بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Baghwi - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
ال م
تفسیر۔ 1۔ 2۔ الم احسب الناس، ، لوگوں نے یہ گمان کیا کہ ، ان یترکوا، بغیر امتحان اور بغیر آزمائش کے ان کو چھوڑ دیاجائے گا، ان یقولوا، صرف اتنا کہہ دینے سے ، امنا وھم لایفتنون ، کہ ان کو ان کے اموال کی آزمائش مین اواران کے نفسوں کی آزمائش میں نہیں ڈالاجائے گا، ہرگز نہیں بلکہ ضرور بالضرور ا اور ان سے امتحان لیاجائے گا، تاکہ مخلص اور منافق کے درمیان جانچ پڑتال ہوجائے جھوٹے اور سچے انسان میں فرق واضح ہوجائے۔ آیت کے مختلف شان نزول۔ اس آیت کے سبب نزول میں مختلف اقوال ہیں۔ امام شعبی کا قول ہے کہ ہی آیت مکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ، مدنی صحابہ نے مکی مسلمانوں کو یہ آیت لکھ کر بھیج دی، اور کہا کہ تمہارا اسلام لانا اسوقت تک قابل قبول نہیں سمجھاجائے گا، جب تک کہ وہ ہجرت نہ کرلیں۔ مسلمانوں نے وہاں سے ہجرت کردی، راستے میں مشرکین سے جھڑپ ہوئی کچھ مسلمان شہید ہوگئے اور کچھ مسلمان بچ کر مدینہ پہنچ گئے۔ ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی، ابن عباس کا قول ہے کہ ، الناس سے مرا د مکہ میں رہ جانے والے مسلمان ہیں ، سلمہ بن ہشام ، عیاش بن ربیعہ، ولید بن عبید، عمار بن یاسر، وغیرہ، ابن جریج کا قول ہے کہ س آیت کا نزول عمار بن یاسر کے متعلق ہوا آپ کو اللہ کی راہ میں سخت دکھ دیے جاتے تھے۔ مقاتل کا بیان ہے کہ حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام حضرت مہجع بن عبداللہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اس امت میں آپ پہلے شخص ہوں گے جن کو جنت کے دروازے کی طرف بلایاجائیگا۔ حضرت مہجع بدد میں سب سب سے پہلے شہید ہونے والے صحابی تھے۔ ان کے بارے میں نبی کریم نے ارشاد فرمایا، سید الشھداء مھجع بن عبداللہ، جب آپ کے والدین اور بی بی بےتابی کے ساتھ گریہ وزاری کرنے لگے تو ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض نے کہا وھم لایفتنون سے اوامر ونواہی مراد ہیں کہ شروع میں اللہ نے صرف ایمان کا حکم دیا تھا پھر نماز زکوۃ اور دوسرے قوانین کا حکم دیا۔ بعض لوگوں کو اس کی تعمیل میں دشواری ہوگئی اور ان پر یہ حکم شاق ہوا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
Top