Tafseer-e-Usmani - An-Nisaa : 105
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ١ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَاِذَا : پھر جب انْسَلَخَ : گزر جائیں الْاَشْهُرُ : مہینے الْحُرُمُ : حرمت والے فَاقْتُلُوا : تو قتل کرو الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع) حَيْثُ : جہاں وَجَدْتُّمُوْهُمْ : تم انہیں پاؤ وَخُذُوْهُمْ : اور انہیں پکڑو وَاحْصُرُوْهُمْ : اور انہیں گھیر لو وَاقْعُدُوْا : اور بیٹھو لَهُمْ : ان کے لیے كُلَّ مَرْصَدٍ : ہرگھات فَاِنْ : پھر اگر تَابُوْا : وہ توبہ کرلیں وَاَقَامُوا : اور قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ : اور زکوۃ ادا کریں فَخَلُّوْا : تو چھوڑ دو سَبِيْلَهُمْ : ان کا راستہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحیم
پھر جب گزر جائیں مہینے پناہ کے تو مارو مشرکوں کو جہاں پاؤ اور پکڑو اور گھیرو اور بیٹھو ہر جگہ ان کی تاک میں پھر اگر وہ توبہ کریں اور قائم رکھیں نماز اور دیا کریں زکوٰۃ تو چھوڑ دو ان کا راستہ بیشک اللہ ہے بخشنے والا مہربان5
5 استثناء سے فارغ ہو کر پھر مستثنیٰ منہ کا حکم بیان فرماتے ہیں۔ یعنی ان عہد شکنی کرنے والوں سے اگرچہ اب کوئی معاہدہ باقی نہ رہا اور اس لیے علی الفور جنگ کی جاسکتی ہے تاہم " اشہر حرم " کی رعایت مانع ہے کہ فوراً ان پر حملہ کیا جائے خواہ اس لیے کہ اس وقت تک اشہر حرم میں ابتداء قتال کرنا ممنوع ہوگا یا مصلحتا کہ تھوڑی سی بات کے لیے عام لوگوں میں کیوں تشویش پیدا کی جائے کیونکہ ان مہینوں میں قتال کی حرمت ان کے یہاں معروف و مسلم چلی آتی تھی۔ بہرحال ماہ محرم کے ختم تک ان کو مہلت دی گئی کہ جو چاہیں اپنا بندوبست کرلیں۔ اس کے بعد تطہیر جزیرۃ العرب کی خاطر جنگ سے چارہ نہیں۔ جو کچھ برتاؤ جنگ میں ہوتا ہے (مارنا، پکڑنا، گھیرنا، داؤ لگانا، گھات میں رہنا) وہ سب ہوگا، البتہ اگر بظاہر کفر سے توبہ کر کے اسلامی برادری میں داخل ہوجائیں جس کی بڑی علامت نماز ادا کرنا اور زکوٰۃ دینا ہے تو پھر مسلمانوں کو ان سے تعرض کرنے اور ان کا راستہ روکنے کی اجازت نہیں۔ رہا باطن کا معاملہ وہ خدا کے سپرد ہے مسلمانوں کا معاملہ اس کے ظاہر کو دیکھ کر ہوگا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کلمہ اسلام پڑھ کر نماز ادا نہ کرے یا زکوٰۃ نہ دے تو مسلمان اس کا راستہ روک سکتے ہیں۔ امام احمد، امام شافعی، امام مالک کے نزدیک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ تارک صلوٰۃ اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دے۔ (امام احمد کے نزدیک رِدَّۃ اور مالک و شافعی کے نزدیک حداً وتعزیراً ) امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اسے خوب زدوکوب کرے اور قید میں رکھے حَتّٰی یَمُوتُ اَوْیَتُوبُ (حتی کہ مرجائے یا توبہ کرے) بہرحال تخلیہ سبیل کسی کے نزدیک نہیں۔ رہے مانعین زکوٰۃ ان کے اموال میں سے حکومت جبراً زکوٰۃ وصول کرے اور اگر وہ لوگ مل کر حکومت سے آمادہ پیکار ہوں تو راہ راست پر لانے کے لیے جنگ کی جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے مانعین زکوٰۃ پر جو جہاد کیا تھا اس کا واقعہ کتب حدیث و تاریخ میں مشہور و معروف ہے۔
Top