Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 75
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ١۫ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَ : پختہ عہد بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : بنی اسرائیل لَا تَعْبُدُوْنَ : تم عبادت نہ کرنا اِلَّا اللّٰہَ : اللہ کے سوا وَبِالْوَالِدَیْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَاناً : حسن سلوک کرنا وَذِیْ الْقُرْبَى : اور قرابت دار وَالْيَتَامَى : اور یتیم وَالْمَسَاكِیْنِ : اور مسکین وَقُوْلُوْاْ : اور تم کہنا لِلنَّاسِ : لوگوں سے حُسْناً : اچھی بات وَاَقِیْمُوْاْ الصَّلَاةَ : اور نماز قائم کرنا وَآتُوْاْ الزَّکَاةَ : اور زکوۃ دینا ثُمَّ : پھر تَوَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے اِلَّا : سوائے قَلِیْلاً : چند ایک مِّنكُمْ : تم میں سے وَاَنتُم : اور تم مُّعْرِضُوْنَ : پھرجانے والے
(مومنو) کیا تم امید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے) قائل ہو جائیں گے، (حالانکہ) ان میں سے کچھ لوگ کلامِ خدا (یعنی تورات) کو سنتے، پھر اس کے سمجھ لینے کے بعد اس کو جان بوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ ( مسلمانو ! ) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ ( یہود) تمہاری بات مان لیں گے اَفَتَطْمَعُوْنَ یہ خطاب ہے تمام مؤمنین اور رسول اکرم ﷺ کو یُوْمِنُوْا کی ضمیر یہود کی طرف راجع ہے لَکُمْ یعنی تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے یا یہ مطلب کہ تمہاری تصدیق کریں گے۔ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ( حالانکہ ان ہی میں ایسے لوگ بھی تھے جو اللہ کا کلام سنتے) کلام اللہ سے مراد تورات ہے۔ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ ( پھر اسے سمجھے پیچھے بدل ڈالتے) یعنی وہ اسے بلاشک وہ شبہ سمجھ گئے اور پھر تحریف کردی جیسا کہ ہمارے حضرت محمد ﷺ کی نعت اور رجم کی آیت میں تبدیل اور تغییر کی۔ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ( اور وہ جانتے تھے) یعنی وہ اپنے جھوٹے ہونے کو خوب جانتے تھے اس آیت کی یہ تفسیر تو مجاہد اور عکرمہ اور سدی وغیرہ (رح) کے قول کے موافق ہے اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کے آباو اجداد میں جواب فریق تھا انہوں نے کلام الٰہی سن سنا کر تحریف کردی۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ کی تفسیر ہے چناچہ وہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے حسب حکم خداوندی ستر آدمیوں کو اللہ تعالیٰ کے وعدہ گاہ کے لیے انتخاب کرلیا اور انہیں وہاں لے گئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا پھر جب وہاں سے واپس آئے تو جو ان میں سچے تھے انہوں نے تو جس طرح سنا تھا اسی طرح قوم کو پہنچا دیا اور جن کے دلوں میں فساد تھا انہوں نے آکر یہ کہا کہ ہم نے تو یہ سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اخیر میں یہ بھی فرمایا ہے۔ کہ اگر ان احکام کے کرنے کی طاقت رکھتے ہو تو کرو اور اگر نہ چاہو نہ کرو۔ “ پس یہی تحریف تھی حالانکہ وہ جانتے تھے کہ کلام الٰہی ایسا نہیں ہے۔
Top