مسند امام احمد - - حدیث نمبر 2943
حدیث نمبر: 2943
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَخْبَرَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُمَا سَمِعَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ:‏‏‏‏ مَرَرْتُ بِهِشَامِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَهُوَ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَمَعْتُ قِرَاءَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُوَ يَقْرَأُ عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكِدْتُ أُسَاوِرُهُ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرْتُ حَتَّى سَلَّمَ فَلَمَّا سَلَّمَ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي سَمِعْتُكَ تَقْرَؤُهَا ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ كَذَبْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُوَ أَقْرَأَنِي هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي تَقْرَؤُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقْتُ أَقُودُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيهَا وَأَنْتَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَرْسِلْهُ يَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏اقْرَأْ يَا هِشَامُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هَكَذَا أُنْزِلَتْ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اقْرَأْ يَا عُمَرُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَأْتُ بِالْقِرَاءَةِ الَّتِي أَقْرَأَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ.
اس بارے میں قرآن سات قراءتوں پر نازل ہوا
مسور بن مخرمہ ؓ اور عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ ان دونوں نے عمر بن خطاب ؓ کو کہتے ہوئے سنا ہے: میں ہشام بن حکیم بن حزام کے پاس سے گزرا، وہ سورة الفرقان پڑھ رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ زندہ تھے، میں نے ان کی قرأت سنی، وہ ایسے حرفوں پر پڑھ رہے تھے، جن پر رسول اللہ نے مجھے پڑھایا ہی نہ تھا۔ قریب تھا کہ میں ان پر حملہ کردیتا مگر میں نے انہیں (نماز پڑھ لینے تک کی) مہلت دی۔ جونہی انہوں نے سلام پھیرا میں نے ان کو انہیں کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر گھسیٹا، میں نے ان سے پوچھا: یہ سورة جسے میں نے تمہیں ابھی پڑھتے ہوئے سنا ہے، تمہیں کس نے پڑھائی ہے؟ کہا: مجھے رسول اللہ نے پڑھائی ہے۔ میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو، قسم اللہ کی! رسول اللہ نے ہی مجھے یہ سورة پڑھائی جو تم پڑھ رہے تھے ١ ؎، میں انہیں کھینچتا ہوا نبی اکرم کے پاس لے گیا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورة الفرقان ایسے حرفوں (طریقوں) پر پڑھتے ہوئے سنا ہے جن پر آپ نے مجھے پڑھنا نہیں سکھایا ہے جب کہ آپ ہی نے مجھے سورة الفرقان پڑھایا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: عمر! انہیں چھوڑ دو، ہشام! تم پڑھو ۔ تو انہوں نے وہی قرأت کی جو میں نے ان سے سنی تھی۔ آپ نے فرمایا: ہاں، ایسی ہی نازل ہوئی ہے ۔ پھر مجھ سے آپ نے فرمایا: عمر! تم پڑھو ، تو میں نے اسی طرح پڑھا جس طرح آپ نے مجھے پڑھایا تھا، آپ نے فرمایا: ہاں، اسی طرح نازل کی گئی ہے ، پھر آپ نے فرمایا: یہ قرآن سات حرفوں پر اتارا گیا ہے ٢ ؎، تو جو قرأت تمہیں آسان لگے اسی قرأت پر تم قرآن پڑھو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - مالک بن انس نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اپنی روایت میں مسور بن مخرمہ کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الخصومات ٤ (٢٤١٩)، وفضائل القرآن ٥ (٤٩٩٢)، و ٢٧ (٥٠٤١)، والمرتدین ٩ (٦٩٣٦)، والتوحید ٥٣ (٧٥٥٠)، صحیح مسلم/المسافرین ٤٨ (٨١٨)، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٧ (١٤٧٥)، سنن النسائی/الإفتتاح ٣٧ (٩٣٧-٩٣٩) (تحفة الأشراف: ١٠٥٩١ و ١٠٦٤٢)، وط/القرآن ٤ (٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: لیکن جس طرح تم پڑھ رہے تھے اس طرح مجھے رسول اللہ نے نہیں پڑھایا، اس لیے تم غلط گو ہو۔ ٢ ؎: سات حرفوں پر قرآن کے نازل ہونے کے مطلب میں علماء کے بہت سے اقوال ہیں، لیکن سب سے راجح مطلب یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کی ادائیگی (لہجہ) یا اس کے ہم معنی دوسرے لفظ کا استعمال مراد ہے جیسے بعض قبائل «حَتّٰی حِیْنَ» کو عین سے «عتّٰی حِیْنَ» پڑھتے تھے، اور جیسے «سُکٰریٰ» کو «سَکْرٰی» یا «سکر» پڑھتے تھے وغیرہ وغیرہ تو جس قبیلے کا جس لفظ میں جو لہجہ تھا اس کو پڑھنے کی اجازت دیدی گئی تاکہ قرآن پڑھنے میں لوگوں کو آسانی ہو، لیکن اس کا معنی یہ بھی نہیں ہے کہ قرآن کے ہر لفظ میں سات لہجے یا طریقے ہیں، کسی میں دو، کسی میں چار، اور شاذ و نادر کسی میں سات لہجے ہیں، زیادہ تر میں صرف ایک ہی لہجہ ہے، عثمان ؓ نے سب ختم کر کے ایک لہجہ یعنی قریش کی زبان پر قرآن کو جمع کر کے باقی سب کو ختم کرا دیا تھا، تاکہ اب اس طرح کا جھگڑا ہی نہ ہو، «فجزاہ اللہ عن الاسلام خیراً»۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1325)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2943
Top