Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 58
وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ١ۚ وَ الَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا١ؕ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَالْبَلَدُ : اور زمین الطَّيِّبُ : پاکیزہ يَخْرُجُ : نکلتا ہے نَبَاتُهٗ : اس کا سبزہ بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّهٖ : اس کا رب وَالَّذِيْ : اور وہ جو خَبُثَ : نا پاکیزہ (خراب) لَا يَخْرُجُ : نہیں نکلتا اِلَّا : مگر نَكِدًا : ناقص كَذٰلِكَ : اسی طرح نُصَرِّفُ : پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّشْكُرُوْنَ : وہ شکر ادا کرتے ہیں
اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کا سبزہ نکلتا ہے اس کے رب کے حکم سے اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر ناقص یوں پھیر پھیر کر بتلاتے ہیں ہم آیتیں حق ماننے والے لوگوں کو2
2 پچھلی آیات میں " استواء علی العرش " کے ساتھ فلکیات (چاند، سورج وغیرہ) میں جو خدائی تصرفات ہیں، ان کا بیان تھا، درمیان میں بندوں کو کچھ مناسب ہدایات کی گئیں۔ اب سفلیات اور " کائنات الجو " کے متعلق اپنے بعض تصرفات کا ذکر فرماتے ہیں تاکہ لوگ معلوم کرلیں کہ آسمان زمین اور ان دونوں کے درمیانی حصہ کی کل حکومت صرف اسی رب العالمین کے قبضہء قدرت میں ہے۔ ہوائیں چلانا، مینہ برسانا، قسم قسم کے پھول پھل پیدا کرنا ہر زمین کی استعداد کے موافق کھیتی اور سبزہ اگانا، یہ سب اسی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے نشان ہیں۔ اسی ذیل میں مردوں کا موت کے بعد جی اٹھنا اور قبروں سے نکلنا بھی سمجھا دیا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ " ایک تو مردوں کا نکلنا قیامت میں ہے اور ایک دنیا میں یعنی جاہل ادنیٰ لوگوں میں (جو جہالت و ذلت کی موت سے مرچکے تھے) عظیم الشان نبی بھیجا اور انہیں علم دیا اور دنیا کا سردار کیا، پھر ستھری استعداد والے کمال کو پہنچے اور جن کی استعداد خراب تھی ان کو بھی فائدہ پہنچ رہا ناقص سا۔ " گویا اس پورے رکوع میں بتلا دیا گیا کہ جب خدا اپنی رحمت و شفقت سے رات کی تاریکی میں ستارے چاند، سورج سے روشنی کرتا ہے اور خشکی کے وقت زمین کو سرسبز و شاداب کرنے اور انسان و حیوانات کی زندگی کا سامان مہیا فرمانے کے لئے اوپر سے بارش بھیجتا ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایسا مہربان خدا اپنی مخلوق کو جہل و ظلم کی اندھیریوں سے نکالنے کے لئے کوئی چاند اور سورج پیدا نہ کرے اور بنی آدم کی روحانی غذا تیار کرنے اور قلوب کے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لئے باران رحمت نازل نہ فرمائے۔ بلاشبہ اس نے ہر زمانہ کی ضرورت اور اپنی حکمت کے موافق پیغمبروں کو بھیجا جن کے منور سینوں سے دنیا میں روحانی روشنی پھیلی اور وحی الہٰی کی لگاتار بارشیں ہوئیں۔ چناچہ آئندہ کئی رکوع میں ان ہی پیغمبروں کے بھیجنے کا ذکر کیا گیا ہے اور جیسا کہ بارش اور زمین کی مثال میں اشارہ کیا گیا کہ مختلف زمینیں اپنی اپنی استعداد کے موافق بارش کا اثر قبول کرتی ہیں، اسی طرح سمجھ لو کہ انبیاء (علیہم السلام) جو خیرو برکت لے کر آتے ہیں، اس سے منتفع ہونا بھی حسن استعداد پر موقوف ہے جو لوگ ان سے انتفاع نہیں کرتے انہیں اپنی سوء استعداد پر رونا چاہیے باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست ' درباغ لالہ روید و درشورہ بوم خس
Top