Baseerat-e-Quran - An-Noor : 32
وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآئِكُمْ١ؕ اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَاَنْكِحُوا : اور تم نکاح کرو الْاَيَامٰى : بیوی عورتیں مِنْكُمْ : اپنے میں سے (اپنی) وَالصّٰلِحِيْنَ : اور نیک مِنْ : سے عِبَادِكُمْ : اپنے غلام وَاِمَآئِكُمْ : اور اپنی کنیزیں اِنْ يَّكُوْنُوْا : اگر وہ ہوں فُقَرَآءَ : تنگدست (جمع) يُغْنِهِمُ : انہیں غنی کردے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِهٖ : اپنے فضل سے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : علم والا
اور تم میں سے (جو مرد اور عورتیں) بےنکاح ہیں ان کے نکاح کردیا کرو۔ اور تمہاری لونڈیوں اور غلاموں میں سے جو نکاح کے لائق ہوں ان کا نکاح بھی کردیا کرو۔ اور اگر وہ غریب و مفلس ہوں گے تو اللہ اپنے فضل و کرم سے ان کو غنی (بےنیاز) کردے گا۔ اللہ بہت وسیع علم رکھنے والا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 32 تا 34 : انکحوا (نکاح کردو) ‘ الایامی (ایم) بےنکاح مرد یا عورت ‘ عباد (عبد) غلام ‘ امائ (امۃ) لونڈیاں۔ غلام عورتیں ‘ یستعفف (وہ بچتا ہے) ‘ اتو (تم دو ) ‘ لاتکرھوا (تم زبردستی نہ کرو) ‘ فتیت (جوان۔ (جوان لونڈیاں) ‘ البغاء (بدکاری) تحصنا (پاکدامنی) ‘ مثلا (کچھ حالات واقعات) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 32 تا 34 : قرآن کریم اور متعدد و احادیث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر شخص نکاح کے ذریعہ اپنا گھر بسا کر صحیح راستہ اختیار کرے جو نسل انسانی کی بقا کا سبب بن سکے۔ بےنکاحی کی زندگی گذارنا ایک غلط طریقہ زندگی ہے جس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اسی لئے اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ پورے اسلامی معاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے درمیان ایسے لوگوں کو نکاح پر آمادہ کریں جو اس قابل ہیں کہ زندگی کی ذمہ داریوں کو اٹھا سکتے ہیں۔ غربت و افلاس کا بہانہ بنا کر وہ اس فرض زندگی سے فرار کے راستے تلاش نہ کریں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ زندگی کی اس اہم تبدیلی سے اللہ دونوں میاں بیوی کے حالات کو اس درجہ تبدیل فرمادیں کہ فقرو فاقہ کی جگہ خوش حالی نصیب ہوجائے۔ اس حکم میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے ابھی تک نکاح نہیں کیا اور وہ بھی شامل ہیں جو شوہر کی وفات کی وجہ سے بےنکاحی کی زندگی گذاررہی ہیں۔ اس مضمون کی وضاحت درج ذیل احادیث سے بخوبی ہوجاتی ہے۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نکاح کرو ‘ بےنکاحی کی زندگی گارنا سخت منع ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ جس کے پاس (بقدر ضرورت) مال ہو اور وہ نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ایسی عورتوں سے نکاح کرو جن میں کثیر النسل ہونے کی قابلیت و صلاحیت ہو۔ نسل بڑھائو کیونکہ میں تمہاری کثرت سے گذشۃ امتوں پر فخر کروں گا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے علی ! تین کاموں میں کبھی دیر نہ کرو (1) فرض نماز ‘ جب اس کا وقت ہوجائے (2) جنازہ ‘ جب بھی موجود ہو (3) بیوہ عورت جس کا ہم کفو (ہم پلہ) مل جائے۔ ایک اور جگہ نوجوانوں کے گروہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تم میں سے جس میں نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح سے حرام نظر کی بندش و رکاوٹ اور نہایت احسن طریقہ پر شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے وہ شخص جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو وہ نکاح کی درخواست کرے تو نکاح کردو ورنہ زمین پر بڑا فتنہ و فساد ہوگا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے تین آدمی ایسے ہیں جن کی مدد اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں (1) وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے لئے نکاح کرتا ہے (2) دوسرے وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتا ہے (3) تیسرے وہ مکاتب جو مال کتابت ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے۔ (ابن کثیر۔ ابو دائود۔ ترمذی) مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس نے اپنے آقا سے یہ معاہدہ کرلیا ہے کہ جب وہ آقا کی طرف سے مقرر کی ہوئی رقم ادا کر دے گا یا آقا کی طرف سے متعین خدمت سرانجام دے لے گا تو وہ آزاد ہوجائے گا اسی معاہدہ کی لکھت پڑھت کو مکاتبت کہا جاتا ہے ۔ عرب میں لونڈی اور غلاموں کو مال تجارت اور مال کمانے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ انسان ہیں نہوہ ان سے انسانوں جیسا معاملہ کیا کرتے تھے یہاں تک کہ وہ اپنی لونڈیوں کو اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ وہ کسی طرح اور کسی بھی طریقے سے مال کما کر لائیں جس سے وہ غلام عورتیں جن کو لونڈی کہا جاتا ہے پیشہ تک کرنے پر مجبور وہ جای کرتی تھیں۔ رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی کے پاس چند لونڈیاں تھیں جن سے وہ پیشہ کراتا تھا اور ان کی کمائی پر گذارا کرتا تھا۔ جن میں سے ایک لونڈی کو اللہ نے ہدایت نصیب فرمادی اور اس نے اسلام قبول کرلیا تو عبد اللہ ابن ابی نے اس پر ناقابل تصور تشدد کرنا شروع کردیا۔ جب نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے ایک رقم دے کر اس کو خرید کر آزاد کردیا۔ یہ اور اس طرح کے بیشمار واقعات تھے جن میں یہ مظلوم عورتیں زندگی گذار رہی تھیں لیکن نبی کریم ﷺ نے امت کو ایسے طریقے عطا فرمائے کہ جس سے کسی کی نجی ملکیت بھی متاثر نہیں ہوئی اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں غلام اور باندیاں آزاد ہوتی چلی گئیں۔ روایات کے مطابق خلافت راشدہ کے اختتام تک تقریباً غلاموں اور باندیوں کا رواج دم توڑ چکا تھا۔ دین اسلام نے غلاموں اور باندیوں کو انسانوں کا اعلیٰ درجہ دے کر ان کے انسانی حقوق متعین فرمادیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مظلوم غلاموں اور باندیوں کی آزادی کو عبادت کا درجہ عطا فرمایا اور ہر زکوۃ ادا کرنے والے کی یہ ذمہ داری لگادی کہ وہ اور مصارف زکوۃ کے ساتھ ” گردنیں چھڑانے “ یعنی غلاموں ‘ باندیوں کا آزاد کرانے میں زکوۃ اور صدقات کی رقموں کو خرچ کرسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے (1) غلاموں اور باندیوں کو انسانی درجہ اور مقام عطا کیا۔ ان کے حقوق متعین فرمائے۔ (2) اگر کوئی محنت مزدوری کر کے اپنے آپ کو غلامی کی لعنت سے چھڑانا چاہتا ہے اور اپنے مالک سے کوئی معاہدہ کرلیتا ہے تو اسلامی معاشرہ کی یہ دمہ داری ہے کہ زکوۃ ‘ صدقات اور عطیات کے ذریعہ اس مکاتب غلام کی آزادی کی فکر کی جائے تاکہ وہ بھی آزاد ہو کر زندگی کی دوڑ میں شریک ہوجائے۔ البتہ غلاموں کے مالکوں کی یہ ذمہ داری بھی لگائی گئی ہے کہ وہ یہ دیکھ لیں کہ اگر اس غلام کی آزادی سے اسلامی معاشرہ کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو سوچ سمجھ کر قدم بڑھایا جائے ورنہ عام حالات میں غلاموں کے مالکوں کو مہربانی اور ہمدردی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ (3) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر ایک پاک دامن باندی اپنی پاکیزگی اور پاک دامنی کے لئے فکر مند ہو تو اس کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ یہ تو انتہائی شرمناک بات ہے کہ ایک لڑکی پاک دامن رہنا چاہتی ہے اور مالک اس کو بدکاری اور حرام کمائی پر مجبور کرتا رہے۔ بدکاری کی کسی حال میں اجازت نہیں ہے لیکن وہ لڑکی جو پاک دامن رہنا چاہتی ہے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرنا چاہتی ہے اس میں معاشرہ کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہوجاتی ہے کہ وہ ایسی لڑکیوں کی آبرو کی حفاظت کے لئے جدوجہد کرے۔ (4) ان آیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو لوگ نکاح پر قدرت نہیں رکھتے وہ صبر و تحمل اور برداشت سے کام لیں اور مناسب وقت کا انتظار کریں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ کثرت سے روزے رکھا کریں تاکہ ان کے شہوانی جذبوں کو سکون مل سکے۔ آخر میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے کھلی کھلی اور واضح آیات اور گذشتہ قوموں کے واقعات کو بیان کیا ہے تاکہ ہر مومن اور متقی ان احکامات اور گذرے ہوئے واقعات سے عبرت و نصیحت حاصل کرسکے ۔
Top