مشکوٰۃ المصابیح - منصب قضا کی انجام دہی اور اس سے ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 3673
وعن معاذ بن جبل : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم لما بعثه إلى اليمين قال : كيف تقضي إذا عرض لك قضاء ؟ قال : أقضي بكتاب الله قال : فإن لم تجد في كتاب الله ؟ قال : فبسنة رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : فإن لم تجد في سنة رسول الله ؟ قال : أجتهد رأيي ولا آلو قال : فضرب رسول الله صلى الله عليه و سلم على صدره وقال : الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضى به رسول الله . رواه الترمذي وأبو داود والدارمي
قیاس واجتہاد برحق ہے
اور حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جب ان (معاذ) کو (قاضی وحاکم بنا کر) یمن بھیجا تو ان سے (بطور امتحان) پوچھا کہ جب تمہارے سامنے کوئی قضیہ پیش ہوگا تو تم کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ میں کتاب اللہ (قرآن کریم) کے موافق فیصلہ کروں گا۔ فرمایا اگر تمہیں وہ مسئلہ (صراحتًہ) کتاب اللہ میں نہ ملا؟ انہوں نے کہا پھر میں سنت رسول اللہ ﷺ (حدیث نبوی ﷺ کے موافق فیصلہ کروں گا فرمایا اگر تمہیں وہ مسئلہ سنت رسول ﷺ میں بھی نہ ملا؟ انہوں نے کہا تو پھر میں اپنی عقل سے اجتہاد کروں گا اور (اپنے اجتہاد و حقیقت رسی میں) کوتاہی نہیں کروں گا۔ (یا وہ روای جنہوں نے یہ حدیث معاذ سے روایت کی ہے۔ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) اپنا دست مبارک معاذ کے سینے پر مارا (تاکہ اس کی برکت سے وہ اپنی بات پر ثابت قدم رہیں اور ان کے علم میں اضافہ ہو اور فرمایا) تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے رسول کریم ﷺ کے رسول (یعنی معاذ) کو اس چیز کی توفیق عطا کی جس سے (اللہ) اور اس کا رسول ﷺ راضی ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی)

تشریح
میں اپنی عقل سے اجتہاد کروں گا کا مطلب یہ ہے کہ میں اس قضیہ کا حکم ان مسائل پر قیاس کے ذریعہ حاصل کروں گا جو نصوص یعنی کتاب وسنت میں مذکور ہیں بایں طور کہ کتاب وسنت میں اس قضیہ کے مشابہ جو مسائل مذکور ہیں ان کے مطابق اس قضیہ کا حکم و فیصلہ کروں گا۔ مظہر نے بھی اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے۔ کہ پہلے میں غور وفکر کروں گا کہ میرے سامنے جو قضیہ پیش ہوا ہے کہ جس کا کوئی حکم کتاب وسنت میں مذکور نہیں ہے وہ کون سے ایسے مسئلہ سے مشابہ ہے جو کتاب وسنت میں مذکور ہے جب میں ان دونوں کے درمیان مشابہت پاؤں گا تو اس کا وہی حکم و فیصلہ کروں گا جو کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ میں مذکور مسئلہ کا ہے، چناچہ آئمہ مجتہدین کے یہاں اس قیاس پر بہت سے مسائل کا استنباط کیا گیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان آئمہ مجتہدین نے قیاس کی علت و بنیاد میں اختلاف کی ہے مثلًا گیہوں کے ربوا (سود) کے حرام ہونے کے بارے میں نفس (یعنی صریح حکم ) جب کہ تربوز کے بارے میں ایسی نص نہیں ہے۔ لہٰذا حضرت امام شافعی نے تربوز کو گیہوں پر قیاس کرتے ہوئے اس کے ربوا کو بھی حرام قرار دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک گیہوں کے ربوا کے حرام ہونے علت اس کا کھائی جانے والی چیز ہے اس لئے گیہوں کے حکم پر قیاس کرتے ہوئے اس کا ربوا بھی حرام ہوگا۔ جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک گیہوں کے ربوا کے حرام ہونے کی علت چونکہ اس کا مکیل (یا موزون) ہونا ہے اس لئے انہوں نے گیہوں پر چونے کو قیاس کیا اور یہ مسئلہ اخذ کیا کہ چونے کا ربوا بھی حرام ہے۔ بہرحال یہ حدیث قیاس و اجتہاد کے مشروع ہونے کی علت کی بہت مضبوط دلیل ہے اور اصحاب ظواہر (غیر مقلدین) کے مسلک کے خلاف ہے جو قیاس و اجتہاد کے منکر ہیں۔
Top