Tafseer-e-Usmani - Al-Hashr : 6
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَمَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : اور جو دلوایا اللہ نے عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسولوں کو مِنْهُمْ : ان سے فَمَآ : تو نہ اَوْجَفْتُمْ : تم نے دوڑائے تھے عَلَيْهِ : ان پر مِنْ خَيْلٍ : گھوڑے وَّلَا رِكَابٍ : اور نہ اونٹ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يُسَلِّطُ : مسلط فرماتا ہے رُسُلَهٗ : اپنے رسولوں کو عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس پر وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
اور جو مال کو لوٹا دیا اللہ نے اپنے رسول پر ان سے سو تم نے نہیں دوڑائے اس پر گھوڑے اور نہ اونٹ لیکن اللہ غلبہ دیتا ہے اپنے رسولوں کو جس پر چاہے اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے8
8  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " کہ یہ ہی فرق رکھا ہے " غنیمت " میں اور " فئے " میں۔ جو مال لڑائی سے ہاتھ لگا وہ غنیمت ہے اس میں پانچواں حصہ اللہ کی نیاز (جس کی تفصیل دسویں پارہ کے شروع میں گزر چکی ہے) اور چار حصے لشکر کو تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اور جو بغیر جنگ کے ہاتھ آیا وہ سب کا سب مسلمانوں کے خزانہ میں رہے (ان کی مصالح عامہ میں) اور جو کام ضروری ہو اس پر خرچ ہو۔ " (تنبیہ) اگر قدرے جنگ ہونے کے بعد کفار مرعون ہو کر صلح کی طرف مسارعت کریں اور مسلمان قبول کرلیں۔ اس صورت میں جو اموال صلح سے حاصل ہوں گے وہ بھی حکم " فئے " میں داخل ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں اموال " فئے " خالص حضور ﷺ کے اختیار و تصرف میں ہوتے تھے۔ ممکن ہے کہ یہ اختیار مالکانہ ہو جو صرف آپ کے لیے مخصوص تھا۔ جیسا کہ آیت حاضرہ میں " علٰی رسولہ " کے لفظ سے متبادر ہوتا ہے۔ اور احتمال ہے کہ محض حاکمانہ ہو بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان اموال کے متعلق آپ ﷺ کو اگلی آیت میں ہدایت فرما دی کہ وجوباً یا ندباً فلاں فلاں مصارف میں صرف کیے جائیں۔ آپ ﷺ کے بعد یہ اموال امام کے اختیار و تصرف میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن اس کا تصرف مالکانہ نہیں ہوتا، محض حاکمانہ ہوتا ہے۔ وہ ان کو اپنی صوابدید اور مشورہ سے مسلمانوں کی عام ضروریات و مصالح میں خرچ کرے گا۔ باقی اموال غنیمت کا حکم اس سے جدا گانہ ہے۔ وہ خمس نکالے جانے کے بعد خالص لشکر کا حق ہوتا ہے۔ کما یدل علٰی قولہ تعالیٰ ۔ (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ ) 8 ۔ الانفال :41) لشکری اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو وہ علیحدہ بات رہی۔ البتہ شیخ ابوبکر رازی حنفی نے " احکام القرآن " میں نقل کیا ہے کہ یہ حکم اموال منقولہ کا ہے غیر منقولہ میں امام کو اختیار ہے کہ مصلحت سمجھے تو لشکر پر تقسیم کر دے اور مصلحت نہ سمجھے تو مصالح عامہ کے لیے رہنے دے۔ جیسا کہ سواد عراق میں حضرت عمر نے بعض جلیل القدر صحابہ کے مشورہ سے یہ ہی عمل درآمد رکھا۔ اسی مسلک کے موافق شیخ ابوبکر رازی نے (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ ) 8 ۔ الانفال :41) کو اموال منقولہ پر اور سورة " حشر " کی آیات کو اموال غیر منقولہ پر حمل کیا ہے۔ اس طرح کی پہلی آیت (وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ ) 59 ۔ الحشر :6) حکم " فئے " پر اور دوسری آیت (مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 59 ۔ الحشر :7) حکم " غنیمت " پر محمول ہے۔ اور لغۃً " غنیمت " کو لفظ " فئے " سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
Top