Anwar-ul-Bayan - At-Tahrim : 2
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ : تحقیق فرض کیا اللہ نے لَكُمْ : تمہارے لیے تَحِلَّةَ : کھولنا اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ : اور اللہ تعالیٰ مولا ہے تمہارا وَهُوَ الْعَلِيْمُ : اور وہ علم والا ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کرد یا ہے اور خدا ہی تمہارا کا رساز ہے اور وہ دانا (اور) حکمت والا ہے
(66:2) قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے قسموں کا کھول دینا بھی فرض کردیا ہے۔ (ترجمہ حقانی) قد ماضی پر داخل ہوکر تحقیق کے معنی دیتا ہے اور فعل کو زمانہ حال کی طرف قریب کردیتا ہے۔ فرض لکم تم پر فرض کردیا ہے۔ فرض کرنا عموما علی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے نہ کہ لام کے ساتھ ۔ اس کی تشریح علامہ پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ یوں کرتے ہیں :۔ لام انتقاع کے لئے آتا ہے (اور علی ضرر کے لئے) اور اس جگہ نفع کا مفہوم مقصود ہے کیونکہ کفارہ واجب کرنے سے یہ فائدہ ہوجاتا ہے کہ خود ساختہ تحریم حلت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور قسم شکنی کا گناہ دور ہوجاتا ہے۔ کفارہ وہی ہے جس کا ذکر سورة مائدہ میں کردیا گیا ہے۔ سورة مائدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ لایؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم بما عقدتم الایمان فکفارتہ اطعام عشرۃ مسکین من اوسط ما تطعمو اہلیکم او کسوتھم او تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم واحفظوا ایمانکم (5:89) ۔ ” خدا تمہاری بےارادہ قسموں پر تم سے مؤاخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کروگے) مؤاخذہ کرے گا۔ تو اس کا کافرہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو۔ یا ان کو کپڑے دینا۔ یا ایک غلام آزاد کرنا۔ اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو (اور اسے توڑدو) اور تم کو چاہیے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو “۔ تحلۃ مصدر ہے حلل کا۔ یہاں فرض لکم کے بطور مفعول مستعمل ہے لہٰذا منصوب ہے۔ تحلۃ کا وزن تفعلۃ ہے جو باب تفعیل کا دوسرا وزن ہے جیسے کرم سے تکریم وتکرمۃ اور کمل سے تکمیل و تکملۃ دونوں وزن آتے ہیں۔ یہ بھی حلل تحلیل کا دوسرا مصدر ہے بمعنی گرہ کھولنا۔ کھول ڈالنا۔ حلال کرنا۔ جملہ قد فرض اللہ ۔۔ ایمانکم کا مطلب ہوا کہ خدا تعالیٰ نے تم لوگوں کی قسموں کی گرہ کشائی کا کفارہ بیان کردیا ہے جس کو ادا کرکے گرہ کشائی فرض کردی گئی ہے ۔ پس قسم کھا کر جو گرہ تم نے ڈال لی تھی اس کو کھولنے کا طریقہ یہ ہے کہ کفارہ ادا کرو اور پابندی سے آزادی حاصل کرو۔ ایمانکم : مضاف مضاف الیہ مل کر تحلۃ (مضاف) کا مضاف الیہ۔ اپنی قسموں کی گرہ کشائی ۔ واللہ مولکم اللہ تمہارا رفیق و کارساز ہے۔ ولی یلی ولی (باب حسب یحسب) سے اسم فاعل کا صیغہ وال، ولی ہے۔ الولی والولاء والتوالی کے اصل معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کا اس طرح یکے بعد دیگرے آنا کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ آئے جو کہ ان میں سے نہ ہو۔ پھر استعارہ کے طور پر قرب کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے خواہ وہ قرب بلحاظ مکان یا نسب یا بلحاظ دین ۔ دوستی یا نصرت کے ہو یا بلحاظ اعتقاد کے۔ الولی والمولی دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں۔ ولی (جمع اولیائ) کے معنی محبت کرنے والا دوست۔ مددگار۔ کارساز، حلیف، تابع، کام کا منتظر وغیرہ ہیں۔ اسم فاعل کے معنی کے استعمال کی صورت میں کہیں گے اللہ ولیک اللہ تیرا حافظ و نگران ہے اور اسم مفعول کی صورت میں کہیں گے المؤمن ولی اللہ مومن اللہ کا فرمانبردار ہے۔ یا جیسے کہ قرآن مجید میں ہے :۔ واللہ ولی المؤمنین (3:68) اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔ اور اسم مفعول کی صورت میں فان اللہ ھو مولہ (66:4) اور اگر پیغمبر (کی ایذائ) پر باہم اعانت کروگے تو خدا ان کا حامی اور دوست دار ہے۔ وھو العلیم الحکیم : اور وہ دانا اور حکیم ہے۔ العلیم : علم سے بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اسماء الٰہی میں سے ہے۔ قرآن مجید میں اس کا استعمال اکثر اللہ تعالیٰ کی صفت ہی میں ہوا ہے۔ الحکیم : حکمت والا۔ بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے حکمۃ مصدر۔ صاحب تفسیر حقانی تحریر فرماتے ہیں :۔ اللہ تعالیٰ تمہارا رفیق و کارساز ہے وہ جانتا ہے کہ اس میں تمہیں دقت اور تنگی پیش آئیگی اور ہمیشہ کے لئے ایک مباح چیز امت میں حرام سمجھی جائے گی۔ اور یہ اصول شریعت محمدیہ کے خلاف ہے اللہ تعالیٰ حکیم وعلیم ہے کسی چیز کو ممنوع اور حرام قرار دینا اس کے عواقب امور پر نظر کرکے اسی کا کام ہے پھر جس کو وہ حرام نہ بنائے تم بھی حرام نہ بناؤ۔
Top