Al-Quran-al-Kareem - An-Nisaa : 175
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍ١ۙ وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاؕ
فَاَمَّا : پس الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَاعْتَصَمُوْا : اور مضبوط پکڑا بِهٖ : اس کو فَسَيُدْخِلُهُمْ : وہ انہیں عنقریب داخل کرے گا فِيْ رَحْمَةٍ : رحمت میں مِّنْهُ : اس سے (اپنی) وَفَضْلٍ : اور فضل وَّ : اور يَهْدِيْهِمْ : انہیں ہدایت دے گا اِلَيْهِ : اپنی طرف صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
پھر جو لوگ تو اللہ پر ایمان لائے اور اسے مضبوطی سے تھام لیا تو عنقریب وہ انھیں اپنی خاص رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور انھیں اپنی طرف سیدھے راستے کی ہدایت دے گا۔
يَسْتَـفْتُوْنَكَ ۭ: سورت کی ابتدا تقویٰ کے حکم کے بعد اموال کے احکام سے ہوئی تھی، اب آخر میں انھی احکام کے ساتھ سورت کا اختتام ہے۔ درمیان سورت میں مخالفین سے مجادلہ اور ان کی تردید ہے۔ (رازی) کلالہ پر بحث اس سورت کی آیت (11) میں گزر چکی ہے۔ جابربن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں اس وقت بیمار اور بےہوش تھا، آپ نے وضو کیا، پھر وضو کے بچے ہوئے پانی سے مجھ پر چھینٹے مارے، یا فرمایا : ”اس پر چھینٹے مارو۔“ جس سے مجھے ہوش آگیا، میں نے عرض کی کہ میں کلالہ ہوں، میری میراث کیسے تقسیم ہوگی، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [ بخاری، المرض، باب وضوء العائد للمریض : 5676۔ مسلم : 1616 ] لَيْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَهٗٓ اُخْتٌ۔۔ : بعض نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جس کی اولاد نہ ہو، خواہ اس کا باپ زندہ ہی ہو، اسے کلالہ کہا جائے گا، مگر یہ صحیح نہیں، صحیح معنی وہی ہے جو پہلے گزرا، یعنی کلالہ اس مرنے والے کو کہا جاتا ہے جس کا باپ یا دادا نہ ہو اور اولاد بھی نہ ہو، کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن سرے سے وارث نہیں ہوتی، باپ اس کے حق میں حاجب بن جاتا ہے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر اس کی بہن ہو تو وہ اس کے نصف مال کی وارث ہوگی، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلالہ وہ ہے کہ اولاد نہ ہونے کے ساتھ ساتھ باپ دادا بھی نہ ہوں۔ یوں اولاد کی نفی تو الفاظ سے واضح ثابت ہوگئی اور باپ کی نفی اشارے سے۔ اولاد سے مراد بیٹا، بیٹی اور بیٹے کی اولاد ہے، اسی طرح بہن سے مراد یہاں سگی بہن یا علاتی (باپ شریک) بہن ہے، کیونکہ اخیافی بہن، جو صرف ماں کی طرف سے ہو، اس کا حکم پہلے سورة نساء (12) میں گزر چکا ہے۔ (ابن کثیر) ”ولد“ کا لفظ بیٹا بیٹی دونوں پر بولا جاتا ہے، اس بنا پر بعض نے کہا کہ بیٹی ہونے کی صورت میں بہن محروم رہے گی، مگر صحیح بخاری (6741) میں معاذ ؓ کا فیصلہ ہے کہ اگر ایک شخص فوت ہوجائے اور اس کے ورثاء میں صرف بیٹی اور بہن ہے تو بیٹی کو نصف اور باقی بہن کو (بوجہ عصبہ ہونے کے) دیا جائے گا۔ اور بخاری ہی میں ابن مسعود ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے مرنے والے کی ایک بہن، ایک بیٹی اور ایک پوتی کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ بیٹی کے لیے نصف ہے، پوتی کے لیے چھٹا حصہ، تاکہ دو ثلث پورے ہوجائیں اور جو باقی بچے گا وہ بہن کے لیے ہے۔ [ بخاری، الفرائض، باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ : 6736 ] ۭفَاِنْ كَانَتَا اثْنَـتَيْنِ فَلَهُمَا۔ : اور یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا ہے، انھیں بھی دو ثلث ہی ملے گا اور اگر کلالہ کے وارث بھائی اور بہن دونوں ہوں تو ایک مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ يُـبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا ۭ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے میراث کے یہ حصے خود اس لیے واضح فرمائے ہیں کہ اگر یہ تم پر چھوڑ دیے جائیں تو تم کبھی صحیح فیصلہ نہ کرسکو، کیونکہ تمہیں ہر بات کا علم نہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کو ہر بات کا خوب علم ہے، اس لیے اس کے فیصلے میں کبھی غلطی نہیں ہوسکتی۔
Top