Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 60
بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ اَنْ یَّكْفُرُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ۚ فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ
بِئْسَمَا : برا ہے جو اشْتَرَوْا : بیچ ڈالا بِهٖ : اسکے بدلے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ اَنْ يَكْفُرُوْا : کہ وہ منکرہوا بِمَا : اس سے جو اَنْزَلَ اللہُ : نازل کیا اللہ بَغْيًا : ضد اَنْ يُنَزِّلَ : کہ نازل کرتا ہے اللہُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنافضل عَلٰى : پر مَنْ يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے فَبَآءُوْا : سو وہ کمالائے بِغَضَبٍ : غضب عَلٰى : پر غَضَبٍ : غضب وَ : اور لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے عَذَابٌ : عذاب مُهِیْنٌ : رسوا کرنے والا
بری چیز ہے وہ جس کے بدلے بیچا انہوں نے اپنے آپ کو177 کہ منکر ہوئے اس چیز کے جو اتاری اللہ نے اس ضد پر کہ اتارے اللہ اپنے فضل سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں سے سو کما لائے غصّہ پر غصّہ اور کافروں کے واسطے عذاب ہے ذلت کا
177 یہاں اشترائ کے معنے بیچنے کے ہیں یعنی جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانیں بیچ دی ہیں اور جس کام کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے وہ بہت برا ہے۔ یہ نوع خامس کا تتمہ ہے۔ اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۔ یہ بئس کا مخصوص بالذم ہے یعنی جس برے کام کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ آیات بینات کا کفر و انکار ہے اور مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۔ جس کا کا کِتَاب مصدق کے الفاظ میں پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ والمراد بما انزل اللہ کتب مصدق (روح ص 321 ج 1) بَغْيًا اَنْ يُّنَزِّلَ اللّٰهُ ۔ بَغْيًا، اَنْ يَّكْفُرُوْا۔ کا مفعول لہ ہے اور ان کے کفر و انکار کی علت بیان کر رہا ہے اور مِنْ فَضْلِہٖ سے وحی مراد ہے۔ اور مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۔ سے مراد حضرت محمد ﷺ ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب نے قرآن کا انکار کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں کیا وہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور انکار محض بغض وحسد کی بنا پر کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ آخری نبی بھی ہمارے خاندان بنی اسرائیل ہی میں سے ہوگا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ تو بنی اسمعیل میں پیدا ہوگیا ہے تو حسد کرنے لگے کہ بنی اسمعیل کے پیغمبر پر کیوں وحی نازل ہوئی ہے۔ انھم ظنوا ان ھذا الفضل العظیم بالنبوۃ المنتظرۃ یحصل فی قومھم فلما وجدوہ فی العرب حملھم ذلک علی البغی والحسد (کبیر ص 620 ج 1) یعنی وہ دوہرے غضب کے مستحق ہوگئے ایک غضب تو توحید کو چھوڑ کر شرک کرنے اور گوسالہ پرستی کی وجہ سے نازل ہوا، اور دوسرا غضب آخری نبی ﷺ کو نہ ماننے کی وجہ سے ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّهِيْن۔ اور ان کافروں کے لیے ایسا عذاب تیار ہے جو ان کے بغض وعناد اور کبر و غرور کو توڑ کر انہیں ذلیل و خوار کردے گا۔ اب آگے یہود کے دعوی و ایمان کی تردید وتکذیب ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے پانچ دلیلیں قائم فرمائی ہیں۔ یہود کے ایک قول باطل کی تردید یہاں تک افہام و تفہیم اور تبلیغ و ارشاد کے تمام ذرائع اور طریقے استعمال کرنے کے بعد آگے یہودیوں کی انتہائی ضد اور ہٹ دھرمی کا شکوہ کیا جارہا ہے اور ان کی غلط بیانی کا مسکت جواب دیا جا رہا ہے۔
Top