Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 173
اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّیَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ١ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ
اَوْ : یا تَقُوْلُوْٓا : تم کہو اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں (صرف) اَشْرَكَ : شرک کیا اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور تھے ہم ذُرِّيَّةً : اولاد مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اَفَتُهْلِكُنَا : سو کیا تو ہمیں ہلاک کرتا ہے بِمَا : اس پر جو فَعَلَ : کیا الْمُبْطِلُوْنَ : اہل باطل (غلط کار)
یا کہو اے اللہ ! شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادوں نے کیا ہم ان کی نسل میں بعد کو پیدا ہوئے پھر کیا تو ہمیں اس بات کے لیے ہلاک کرے گا جو جھوٹی راہ چلنے والوں نے کی تھی ؟
بنی آدم کو یہ عہد اس لئے دیا جا رہا ہے تاکہ وہ قیامت کو کوئی عذر نہ کرسکیں : 197: آیت 172 کے آخری ٹکڑے اور آیت 173 میں وہ غرض بیان فرما دی جس کے لئے وہ عہد فطری نسل آدم سے لیا گیا تھا اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے رب سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں انہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق امتوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہو سکیں گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس فطری عہد و میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوع انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الہ واحد اور رب ہونے کی شہادت اپنے اندر دئیے ہوئے ہے اور اس بناء پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بیخبر ی کے سبب سے یا ایک گمراہ ماحول میں پرورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ داری سے بالکل بری ہو سکتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عہد فطری فی الواقع لیا گیا ہے تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں محفوظ ہے ؟ کیا ہم سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغاز آفرنیش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے الست بربکم کا سوال ہوا تھا اور اس نے بلیٰ کہا تھا ؟ اگر نہیں تو پھر اس اقرار کو جس کی یاد ہمارے شعور و حافظہ سے محو ہوچکی ہے ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس عہد فطری کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں محفوظ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجے جانا سرے سے فضول ہوجاتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائش و امتحان کے کوئی معنی ہی نہیں رہ جاتے ۔ بلا شبہ اس کا نقش شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا لیکن وہ تحت الشعور Conscious Mind Sub اور وجدان Intution میں یقیناً محفوظ ہے اور اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علم کا ہے ۔ تہذیب و تمدن اور اخلاقی معاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب در حقیقت انسان کے اندر بالقوہ (Potentially) موجود تھا فرق یہ ہے قرآن کریم میں صرف اس بات کا ذکر کیا گیا جو رب کریم کے متعلق ہے کیونکہ یہ تعلق سارے انسانوں کا اپنے رب العزت سے ایک ہی طرح کا تھا ۔ مختصر یہ کہ انسان کے اندر اس بالقوہ وہ موجود ہونے والی شے کو خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کہا تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوہ تھا اسے بالفعل کردیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم ، کوئی تربیت ، کوئی ماحول تاثیر اور داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ان چیزوں میں سے جو انسان کے اندر بالقوہ موجود ہیں کسی چیز کو قطعی محو کردیں ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کرسکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف (Pervert) کردیں لیکن وہ چیز تمام تحریفات و تمسیخات کے باوجود اندر ہی رہے گی ، ظہور میں آنے کے لئے زور لگاتی رہے گی اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لئے مستعد رہے گی ۔ یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے اور وہ سب ہمارے اندر بالقوہ موجود ہیں اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت ان چیزوں سے ہمیں ملتا ہے جو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی ہیں ۔ مثلاََ چند مختلف پیشہ لوگوں کے پیشوں کو آپ جانتے ہیں لیکن آپ ان میں سے ایک پیشہ بھی نہیں جانتے تاہم سارے پیشہ وروں کے پیشے آپ میں بالقوہ موجود ہیں ۔ آپ ان میں سے جس کے لئے کوشش کریں گے وہ آپ کے تحت الشعور سے نکل کر شعور میں آئے گا اور آپ یقیناً اس کو کرنے لگیں گے گویا اب وہ آپ میں بالفعل موجود ہوگیا۔ معلوم ہوگیا کہ ان سب کے ظہور میں آنے کے لئے خارجی تذکیر یعنی یاد دہانی ، تعلیم ، تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا در حقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالقوہ موجودات کی طرف سے ملتا ہے ۔ ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تاثیرات دبا کر پردہ ڈال کر منحرف اور مسخ کرکے کالعدم کرسکتی ہیں مگر بالکل معدوم نہیں کرسکتیں اور اس لئے اندرونی احساس اور بیرونی سعی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی (Conversion) ممکن ہوتی ہے ۔ ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت اور خالق کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے ۔ اس کے موجود ہونے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں زمین کے ہر خطہ میں ، ہر بستی میں ، ہر پشت اور ہر نسل میں ابھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کردینے میں کامیاب نہیں ہوئی اور اس کے مطابق حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ ابھر کر بالفعل ہماری زندگی میں کارفرما ہوا ہے اس نے صالح اور مفید نتائج ہی پیدا کئے ہیں ۔ اس کے ابھرنے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کیلئے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے ۔ چناچہ انبیاعلیہم السلام اور کتب آسمانی اور ان کی پیروی کرنے والے داعین حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں ۔ اس لئے ان کو قرآن کریم میں مذکر (یاد دلانے والا) ذکر (یاد) تذکرہ (یاداشت) اور ان کے کام کو تذکیر (یاد دہانی) کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیان حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اس چیز کو ابھارتے ہیں اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ نفس انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اس تذکیر کا جواب بصورت لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لئے ابھر آیا ۔ چونکہ اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشات نفس اور تعصبات اور شیاطین جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ اسے دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک ، دہریت ، زندقہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اس لئے تذکیر و تجوید کی کوششیں اسے ابھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ ہاں ! دنیا کی موجودہ زندگی میں جو لوگ حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں وہ اپنی حجت بازیوں سے اس پیدائشی نقش کے وجود کا انکار کرسکتے ہیں یا کم از کم اسے مشتبہ ضرور کرسکتے ہیں لیکن جس وقت یوم الحساب برپا ہوگا اس روز ان کا خالق ان کے شعور و حافظہ میں اس فطری عہد کے اس اجتماع کی یقیناً یاد تازہ کردے گا جب کہ انہوں نے اس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا ۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی ان کے اپنے نفس ہی سے فراہم کر دے گا۔ اس لئے کہ اس فطری عہد کا نقش ان کے نفس میں برابر موجود رہا اور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے علیٰ روس الاشہاد دکھا دے گا کہ انہوں نے کس کس طرح اس نقش کو دبایا ، کب کب اور کن کن مواقع پر ان کے قلب سے تصدیق کی آوازیں اٹھیں ، اپنی اور اپنے گردوپیش کی گمراہیوں پر ان کے وجدان نے کہاں کہاں اس کس کس وقت صدائے انکار بلند کی ۔ داعیان حق کی دعوت کا جواب دینے کے لئے ان کے اندر کا چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ ابھرنے پر آمادہ ہوا اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی بناء پر کیسے کیسے حیلوں اور بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور اس کو خاموش کردیتے رہے۔ وہ وقت جب کہ یہ سارے راز فاش ہوں گے حجت بازیوں کا نہ ہوگا بلکہ صاف صاف اقرار جرم کا ہوگا اس لئے قرآن کریم کہتا ہے کہ اس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ہم کافر تھے یعنی ہم نے جان بوجھ کر حق کا انکار کیا جیسا کہ سورة الانعام کی آیت 130 میں ارشاد فرمایا کہ و شھدوا علیٰ انفسھم کافرین۔
Top