بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو ؟ کیا اس سے اپنی بیبیوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
(66:1) یایھا النبی : یا حرف ندا۔ النبی منادی : منادی اگر معرف باللام ہو تو ایھا کو حرف نداء اور منادی کے درمیان لاتے ہیں۔ جیسے یایھا الرسول ، یایھا المراۃ سے نبی ﷺ لم : یہ مرکب ہے لام تعلیل اور ما استفہامیہ سے ما کے الف کو تخفیفا ساقط کردیا گیا ہے۔ کیوں ۔ کس لئے، کس وجہ سے۔ تحرم۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ تحریم (تفعیل) مصدر۔ تو حرام کرتا ہے۔ ما احل اللہ لک : ما موصولہ احل ماضی واحد مذکر غائب احلال (افعال) مصدر۔ اس نے حلال کیا۔ ترجمہ :۔ اے نبی ﷺ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کردیا ہے آپ ان کو کیوں حرام کرتے ہیں ؟ تبتغی مرضات ازواجک : واللہ غفور رحیم : تبتغی مضارع کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ ابتغاء (افتعال) مصدر۔ تو تلاش کرتا ہے۔ تو ڈھونڈھتا ہے ۔ تو چاہتا ہے۔ مرضات ازواجک : ازواجک مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ مرضات مضاف کا۔ مرضاۃ مصدر میمی واسم مصدر۔ پسند کرنا۔ رضا مند ہونا۔ پسندیدگی ، خوشنودی ۔ رضا مندی۔ ترکیب آیت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں :۔ (1) تحرم میں ضمیر فاعل سے حال ہے۔ یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم ) اپنی بیویوں کی خوشنودی کی تلاش میں آپ اس چیز کو جو اللہ نے آپ کے لئے حلال کر رکھی ہے (اپنے اوپر) حرام کیوں کرتے ہیں۔ (2) یہ جملہ مستانفہ ہے ۔” آپ چاہتے ہیں اپنی بیویوں کی خوشنودی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے علامہ پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں :۔ یا یہ جملہ مستانفہ ہے جس میں تحریم کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ واللہ غفور : یعنی آپ سے یہ بات ہوگئی کہ اللہ نے جس چیز کو آپ کے لئے حلال کردیا تھا آپ نے اس کو قسم کھا کر اپنے لئے حرام کرلیا۔ اللہ آپ کی اس بات کو معاف کرنے والا ہے۔ رحیم : یعنی اللہ نے آپ پر رحمت کی کہ خود ساختہ تحریم سے نکلنے کا راستہ اس نے آپ کو بتادیا اور آپ سے مؤاخذہ نہیں کیا اور آپ کو ناجائز امر سے بچانے کے لئے اظہار ناگواری کردیا “۔ (تفسیر مظہری) (3) یا یہ جملہ تبتغی مرضات ازواجک جملہ مفسرہ ہے اور یہ تحرم کی تفسیر ہے اور ازواج کی خوشنودی مقصود تحریم ہو۔ (4) یہ استفہام انکاری ہے اور اس سے قبل ہمزہ استفہامیہ محذوف ہے ای اتبتغی مرضات ازواجک کیا آپ اپنی بیویوں کی رضا مندی ڈھونڈھتے ہیں ؟ یعنی کیا اس حرام کرنے میں اپنی بیویوں کی رضا مندی چاہتے ہو ؟ یعنی ایسا نہ کرو یہ ایک قسم کی ناپسندیدہ بات ہے ۔ (تفسیر حقانی) فائدہ : اکثر مفسرین کے مطابق علامہ آلوسی رحمۃ اللہ تعالیٰ بھی تحریم کا مفہوم امتناع ہی بیان کرتے ہیں۔ والمراد بالتحریم الامتناع (روح المعانی) مطلب یہ کہ آپ ایک حلال چیز کا استعمال کرنے سے کیوں اجتناب کرتے ہیں۔ واللہ غفور رحیم : اور اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں :۔ فیہ تعظیم شانہ ﷺ لان ترک الاولی بالنسبۃ الی مقامہ السامی الکریم یعد کالذنب وان لم یکن فی نفسہ کذلک وان عتابہ ﷺ لیس الالمذید الاعتناء بہ۔ یعنی آپ ﷺ کی اس میں تعظیم شان ہے کہ آپ کے مقام عالی و مقام کریم کی نسبت سے ترک اولیٰ کو بھی گناہ کی مانند لیا گیا اگرچہ فی نفسہ ایسا نہ تھا۔ اور آپ پر عتاب نہیں تھا۔ بجز اس کے کہ مزید اعتناء کی وجہ سے تھا۔
Top