Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 57
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ
وَاَمَّا : اور جو الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے کام کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک فَيُوَفِّيْهِمْ : تو پورا دے گا اُجُوْرَھُمْ : ان کے اجر وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الظّٰلِمِيْن : ظالم (جمع)
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور کام نیک کئے سو ان کو پورا دیگا ان کا حق اور اللہ کو خوش نہیں آتے بےانصاف7
7  بادشاہ نے لوگوں کو مامور کیا کہ مسیح (علیہ السلام) کو پکڑیں۔ صلیب (سُولی) پر چڑھائیں اور ایسی عبرتناک سزائیں دیں جسے دیکھ کر دوسرے لوگ اس کا اتباع کرنے سے رک جائیں۔ فبعث فی طلبہ من یاخذہ ویصلبہ وینکل بہ (ابن کثیر) خداوند قدوس نے اس کے جواب میں مسیح (علیہ السلام) کو مطمئن فرما دیا کہ میں ان اشقیاء کے ارادوں اور منصوبوں کو خاک میں ملا دوں گا۔ یہ چاہتے ہیں کہ تجھے پکڑ کر قتل کردیں اور پیدائش و بعثت سے جو مقصد ہے پورا نہ ہونے دیں اور اس طرح خدا کی نعمت عظیم کی بےقدری کریں۔ لیکن میں ان سے اپنی یہ نعمت لے لوں گا۔ تیری عمر مقدر اور جو مقصد عظیم اس سے متعلق ہے پورا کر کے رہوں گا۔ اور تجھ کو پورے کا پورا صحیح وسالم لے جاؤں گا کہ ذرا بھی تیرا بال بیگا نہ کرسکیں۔ بجائے اسکے کہ وہ لے جائیں، خدا تجھ کو اپنی پناہ میں لے جائے گا۔ وہ صلیب پر چڑھانا چاہتے ہیں خدا تجھ کو آسمان پر چڑھائے گا۔ ان کا ارادہ ہے کہ رسوا کن اور عبرتناک سزائیں دیکر لوگوں کو تیرے اتباع سے روک دیں لیکن خدا انکے ناپاک ہاتھ تیرے تک نہ پہنچنے دے گا بلکہ اس گندے اور نجس مجمع کے درمیان سے تجھ کو بالکل پاک و صاف اٹھا لے گا اور اس کے بجائے کہ تیری بےعزتی ہو اور لوگ ڈر کر تیرے اتباع سے رک جائیں، تیرا اتباع کرنیوالوں اور نام لینے والوں کو قرب قیامت تک منکروں پر غالب و قاہر رکھے گا۔ جب تک تیرا انکار کرنے والے یہود اور اقرار کرنیوالے مسلمان یا نصاریٰ دنیا میں رہینگے ہمیشہ اقرار کرنیوالے منکرین پر فائق و غالب رہینگے۔ بعدہ، ایک وقت آئے گا جب تجھ کو اور تیرے موافق و مخالف سب لوگوں کو میرے حکم کی طرف لوٹنا ہے۔ اسوقت میں تمہارے سب جھگڑوں کا دو ٹوک فیصلہ کر دونگا اور سب اختلافات ختم کردیئے جائینگے۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ؟ اس کی جو تفصیل (فَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۡ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران :56) سے بیان کی گئی ہے وہ بتلاتی ہے کہ آخرت سے پیشتر دنیا ہی میں اس کا نمونہ کردیا جائے گا۔ یعنی اس وقت تمام کافر عذاب شدید کے نیچے ہونگے۔ کوئی طاقت ان کی مدد اور فریاد کو نہ پہنچ سکے گی۔ اس کے بالمقابل جو ایمان والے رہینگے انکو دنیا و آخرت میں پورا پورا اجر دیا جائے گا اور بےانصاف ظالموں کی جڑ کاٹ دیجائے گی۔ امت مرحومہ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ جب یہود نے اپنی ناپاک تدبیریں پختہ کرلیں تو حق تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ نبی کریم ﷺ کی متواتر احادیث کے موافق قیامت کے قریب جب دنیا کفرو ضلالت اور دجل وشیطنت سے بھر جائے گی، خدا تعالیٰ خاتم الانبیاء بنی اسرائیل (حضرت مسیح علیہ السلام) کو خاتم الانبیاء علی الاطلاق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ایک نہایت وفادار جنرل کی حیثیت میں نازل کر کے دنیا کو دکھلا دے گا کہ انبیائے سابقین کو بارگاہ خاتم النبیین کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) دجال کو قتل کرینگے اور اسکے بعد یہود کو چن چن کر مارینگے۔ کوئی یہودی جان نہ بچا سکے گا۔ شجر و حجر تک پکارینگے کہ ہمارے پیچھے یہ یہودی کھڑا ہے قتل کرو ! حضرت مسیح صلیب کو توڑینگے۔ نصاریٰ کے باطل عقائد و خیالات کی اصلاح کر کے تمام دنیا کو ایمان کے راستہ پر ڈال دینگے۔ اسوقت تمام جھگڑوں کا فیصلہ ہو کر اور مذہبی اختلافات مٹ مٹا کر ایک خدا کا سچا دین (اسلام) رہ جائے گا۔ اسی وقت کی نسبت فرمایا (وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ) 4 ۔ النسآء :159) جسکی پوری تقریر اور رفع مسیح کی کیفیت سورة " نساء " میں آئے گی۔ بہرحال میرے نزدیک ثم الی مرجعکم الخ صرف آخرت سے متعلق نہیں بلکہ دنیا و آخرت دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جیسا کہ آگے تفصیل کے موقع پر فی الدنیا والا خرۃ کا لفظ صاف شہادت دے رہا ہے۔ اور یہ اس کا قرینہ ہے کہ الی یوم القیامۃ کے معنیٰ قرب قیامت کے ہیں۔ چناچہ احادیث صحیحہ میں مصرح ہے کہ قیامت سے پہلے ایک مبارک وقت ضرور آنے والا ہے جب سب اختلافات مٹ مٹا کر ایک دین باقی رہ جائے گا۔ وللّٰہ الحمد اولًا و آخراً ۔ چند امور اس آیت کے متعلق یاد رکھنے چاہئیں۔ لفظ " توفی " کے متعلق کلیات ابو البقاء میں ہے۔ " التوفی الاماتۃ و قبض الروح علیہ استعمال العامۃ او الاستیفاء واخذ الحق وعلیہ استعمال البلغاء " اھ (" توفی " کا لفظ عوام کے یہاں موت دینے اور جان لینے کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن بلغاء کے نزدیک اس کے معنی ہیں پورا وصول کرنا اور ٹھیک لینا) گویا ان کے نزدیک موت پر بھی " توفی " کا اطلاق اسی حیثیت سے ہوا کہ موت میں کوئی عضو خاص نہیں بلکہ خدا کی طرف سے پوری جان وصول کرلی جاتی ہے۔ اب اگر فرض کرو خدا تعالیٰ نے کسی کی جان بدن سمیت لے لی تو اسے بطریق اولیٰ " توفی " کہا جائے گا۔ جن اہل لغت نے " توفی " کے معنی قبض روح کے لکھے ہیں، انہوں نے یہ نہیں کہا کہ قبض روح مع البدن کو " توفی " نہیں کہتے۔ نہ کوئی ایسا ضابطہ بتایا ہے کہ جب " توفی " کا فاعل اللہ اور مفعول ذی روح ہو تو بجز موت کے کوئی معنی نہ ہو سکیں۔ ہاں چونکہ عموما قبض روح کا وقوع بدن سے جدا کر کے ہوتا ہے۔ اس لئے کثرت و عادت کے لحاظ سے اکثر موت کا لفظ اسکے ساتھ لکھ دیتے ہیں ورنہ لفظ کا لغوی مدلول قبض روح مع البدن کو شامل ہے۔ دیکھئے۔ (اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا) 39 ۔ الزمر :42) میں " توفی نفس " (قبض روح) کی دو صورتیں بتلائیں، موت اور نیند، اس تقسیم سے نیز " توفی " کو " انفس " پر وارد کر کے اور " حین موتہا " کی قید لگا کر بتلا دیا کہ " توفی " اور " موت " دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اصل یہ ہے کہ قبض روح کے مختلف مدارج ہیں۔ ایک درجہ وہ ہے جو موت کی صورت میں پایا جائے۔ دوسرا وہ جو نیند کی صورت میں ہو۔ قرآن کریم نے بتلا دیا کہ وہ دونوں پر " توفی " کا لفظ اطلاق کرتا ہے۔ کچھ موت کی تخصیص نہیں۔ (يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ) 6 ۔ الانعام :60) اب جس طرح اس نے دو آیتوں میں نوم پر توفی کا اطلاق جائز رکھا حالانکہ نوم میں قبض روح بھی پورا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر " آل عمران " اور " مائدہ " کی دو آیتوں میں " توفی " کا لفظ قبض روح مع البدن پر اطلاق کردیا گیا تو کونسا استحالہ لازم آتا ہے۔ بالخصوص جب یہ دیکھا جائے کہ موت اور نوم میں لفظ " توفی " کا استعمال قرآن کریم ہی نے شروع کیا ہے۔ جاہلیت والے تو عموما اس حقیقت سے ہی ناآشنا تھے کہ موت یا نوم میں خدا تعالیٰ کوئی چیز آدمی سے وصول کرلیتا ہے اسی لئے لفظ " توفی " کا استعمال موت اور نوم پر ان کے یہاں شائع نہ تھا قرآن کریم نے موت وغیرہ کی حقیقت پر روشنی ڈالنے کے لئے اول اس لفظ کا استعمال شروع کیا۔ تو اسی کو حق ہے کہ موت و نوم کی طرح اخذ روح مع البدن کے نادر مواقع میں بھی اسے استعمال کرلے۔ بہرحال آیت حاضرہ میں جمہور کے نزدیک " توفی " سے موت مراد نہیں۔ اور ابن عباس سے بھی صحیح ترین روایت یہ ہی ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) زندہ آسمان پر اٹھائے گئے۔ کما فی روح المعانی وغیرہ زندہ اٹھائے جانے یا دوبارہ نازل ہونے کا انکار سلف میں کسی سے منقول نہیں۔ بلکہ " تلخیص العبیر " میں حافظ ابن حجر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ابن کثیر وغیرہ نے احادیث نزول کو متواتر کہا ہے اور " اکمال اکمال المعلم " میں امام مالک سے اس کی تصریح نقل کی ہے۔ پھر جو معجزات حضرت مسیح (علیہ السلام) نے دکھلائے ان میں علاوہ دوسری حکمتوں کے ایک خاص مناسبت آپ کے رفع الی السماء کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ آپ نے شروع ہی سے متنبہ کردیا کہ جب ایک مٹی کا پتلا میرے پھونک مارنے سے باذن اللہ پرندہ بن کر اوپر اڑا چلا جاتا ہے کیا وہ بشر جس پر خدا نے روح اللہ کا لفظ اطلاق کیا اور " روح القدس " کے نفخہ سے پیدا ہوا، یہ ممکن نہیں کہ خدا کے حکم سے اڑ کر آسمان تک چلا جائے۔ جس کے ہاتھ لگانے یا دو لفظ کہنے پر حق تعالیٰ کے حکم سے اندھے اور کوڑھی اچھے اور مردے زندہ ہوجائیں، اگر وہ اس موطن کون و فساد سے الگ ہو کر ہزاروں برس فرشتوں کی طرح آسمان پر زندہ اور تندرست رہے، تو کیا استبعاد ہے۔ قال قتادہ فطار مع الملائکۃ فھو معھم حول العرش وصارا نسیا ملکیا سماویا ارضیا (بغوی) اس موضوع پر مستقل رسالے اور کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مگر میں اہل علم کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے مخدوم علامہ فقید النظیر مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری اطال اللہ بقاہ، نے رسالہ " عقیدۃ الاسلام " میں جو علمی لعل و جواہر و دیعت کئے ہیں ان سے متمتع ہونے کی ہمت کریں میری نظر میں ایسی جامع کتاب اس موضوع پر نہیں لکھی گئی۔
Top