Tafseer-e-Usmani - Al-Anfaal : 34
وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَ هُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَا كَانُوْۤا اَوْلِیَآءَهٗ١ؕ اِنْ اَوْلِیَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور کیا لَهُمْ : ان کے لیے (ان میں) اَلَّا : کہ نہ يُعَذِّبَهُمُ : انہیں عذاب دے اللّٰهُ : اللہ وَهُمْ : جبکہ وہ يَصُدُّوْنَ : روکتے ہیں عَنِ : سے الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَمَا : اور نہیں كَانُوْٓا : وہ ہیں اَوْلِيَآءَهٗ : اس کے متولی اِنْ : نہیں اَوْلِيَآؤُهٗٓ : اس کے متولی اِلَّا : مگر (صرف) الْمُتَّقُوْنَ : متقی (جمع) وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور ان میں کیا بات ہے کہ عذاب نہ کرے ان پر اللہ اور وہ تو روکتے ہیں مسجد حرام سے اور وہ اس کے اختیار والے نہیں اس کے اختیار والے تو وہی ہیں جو پرہیزگار ہیں لیکن ان میں اکثروں کو اس کی خبر نہیں7
7 یعنی عذاب کا نہ آنا ان دو سبب سے ہے جو اوپر مذکور ہوئے، ورنہ تمہاری شرارتیں اور ظلم و شقاوت تو ایسی چیزیں ہیں کہ فوراً عذاب آجانا چاہیے۔ اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگا کہ موحدین کو حرم شریف میں آنے یا عبادت کرنے سے طرح طرح کے حیلے تراش کر روکا جائے بلکہ ان کے وطن (مکہ معظمہ) سے نکال کر ہمیشہ کے لیے کوشش کی جائے کہ یہ خدا کے پاکباز اور عبادت گزار بندے یہاں نہ آنے پائیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ظلم کے جواز کے لیے یہ سند پیش کی جاتی ہے کہ ہم حرم شریف کے متولی با اختیار ہیں جس کو چاہیں آنے دیں جسے چاہیں روک دیں، یہ ہمارا حق ہے۔ حالانکہ اول تو یہ حق متولی کو بھی نہیں کہ مسجد میں لوگوں کو نماز و عبادت سے روکے۔ دوسرے حق تولیت ان کو پہنچتا بھی نہیں۔ حرم شریف کے متولی صرف متقی اور پرہیزگار بندے ہوسکتے ہیں مشرک اور بدمعاش اس کے حقدار نہیں ہوسکتے۔ لیکن ان میں اکثر اپنی جہالت سے یوں سمجھ رہے ہیں کہ ہم اولاد ابراہیم ہیں اور فلاں قبیلہ سے ہیں تولیت کعبہ ہمارا موروثی حق ہے جس کے لیے کوئی خاص شرط و قید نہیں۔ سو بتلا دیا کہ اولاد ابراہیم میں جو پرہیزگار ہو اسی کا حق ہے۔ ایسے بےانصافوں کا حق نہیں کہ جس سے وہ آپ ناخوش ہوئے نہ آنے دیا۔
Top