Tafseer-e-Usmani - Al-Anfaal : 43
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَآءَ١ؕ قُلْ اَوَ لَوْ كَانُوْا لَا یَمْلِكُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَعْقِلُوْنَ
اَمِ : کیا اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنا لیا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا شُفَعَآءَ ۭ : شفاعت کرنے والے قُلْ : فرمادیں اَوَلَوْ : یا اگر كَانُوْا لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ نہ اختیار رکھتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَعْقِلُوْنَ : اور نہ وہ سمجھ رکھتے ہوں
کیا انہوں نے پکڑے ہیں اللہ کے سوا کوئی سفارش والے5 تو کہہ ان کو اختیار نہ ہو کسی چیز کا اور نہ سمجھ (تو بھی)6 
5  یعنی بتوں کی نسبت مشرکین دعوے رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ان کے سفارشی ہیں۔ ان ہی کی سفارش سے کام بنتے ہیں۔ اسی لیے ان کی عبادت کی جاتی ہے سو اول تو شفیع ہونے سے معبود ہونا لازم نہیں آتا۔ دوسرے شفیع بھی وہ بن سکتا ہے جسے اللہ کی طرف سے شفاعت کی اجازت ہو اور صرف اس کے حق میں شفاعت کرسکتا ہے جس کو خدا پسند کرے۔ خلاصہ یہ کہ شفیع کا ماذون ہونا اور مشفوع کا مرتضیٰ ہونا ضروری ہے۔ یہاں دونوں باتیں نہیں۔ نہ اصنام (بتوں) کا ماذون ہونا ثابت ہے نہ کفار کا مرتضیٰ ہونا۔ لہذا ان کا دعویٰ غلط ہوا۔ 6 یعنی بتوں کو نہ اختیار ہے نہ سمجھ، پھر ان کو شفیع ماننا عجیب ہے۔
Top