Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 5
فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَاۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
فَمَا كَانَ : پس نہ تھا دَعْوٰىهُمْ : ان کا کہنا (ان کی پکار) اِذْ : جب جَآءَهُمْ : ان پر آیا بَاْسُنَآ : ہمارا عذاب اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ (تو) قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
پھر یہی تھی ان کی پکار جس وقت کہ پہنچا ان پر ہمارا عذاب کہ کہنے لگے بیشک ہمیں تھے گناہ گار1
1 یعنی جب ان کے ظلم وعدوان اور کفر و عصیان کی حد ہوچکی، تو دنیا کی لذات و شہوات میں منہمک اور عذاب الہٰی سے بالکل بےفکر ہو کر خواب استراحت کے مزے لینے لگے کہ یکایک ہمارے عذاب نے آدبوچا۔ پھر ہلاکت آفرینیوں کے اس دہشت ناک منظر اور ہنگامہ دارو گیر میں ساری طمطراق بھول گئے چاروں طرف سے اِنَّا کُنَّا ظَالِمِیْنَ کی چیخ پکار کے سوا کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ گویا اس وقت انہیں واضح ہوا اور اقرار کرنا پڑا کہ خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا ہم خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں (تنبیہ) فَجَاءَھَا بَاْسُنَا کی " فائ " میں مفسرین کے کئی قول ہیں، غالباً مترجم محقق قدس سرہ، نے اس کو اَھْلَکْنٰھَاکی تفسیر و تفصیل قرار دیا ہے جیسے کہا جائے توضّاً فغسلَ وَجْھَہ، وذراعَیْہِ (فلاں شخص نے وضو کیا تو دھویا چہرہ اور ہاتھ وغیرہ) اس مثال میں منہ ہاتھ دھونا وضو کرنے ہی کی تفصیل و تفسیر ہے۔ اس طرح یہاں ہلاک کرنے کی تفسیر و تفصیل کیفیت عذاب کے بیان سے ہوگئی۔ واللہ اعلم۔
Top