Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 173
اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّیَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ١ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ
اَوْ : یا تَقُوْلُوْٓا : تم کہو اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں (صرف) اَشْرَكَ : شرک کیا اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور تھے ہم ذُرِّيَّةً : اولاد مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اَفَتُهْلِكُنَا : سو کیا تو ہمیں ہلاک کرتا ہے بِمَا : اس پر جو فَعَلَ : کیا الْمُبْطِلُوْنَ : اہل باطل (غلط کار)
یا کہنے لگو کہ شرک تو نکالا تھا ہمارے باپ دادوں نے ہم سے پہلے اور ہم ہوئے ان کی اولاد ان کے پیچھے تو کیا تو ہم کو ہلاک کرتا ہے اس کام پر جو کیا گمراہوں نے2
2 " میثاق خاص " کے بعد یہاں سے " میثاق عام " کا ذکر کرتے ہیں۔ تمام عقائد حقہ اور ادیان سماویہ کا بنیادی پتھر یہ ہے کہ انسان خدا کی ہستی اور ربوبیت عامہ پر اعتقاد رکھے۔ مذہب کی ساری عمارت اسی سنگ بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ جب تک یہ اعتقاد نہ ہو، مذہبی میدان میں عقل و فکر کی راہنمائی اور انبیاء ومرسلین کی ہدایات کچھ نفع نہیں پہنچا سکتیں۔ اگر پورے غورو تامل سے دیکھا جائے تو آسمانی مذہب کے تمام اصول و فروع بالآخر خدا کی " ربوبیت عامہ " کے اسی عقیدہ پر منتہی ہوتے بلکہ اسی کی تہ میں لپٹے ہوئے ہیں۔ عقل سلیم اور وحی والہام اسی اجمال کی شرح کرتے ہیں پس ضروری تھا کہ یہ تخم ہدایت جسے کل آسمانی تعلیمات کا مبداء و منتہی اور تمام ہدایات ربانیہ کا وجود مجمل کہنا چاہیے، عام فیاضی کے ساتھ نوع انسانی کے تمام افراد میں بکھیر دیا جائے تاکہ ہر آدمی عقل و فہم اور وحی والہام کی آبیاری سے اس تخم کو شجر ایمان و توحید کے درجہ تک پہنچا سکے۔ اگر قدرت کی طرف سے قلوب بنی آدم میں ابتداء یہ تخم ریزی نہ ہوتی اور اس کی سب سے زیادہ اساسی و جوہری عقدہ کا حل ناخن عقل و فکر کے سپرد کردیا جاتا، تو یقیناً یہ مسئلہ بھی منطقی استدلال کی بھول بھلیاں میں پھنس کر ایک نظری مسئلہ بن کر رہ جاتا، جس پر سب تو کیا اکثر آدمی بھی متفق نہ ہوسکتے جیسا کہ تجربہ بتلاتا ہے کہ فکر و استدلال کی ہنگامہ آرائیاں اکثر اتفاق سے زیادہ اختلاف آراء پر منتج ہوتی ہیں۔ اس لیے قدرت نے جہاں غور و فکر کی قوت اور نور وحی والہام کے قبول کرنے کی استعداد بنی آدم میں ودیعت فرمائی، وہیں اس اساسی عقیدہ کی تعلیم سے ان کو فطرۃً بہرہ ور کیا جس کے اجمال میں کل آسمانی ہدایات کی تفصیل منطوی و مندمج تھی اور جس کے بدوں مذہب کی عمارت کا کوئی ستون کھڑا نہیں رہ سکتا۔ یہ اسی ازلی اور خدائی تعلیم کا اثر ہے کہ آدم کی اولاد ہر قرن اور ہر گوشہ میں حق تعالیٰ کی ربوبیت عامہ کے عقیدہ پر کسی نہ کسی حد تک متفق رہی ہے۔ اور جن معدود افراد نے کسی عقل و روحی بیماری کی وجہ سے اس عام فطری احساس کے خلاف آواز بلند کی ہے وہ انجام کار دنیا کے سامنے بلکہ خود اپنی نظر میں بھی اسی طرح جھوٹے ثابت ہوئے جیسے ایک بخار وغیرہ کا مریض لذیذ اور خوشگوار غذاؤں کو تلخ اور بدمزہ بتلانے میں جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔ بہرحال ابتدائے افرینش سے آج تک ہر درجہ اور طبقہ کے انسانوں کا خدا کی ربوبیت کبریٰ پر عام اتفاق و اجماع اس کی زبردست دلیل ہے کہ یہ عقیدہ عقول و افکار کی دوا دوش سے پہلے ہی فاطر حقیقی کی طرف سے اولاد آدم کو بلاواسطہ تلقین فرما دیا گیا ورنہ فکر و استدلال کے راستہ سے ایسا اتفاق پیدا ہوجانا تقریباً ناممکن تھا۔ قرآن کریم کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ اس نے آیات حاضرہ میں عقیدہ کی اس فطری یکسانیت کے اصلی راز پر روشنی ڈالی۔ بلاشبہ ہم کو یاد نہیں کہ اس بنیادی عقیدہ کی تعلیم کب اور کہاں اور کس ماحول میں دی گئی۔ تاہم جس طرح ایک لیکچرار اور انشاء پرداز کو یقین ہے کہ ضرور اس کو ابتدائے عمر میں کسی نے الفاظ بولنے سکھلائے، جس سے ترقی کر کے آج اس رتبہ کو پہنچا۔ گو پہلا لفظ سکھلانے والا اور سکھلانے کے وقت، مکان اور دیگر خصوصیات مقامی بلکہ نفس سکھلانا بھی یاد نہیں۔ تاہم اس کے موجودہ آثار سے یقین ہے کہ ایسا واقعہ ضرور ہوا ہے۔ اسی طرح بنی نوع انسان کا علیٰ اختلاف الاقوام والاجیال " عقیدہ ربوبیت الٰہی " پر متفق ہونا اس کی کھلی شہادت ہے کہ یہ چیز بدء فطرت میں کسی معلم کے ذریعہ سے ان تک پہنچی ہے۔ باقی تعلیمی خصوصیات و احوال کا محفوظ نہ رہ سکنا اس کی تسلیم میں خلل انداز نہیں ہوسکتا۔ اسی ازلی و فطری تعلیم نے جس کا نمایاں اثر آج تک انسانی سرشت میں موجود چلا آتا ہے، ہر انسان کو خدا کی حجت کے سامنے ملزم کردیا ہے۔ جو شخص اپنے الحادو شرک کو حق بجانب قرار دینے کے لیے غفلت، بیخبر ی یا آباؤ اجداد کی کو رانہ تقلید کا عذر کرتا ہے، اس کے مقابلہ پر خدا کی یہی حجت قاطعہ جس میں اصل فطرت انسانی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، بطور فیصلہ کن جواب کے پیش کی جاسکتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ " اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی پشت سے ان کی اولاد اور ان سے ان کی اولاد نکالی، سب سے اقرار کروایا اپنی خدائی کا۔ پھر پشت میں داخل کیا۔ اس سے مدعا یہ ہے کہ خدا کے رب مطلق ماننے میں ہر کوئی آپ کفایت کرتا ہے، باپ کی تقلید نہ چاہیے۔ اگر باپ شرک کرے بیٹے کو چاہیے ایمان لاوے۔ اگر کسی کو شبہ ہو کہ وہ عہد تو یاد نہیں رہا پھر کیا حاصل ؟ تو یوں سمجھے کہ اس کا نشان ہر کسی کے دل میں ہے اور ہر زبان پر مشہور ہو رہا ہے کہ سب کا خالق اللہ ہے سارا جہان قائل ہے اور جو کوئی منکر ہے یا شرک کرتا ہے سو اپنی عقل ناقص کے دخل سے، پھر آپ ہی جھوٹا ہوتا ہے۔ "
Top