Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ankaboot : 9
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَنُدْخِلَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں داخل کریں گے فِي الصّٰلِحِيْنَ : نیک بندوں میں
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انکو ہم نیک لوگوں میں داخل کریں گے
9 تا 11۔ مطلب یہ ہے کہ ہم ایمانداروں کو اور ان کو جنہوں نے اچھے عمل کئے ہیں اپنے نیک بندوں میں داخل کریں گے اس سے مقصود یہ ہے کہ نیک بندوں کے رہنے کی جگہ جنت میں ان کو رکھا جائے گا اس کے بعد ارشاد کیا کہ لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ایمان لائے ہم اللہ پر لیکن وہ لوگ یہ بات صرف زبان سے کہتے ہیں ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے اسی واسطے ان کا یہ حال ہے کہ جب ان کو کوئی تکلیف پہنچے تو پھر وہ لوگ دین اسلام سے پھرجاتے ہیں غرضیکہ ان لوگوں کو اگر بھلائی حاصل ہوئے تو اطمینان ہے اور اگر کچھ جانچ ہوئی تو پھرگئے۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اگر آجاوے مدد اور فتح تیرے رب کی طرف سے تو کہنے لگے ہم تمہارے ساتھ ہیں کیا اللہ کو خبر نہیں اس کو جو جہان کے لوگوں کے دلوں میں ہے وہ سب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے اگرچہ وہ منافق ظاہر میں تمہارے ساتھ ہونے کا دم بھریں لیکن اللہ خوب جان لے گا ایمان والوں کو اور خوب جان لے گا منافقوں کو کہ کون مطیع ہے اور کون نافرمان ہے تفسیر ضحاک 1 ؎ میں ہے کہ مکہ میں بعضے لوگ ایسے تھے جو مشرکوں کی ایذا کی برداشت نہ کرسکے اور ایذا سے ڈر کر اسلام سے پھرگئے انہی کو فرمایا کہ انہوں نے دنیا کی تھوڑی سی ایذا کو عذاب آخرت کے برابر اس لیے سمجھ لیا کہ عذاب آخرت کا ان کو پورا یقین نہیں تھا یکیوں کہ اگر چذاب آخرت کا ان کو پورا یقین ہوتا تو مشرکوں کی ایذا سے بچنے کے لیے یہ لوگ زبانی باتوں میں مشرکوں کی ہاں میں ہاں ملا دیتے یہ تو دل سے مشرکوں کے شریک حال ہوگئے اب یہ مسلمانوں کی بہتری کے وقت اپنے آپ کو مسلمانوں کے ساتھی ہونے کا دعوٰے کریں تو اس سے کیا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو ان کے دل کے حال خوب معلوم ہے کس لیے کہ تمام جہان کے لوگوں کے دلوں کا حال اس سے پوشیدہ نہیں ہے سفیان ثوری کا قول ایک جگہ گزر چکا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ سعید 1 ؎ بن جبیر 2 ؎‘ عکرمہ 3 ؎‘ ضحاک 4 ؎ ان چار تابعیوں کے قول کا تفسیر کے باب میں بڑا اعتبار ہے معتبر سند سے تفسیر ابن ابی حاتم اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے عماربن یاسر ؓ کے قصہ کی روایت سورت النحل میں گزر چکی 2 ؎ ہے کہ عماربن یاسر ؓ نے مشرکوں کی ایذا سے بچنے کے لیے مشرکوں کی ہاں میں ہاں ملادی اور جب مدینہ میں آن کر آنحضرت صلعم سے انہوں نے اپنا قصہ بیان کیا تو آپ نے ان سے دریافت کیا کہ جس وقت تم نے مشرکوں کی ہاں میں ہاں ملائی تو تمہارے دل کیا کیا حال تھا عماربن یاسر ؓ نے عرض کیا کہ اس وقت میرے دل میں تو اسلام بسا ہوا تھا آپ نے فرمایا تو زبانی باتوں کا کچھ خیال نہ کرو اس حدیث سورة النحل کی آیت الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالا یمان سے ضحاک کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے (1 ؎ تفسیر ابن جریر ص 132 ج 2۔ ) (2 ؎ صفحہ 372 جلد 3۔ )
Top