Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 57
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ
وَاَمَّا : اور جو الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے کام کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک فَيُوَفِّيْهِمْ : تو پورا دے گا اُجُوْرَھُمْ : ان کے اجر وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الظّٰلِمِيْن : ظالم (جمع)
اور ہاں ! جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کے عمل بھی نیک ہیں تو ان کا اجر ان کو پورا پورا مل جائے گا اور اللہ ظلم کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں ہوگا : 130: ایمان لانے کا دعویٰ کرنے والوں کے اعمال کو دیکھا جائے گا۔ ان کے اعمال بھی نیک ہوں گے تو ان کے ایمان لانے کا دعویٰ یقینا سچا ہوگا اگر اعمال اچھے نہ ہوئے تو ان کے ایمان کا اعتبار کیونکر کیا جاسکتا ہے ؟ نہیں نہیں بلکہ دعویٰ کے مطابق دلیل نہ رکھنے والے ہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہوتے ہیں اور ظلم کی حقیقت افراط وتفریط ہے۔ آیت زیر نظر میں ظالموں سے مراد یہود کا ہونا تو ظاہر ہے کیونکہ وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و صداقت بلکہ شرافت نسب تک کے منکر تھے جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے لیکن دوسری طرف اس کے تحت نصاریٰ بھی آجاتے ہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو عبد کے بجائے معبود اور رسول کے بجائے اللہ یا اللہ کا بیٹا یا اللہ کا تیسرا جزو قرار دے رہے ہیں۔ یہود نے تفریط سے کام لیا ہے تو نصاریٰ افراط میں مبتلا ہیں یعنی مقام عدل و اعتدال سے دونوں ہی ہٹے ہوئے ہیں اور اسلام کی زبان میں یہ سب ظلموں سے بڑھ کر ظلم ہے۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ضابطہ الٰہی ایسی شے نہیں جو ہر ایک قوم کے لیے الگ الگ ہو بلکہ ضابطہ الٰہی سب کے لیے یکساں ہے۔ جو بھی خلاف ورزی کرے گا وہ ضابطہ الٰہی کی زد میں آئے گا یہود و نصاریٰ اگر افراط وتفریط کے سبب ظالم قرار پا گئے ہیں تو کل تم بھی افارط وتفریط کے سبب ظالم قرار پاؤ گے اس لیے ضروری ہے کہ ظلم کی پاداش سے بچنے کے لیے افراط وتفریط سے بچا جائے۔
Top