Tafseer-e-Baghwi - An-Noor : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمینوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا
71، انا عرضنا الا مانۃ علی السموات والارض والجبال ، امانت سے مراد طاعت ہے اور وہ فرائض جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر نازل فرمائے ہیں ۔ ، عرضھا علی السموات والا رض والجبال ، کا مطلب ہے کہ اگر ان فرائض کو ان پر پیش کیا گیا تو کہا کہ اگر ان کو ادا کروگے ثواب کو پہنچ جائے گا اور اگر ان کو ضائع کیا عذاب دیاجائے گا۔ امانت سے کیا مراد ہے حضرت ابن مسعود نے فرمایا : امانت سے مراد ہے نماز اداکرنا، زکٰوۃ دینا ، رمضان کے روزے اور بیت اللہ کا حج صدق مقال ، ناپ تول میں انصاف اور ان سب سے زیادہ سخت امانتوں کی حفاظت ۔ مجاہد نے کہا : امانت سے مراد اداء فرائض اور حفاظت دین۔ ابو العالیہ کے نزدیک تمام اور امرونواہی مراد ہیں۔ زید بن اسلم نے کہا : امانت سے مراد روزہ غسل جنابت اور اندرونی شرائع (جیسے حسدنہ کرنا دل میں مسلمان سے عداوت نہ کرنا ، جب جاہ ومال نہ رکھنا وغیرہ تمام اخلاقی باطنہ) یعنی جن میں ریا کاری کا کوئی دخل نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر وبن عاص نے فرمایا : انسانی جسم میں سب سے پہلے شرم گاہ بنائی اور فرمایا : یہ امانت ہے بطور ودیعت میں تیرے سپرد کرتا ہوں ۔ کان بھی امانت ہے، آنکھ بھی امانت ہے اور جس می امانت (کی پاسداری ) نہیں اس کے پاس ایمان نہیں ۔ بعض اہل علم نے کہا : امانت سے مراد ہیں لوگوں کی باہمی امانتیں اور ایفاء وعدہ ۔ ہرمؤمن پر حق ہے کہ دوسرے مؤمن یا معاہد کے ساتھ دھوکہ نہ کرے، نہ چھوٹے معاملہ میں نہ بڑے معاملہ میں ۔ ضحاک کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کی طرف اس قول کی نسبت کی گئی ہے ۔ ان تمام اقوال کا مال یہ ہے کہ امانت سے مراد ہیں شرعی اوامرونواہی اور آسمان و زمین سے مراد آسمان و زمین ہی ہیں (ان کے باشندے مراد نہیں ہیں ) اور پیش کرنے سے مراد ہے خطاب لفظی مقالی (خطاب تکوینی فطری مراد نہیں ہے) بغوی نے لکھا : حضرت ابن عباس اور اکثر سلف کا یہی قول ہے۔ بغوی نے لکھا ہے اللہ نے زمین و آسمان سے فرمایا تھا کہ کیا تم بار امانت کو مع ان کے لوازم کے اٹھا تے ہو ؟ آسمان و زمین نے کہا لوازم امانت کیا ہیں ؟ اللہ نے فرمایا : اگر تعمیل کروگے تو تم کو اچھا بدلہ دیا جائے گا اور اگر نافرمانی کروگے تو سزاپاؤگے۔ آسمان و زمین نے عرض کیا :(ان لوازم کے ساتھ ہم برداشت ) نہیں (کرسکتے) اے رب ! ہم تیرے حکم کے پابند ہیں نہ ثواب چاہتے ہیں نہ عذاب ۔ آسمان و زمین نے یہ بات (نافرمانی کے) خوف اور دین خداوندی کی تعظیم کی وجہ سے کہی ۔ ان کو ڈرہوا کہ دین خداوندی کا حق ہم سے ادانہ ہوسکے گا (تو عذاب میں متلاہوں گے ) یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے بار امانت اٹھا نے کا حکم ان کو دیا تھا اور انہوں نے سرتابی کی۔ اللہ کی طرف عرض امانت کی برداشت اختیاری تھی لازمی نہیں تھی۔ اگر لازمی ہوتی تو آسمان و زمین ضرور اس بار کو اٹھا تے۔ بعض اہل علم نے کہا : جمادات ہمارے لحاظ سے بےعقل ہیں ، ہماری بات نہیں سمجھتے لیکن اللہ کے فرمان کو سمجھتے ہیں اور سمجھ کر اطاعت کرتے ہیں اور سربسجود ہوجاتے ہیں ۔ اللہ نے آسمان و زمین سے فرمایا : ، ائتیا طوعا اوکرھا، دونوں نے جواب دیا :، اتینا طائعین، دوسری آیت میں ہے :، وان من الحجارۃ لما یتفجر منہ الا نھار وان منھا لما یشقق فیخرج منہ الماء وان منھا لما یھبط من خشیۃ اللہ، کچھ پتھروں سے دریا پھوٹ کر نکلتے ہیں اور کچھ پتھر پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ پتھر اللہ کے خوف سے نیچے کو گرتے ہیں۔ ، الم تران اللہ یسجد لہ من فی السموت ومن فی الا رض والشمس والقمر والنجوم ولجبال والشجر والدو آب، بعض اہل علم کا قول ہے کہ اللہ عزوجل نے ان پر عقل وفہم کو ڈالا جب ان پر امانت کو پیش کیا گیا اور ان پر خطاب کو لازم کیا تو انہوں نے اس سے بزدلی اختیار کی اور اس کا بوجھ اٹھا نے سے انکار کردیا۔ بعض نے کہا، عرض علی السموات والارض ، سے مراد ہے کہ اس کے رہنے والوں پر پیش کیا گیا اور ان فرشتوں پر بھی جو آسمانوں اور زمینوں نے میں رہتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ سب پر پیش کیا گیا علاوہ اعیان وغیرہ کے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، واسئل القریۃ، یہاں پر بعینہ بستی مراد نہیں بلکہ بستی کے رہنے والے مراد ہیں۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے اور یہی قول علماء کا ہے۔ ، فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الا نسان ، اس امانت میں تخفیف کی جائے تا کہ اس کی ادائیگی میں آسانی ہوتا کہ عتاب سے بچ سکیں ۔ ، وحملھا الانسان ، اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں ۔ حملھا الانسان کی تفسیر بعض علماء نے لکھا ہے کہ، حملھا الا نسان ، میں الانسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔ اللہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تھا کہ میں نے یہ امانت آسمان زمین اور پہاڑوں کے سامنے رکھی لیکن سب نے اٹھا نے سے انکار کردیا کیا تو اس کو مع اس کے لوازم لے لے گا ؟ آدم نے عرض کیا : اے میرے رب ! اس کے لوازم کیا ہیں ؟ اللہ نے فرمایا : اگر تو نیکی کرے گا تو اس کا ثواب پائے گا اور بدی کرے گا تو عذاب میں پکڑاجائے گا ۔ آدم نے امانت کو اٹھا لیا اور عرض کیا : میں اس بوجھ کو اپنے کاندھے پر لیتا ہوں۔ اللہ نے فرمایا : جب تو نے اس امانت کو قبول کرلیا تو میں بھی تیری مددکروں گا۔ تیری آنکھوں کے اوپر ایک نقاب ڈال دوں گاتا کہ جائز چیز پر نظر پڑنے کا جب تجھے ڈرہوتوآنکھ پر نقاب لٹکا لے (یعنی پلکیں جھکا لے اور آنکھیں بند کرلے) اور تیری زبان کے لیے دوجڑے اور ایک فقل بنادوں گا ، تجھے جب (اجائز بات زبان سے نکالنے کا) اندیشہ ہو تو قفل بند کردینا اور میں تیری شرم گاہ کے لیے لباس مقررکردوں گا شرمگاہ اس کے سامنے نہ کھولنا جس کے سامنے کھولنا میں نے حرام کردیا ہے۔ مجاہدنے کہا : برداشت امانت کے وقت اور جنت سے نکا لے جانے کے وقت کی درمیانی مدت صرف اتنی ہوئی ، جتنی ظہر وعصر کے درمیان ہوتی ہے ۔ بغوی نے لکھا ہے : نقاش نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن مسعود ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ امانت کو اس بھاری پتھر سے تشبیہ دی گئی جو کسی جگہ پڑاہو۔ آسمان کو زمین کو اور پہاڑوں کو اس کے اٹھا نے کی دعوت دی گئی لیکن کوئی اس کے قریب بھی نہیں آیا اور سب نے کہہ دیا کہ ہم میں اس کو اٹھا نے کی طاقت نہیں ، پھر بغیر دعوت کے آدم آگئے اور انہوں نے پتھر کو ہلا کر کہا : اگر مجھے اس کو اٹھا نے کا حکم دیا گیا تو میں اس کو اٹھالوں گا۔ اللہ نے فرمایا : اٹھاؤ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اس کو اٹھا کر زانوں تک لے آئے ، پھر رکھ دیا اور کہا : خدا کی قسم ! اگر میں زیادہ اٹھانا چاہوں تو اٹھاسکتا ہوں۔ آسمان و زمین نے کہا (رح) : اٹھاؤ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس کو اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ دیا اور پھر اتار کرنیچے رکھ دینے کا ارادہ کیا۔ اللہ نے فرمایا : ہرگز اس کو نیچے نہ رکھنا، یہ تمہاری اور تمہاری اولاد کی گردن میں قیامت تک بندھا رہے گا۔ ، انہ کان ظلوماجھولا، ظلم اپنے نفس کے اعتبار سے اور اللہ کے امر کو بھول جانے کے اعتبار سے اور اس امانت کو اٹھا نے میں جھولا ہیں۔ کلبی کا بیان ہے کہ ظالم اس وقت ہے جب وہ اپنے رب کی نافرمانی کرتا ہے اور، جھولا، اس وقت جب وہ اللہ تعالیٰ کی سزا سے بیخبر ہے، امانت کے ترک کرنے کے باعث ۔ مقاتل کا بیان ہے کہ وہ ، ظلوما، لنفسہ ہے اور جھولا اپنے انجام سے بیخبر ہونے کی وجہ سے ہے۔ زجاج اور دوسرے اہل معانی نے بیان کیا ہے کہ ، وحملھا الانسان ، میں دوقول ہیں۔ ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد پر امانت کا بوجھ رکھا اور آسمان و زمین اور پہاڑوں پر بھی امانت کا بوجھ ڈالا۔ بنی آدم کے حق میں امانت کا معنی ہے طاعات ، اختیار کرنا اور فرائض کو قائم کرنا اور آسمان و زمین و پہاڑوں کے حق میں امانت کا معنی ہے خضوع اور طاعت جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے اور بعض نے کہا اللہ کا فرمان ، فابین ان یحملنھا، سے مراد امانت کی ادائیگی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں نے امانت اٹھائی ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے امانت میں خیانت نہیں کی ۔ ، وحملھا الا نسان ، کا مطلب یہ ہے کہ اس نے میں خیانت کی جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ، فلان حمل الا مانۃ، وہ خیانت کی وجہ سے گنہگار ہوا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ، ولیحملن اثقالھم، حسن کا قول ہے کہ ، حملھا، سے مراد کافر اور منافق ہیں جنہوں نے امانت الٰہیہ میں خیانت کی ہے سلف کا قول اول ہے۔
Top