top