Dure-Mansoor - An-Noor : 6
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویاں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ ہوں لَّهُمْ : ان کے شُهَدَآءُ : گواہ اِلَّآ : سوا اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں (خود) فَشَهَادَةُ : پس گواہی اَحَدِهِمْ : ان میں سے ایک اَرْبَعُ : چار شَهٰدٰتٍ : گواہیاں بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ لَمِنَ : کہ وہ بیشک سے الصّٰدِقِيْنَ : سچ بولنے والے
اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگائیں اور ان کے پاس ان کی اپنی جانوں کے علاوہ گواہ نہ ہوں تو یہ تہمت لگانے والا اللہ کی قسم کھا کر چار مرتبہ یوں کہے کہ بلاشبہ وہ سچوں میں سے ہے
1۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے عاصم بن عدی (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت آیت ” والذین یرمون المحصنت ثم لم یأتوا باربعۃ شہداء “ نازل ہوئی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہاں تک کہ ہم چار گواہوں کو لے آئیں تو اتنے میں وہ آدمی نکل بھاگے گا میں تھوڑے دن ہی ٹھہرا تھا اچانک میرے چچا کا بیٹا اس کے ساتھ اس کی بیوی اور اس عورت کے ساتھ اس کا ایک بیٹا تھا اور وہ کہہ رہی تھی یہ تیرا بیٹا ہے اور بھتیجا کہہ رہا تھا یہ مجھ سے نہیں ہے تو آیت لعان نازل ہوئی عاصم نے فرمایا میں پہلا آدمی ہوں جس نے اس بارے میں بات کی اور میں پہلا آدمی ہوں جو اس کے ذریعہ مبتلا ہوا۔ زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہ ضروری ہیں 2۔ احمد وعبد الرزاق والطیالسی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابوداوٗد وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت آیت ’ ’ والذین یرمون المحصنت ثم لم یأتوا باربعۃ شہداء “ نازل ہوئی سعد بن عبادہ ؓ نے فرمایا ور وہ انصار کے سردار تھے یا رسول اللہ ! کیا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں انسار کی جامعت کیا تم سن رہے ہو تمہارا سردار کیا کہتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا یارسول اللہ ان پر ملامت نہ کیجئے یہ بڑے غیرت مند آدمی ہیں۔ اللہ کی قسم ! انہوں نے کنواری عورت کے علاوہ کسی اور سے کبھی شادی نہیں کی اور نہ ہی کبھی اپنی بیوی کو طلاق دی ان کی اسی شدت غیرت کی وجہ سے ہ میں سے کوئی شخص یہ جرأت نہیں کرسکتا کہ (اس کی چھوڑی ہوئی بیوی سے) نکاح کرلے۔ سعد نے عرض کیا یارسول اللہ ! بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت حق ہے اور یہ اللہ کی طرف سے ہے لیکن مجھے تعجب اس بات پر ہے اگر میں بدکار عورت کو اس حالت میں دیکھوں کہ جس سے کوئی مرد بدکاری کر رہا ہے تو مجھے یہ بھی اجازت نہیں کہ میں اس پر حملہ کردوں اور نہ میں اسے بلا سکتا ہوں جب تک کہ چار گواہ لا کر ان کو آنکھوں سے دکھا نہ دوں خدا کی قسم ! جب تک میں گواہ لاؤں گا وہ شخص اپنا کام کر کے چل دے گا یہ لوگ تھوڑی دیر اور نہ ڑھہرے تھے کہ ہلال بن امیہ کا قصہ ہوا اور وہ تینوں میں سے ایک تھے کہ جن کی توبہ قبول ہوئی۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضرت ہلال ؓ رات کو اندھیرا پڑے اپنی زمین سے واپس آئے آکر دیکھا کہ کوئی شخص ان کی بیوی کے پاس موجود ہے آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اپنے کانوں سے آواز سن لی اسے کچھ نہ کہا صبح ہوئی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میں رات کو اپنے گھر آیا تو میں نے اپنی بیوی کے پاس آدمی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کی باتوں کو سنا رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع ناگوار ہوئی اور بھاری گزری دوسری طرف انصار جمع ہوئے اور عرض کیا ہم مصیبت کا شکار ہوگئے جس کا ذکر سعد بن عبادہ نے کیا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس کی سزا کا فیصلہ فرمایا اور مسلمانوں میں اس کی گواہی کو باطل کردیا۔ ہلال ؓ نے کہا اللہ کی قسم ! مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے اس سے نجات کا کوئی راستہ ضرور نکال دے گا۔ اوعر عرض کیا یارسول اللہ بلاشبہ میں نے وہ دیکھا ہے جو آپ پر بھاری گزرا ہے۔ ان چیزوں میں سے جو میں اس کو لایا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ بلاشبہ میں سچ بولنے والا ہوں رسول اللہ ﷺ کوڑے لگوانے کا ارادہ فرما ہی رہے تھے کہ اللہ نے آپ پر وحی نازل فرمائی اور جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی تو چہرے کی رنگت سے صحابہ پہچان لیتے لوگ ہلال کو کوڑے مارنے سے رک گئے یہاں تک وحی ختم ہوگئی تو یہ آیت آیت ” ولذین یرمون ازواجہم ولم یکن لہم “ نازل ہوئی وحی کی کیفیت جب رسول اللہ ﷺ سے ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا اے ہلال خوش ہوجاؤ اللہ نے تماہرے لیے نجات کی ایک صورت بنا دی ہے ہلال نے کہا میں اپنے رب سے اس بات کی امید رکھتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی بیوی کو بلواؤ تو وہ آگئی رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں پر ان آیتوں کی تلاوت فرمائی ان کو نصیحت فرمائیا ور ان کو بتایا کہ آخرت کا عذاب زیادہ سخت ہے دنیا کے عذاب سے ہلال نے کہا اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ! میں اس برے میں سچی بات کی ہے اس عورت نے کہا اس نے جھوٹ بولا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آپس میں لعنت کرو ہلال سے کہا گیا گواہی دو ہلال نے چار دفعہ گواہی دی اللہ کی قسم وہ سچا ہے جب پانچویں دفعہ گواہی کی باری آئی تو ہلال ؓ سے کہا گیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت آسان ہے اور یہ جھوٹی قسم تجھ پر عذاب کو واجب کردے گی انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ مجھے اس گواہی پر عذاب نہیں دیں گے جس طرح اس نے مجھ پر حد جاری نہیں کی ہلال نے پانچویں دفعہ پھر گواہی دی کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے پھر اس عورت سے کہا گیا کہ تو بھی گواہی دے تو اس نے چار مرتبہ گواہی دی کہ اللہ کی قسم یہ جھوٹا ہے۔ جب وہ پانچویں دفعہ گواہی دینے لگی تو اس سے کہا گیا اللہ سے ڈر کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے زیادہ آسان ہے اور یہ گواہی تجھ پر عذاب کو واجب کردے گی وہ ایک لمحہ کے لیے جھجکی کہنے لگی اللہ کی قسم میں اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی اور اس نے پانچویں دفعہ یہ گواہی دی کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہوا اگر یہ مرد سچا ہے اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کردی اور یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کی اولاد کی نسبت کسی باپ کی طرف نہ ہوگی اور ان پانچ گواہیوں کی وجہ سے مجھ پر کوئی الزام نہ دیا جائے گا اور رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ اس عورت کے لیے نہ نان نفقہ ہوگا نہ رہائش ہوگی اور نہ عدت ہوگی۔ اس وجہ سے کہ ان دونوں کی جدائی بغیر طلاق کے ہوئی اور شوہر کی وفات کے بغیر ہوئی۔ 3۔ البخاری والترمذی وابن ماجہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہلال بن امیہ ؓ نے نبی ﷺ کے پاس آکر اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کی وجہ سے تہمت لگائی نبی ﷺ نے فرمایا گواہ لاؤ ورنہ تیری پیٹھ پر حد لگے گی اس نے عرض کیا یارسول اللہ ! جب کوئی آدمی ہم میں سے اپنی عورت پر کسی آدمی کو دیکھے تو وہ گواہوں کو ڈھونڈنے کے لیے چلا جائے رسول اللہ ﷺ نے فرمانا شروع کیا گواہ لاؤورنہ تیری پیٹ پر حد لگے گی ہلال ؓ نے عرض کیا اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بلاشبہ میں اپنی بات پر سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور ضرور نازل فرمائیں گے کہ جس سے میری پیٹھ حد سے بری ہوجائے جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) آیت ” والذین یرمون ازواجہم “ آپ پر نازل فرمائی حتی کہ یہاں تک پہنچے آیت ” ان کان من الصدقین “ نبی ﷺ نے ان دونوں کو بلا بھیجا ہلال ؓ آئے اور گواہی دینے لگے اور نبی ﷺ فرما رہے تھے اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ تم میں ایک جھوٹ بولنے والا ہے کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنے والا ہے ؟ پھر وہ عورت کھڑی ہوئی اور گواہی دی جب وہ پانچویں گواہی دینے لگی تو صحابہ نے اسے روکا اس سے کہا یہ گواہی تجھ پر عذاب کو نازل کردے گی تو وہ رکی اور سر جھکا دیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ شاید یہ رجوع کرلے گی۔ پھر کہنے لگی میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے رسوا نہیں کروں گی وہ چلی گئی۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا اس عورت کو دیکھ اگر وہ ایسے بچے کو لے آئے یعنی جنے جو سرمگی آنکھوں والا۔ بھاری سرینوں اور موٹی پنڈلیوں والا ہو تو وہ شریک بن سحماء کا ہے۔ تو اس عورت نے ایسا ہی بچہ جنا نبی ﷺ نے فرمایا اور وہ فیصلہ نہ ہوتا جو کتاب اللہ میں سے گزر چکا تو میں اس عورت کو دیکھ لیتا۔ جھوٹا الزام لگانے والے پر اللہ کی لعنت 4۔ ابن ابی حاتم وابن المنذر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے اپنی بیوی پر الزام لگایا کہ اس نے فلاں مرد کے ساتھ بدکاری کی اس بات کو رسول اللہ ﷺ نے ناپسند فرمایا اس کو رد کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت ” والذین یرمون ازواجہم ولم یکن لہم شہداء الا انفسہم “ آپ نے دونوں کو بلوا بھیجا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے بارے میں حکم نازل فرمادیا ہے آپ ﷺ نے مرد کو بلایا اور اس پر آیت کو پڑھا اس نے چار دفعہ یہ گواہی دی کہ اللہ کی قسم وہ سچا ہے۔ پھر آپ نے حکم فرمایا اور اس کے منہ کو بند کردیا آپ نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہر چیز آسان ہے اللہ کی لعنت سے پھر اس مرد کو چھوڑ دیا اور فرمایا اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے پھر اس عورت کو بلایا اور اس پر آیات کو پڑھا تو عورت نے چار گواہیاں دے دیں اللہ کی قسم وہ مرد جھوٹا ہے پھر آپ نے حکم دیا اور بات کرنے سے منع کردیا اور اس عورت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تجھ پر افسوس ہے ہر چیز تجھ پر آسان ہے اللہ کے غضب سے پھر اس عورت کو چھوڑ دیا گیا تو اس عورت نے کہا اللہ کا غضب ہو اس عورت پر اگر وہ مرد سچا ہے۔ 5۔ البخاری ومسلم وابن مردویہ نے سعید بن جبیر کے طریق سے ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا میری بیوی نے زنا کیا ہے رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔ گویا کہ زمین میں سرجھکائے ہوئے ہیں۔ پھر آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں نازل فرمایا ہے اور تیری بیوی کے بارے میں اس کو لے آ وہ آئی تو آپ نے اس آدمی سے فرمایا کھڑا ہوجا اور چار مرتبہ گواہی دے وہ کھڑا ہوا اور چار مرتبہ گواہی دی کہ اللہ کی قسم وہ سچ بولنے والوں میں سے ہے۔ آپ نے فرمایا تیرے لیے ہلاکت ہے یا تجھ پر افسوس ہے یہ گواہی تجھ پر سزا کو واجب کردے گی تو اس نے پانچویں گواہی بھی دی کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے پھر وہ عورت کھڑی ہوئی اور اس نے چار مرتبہ گواہی دی اللہ کی قسم مرد جھوٹا ہے پھر آپ نے اس سے فرمایا تیرے لیے ہلاکت یا تجھ پر افسوس ہے ی گواہی تجھ پر عذاب کو واجب کردے گی پھر اس نے پانچویں گواہی بھی دیدی کہ اللہ کا غضب ہو اس پر اگر وہ سچ بولنے والوں میں سے ہے پھر آپ نے اس مرد سے فرمایا چلا جا تیرا اس عورت پر کوئی حق نہیں اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرا مال (کیا ہوگا) آپ نے فرمایا تیرے لیے کوئی مال نہیں اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے یہ مال اس کا عورض ہے جو تو نے اس سے لطف اٹھالی اگر تو نے اس پر جھوٹ بولا تو یہی چیز تجھے اس سے دور کرنے والی ہے۔ 6۔ احمد وعبد بن حمید والترمذی والنسائی وابن جریر وابن مردویہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے دو لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا کیا ان کے درمیان جادائی کردی جائے ؟ فرمایا سبحان اللہ ہاں !۔ سب سے پہلے جس نے اس کے بارے میں سوال کیا وہ فلاں بن فلاں تھا۔ اس نے کہا یارسول اللہ ! آپ بتائیے ایک آدمی نے اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھا اگر بات کرے تو بہت بڑی بات کرتا ہے اور اگر خاموش رہے تو اس طرح کے کام پر خاموش رہتا ہے آپ خاموش رہے اور اس کا کوئی جواب نہ دیا اس کے بعد جب وہ صحابی حاضر خدمت ہوا عرض کیا میں نے جس بارے پوچھا تھا تو میں خود اس میں مبتلا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت سورة نور میں نازل فرمائی آیت ” والذین یرمون ازواجہم “ یہاں تک کہ آیت ” ان غضب اللہ علیہا ان کان من الصدقین “ تک پہنچے۔ پھر آپ نے اس آدمی سے گفتگو کا آغاز کیا۔ اسے نصیحت کی اسے آخر یاد دلائی اور اس کو بتایا اور اس کو خبردی کہ دنیا کا عذاب آسان ہے آخرت کے عذاب سے اس آدمی نے کہا اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے آپ سے جھوٹ نہیں بولا۔ پھر آپ نے اس عورت کو روکا۔ اس کو نصیحت کی اس کو عذاب یاد دلایا اور اس کو بتایا کہ دنیا کا عذاب آسان ہے آخرت کے عذاب سے۔ اس نے کہا اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ میں جھوٹ بولنے والا نہیں اس آدمی نے چار دفعہ اللہ کے نام کے ساتھ گواہی دی کہ وہ سچ بولنے والوں میں سے ہے اور پانچویں مرتبہ یہ گواہی دی کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر اس عورت نے بھی چار مرتبہ گواہی دی اللہ کے نام کے ساتھ کہ وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے اور پانچویں دفعہ یہ گواہی دی کہ اللہ کا غضب ہو اس پر اگر وہ سچ بولنے والوں میں سے ہے۔ بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھے تو ؟ 7۔ ابن ابی شیبہ واحمد ومسلم وعبد بن حمید وابن ماجہ وابن حبان وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم جمعہ کی رات کو بیٹھے ہوئے تھے مسجد میں اتنے میں انصار میں سے ایک آدمی آیا اور کہا ہم میں سے کوئی ایک جب اپنی بیوی کو کسی آدمی کے ساتھ دیکھے اور اس کو قتل کردے تو تم اس کو قصاص میں قتل کردو گے اور اگر وہ بات کرے تو تم اس کو کوڑے مارتے ہو اور اگر وہ خاموش ہوجائے تو وہ غصہ پر خاموش رہے اللہ کی قسم ! اگر میں صحت مندی کی حالت میں صبح کروں تو میں ضرور رسول اللہ ﷺ سے سوال کروں گا پھر اس نے سوال کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم میں سے کوئی ایک اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو دیکھے اور اس کو قتل کردے تو تم لوگ اس کو قصاصا قتل کردو گے اور اگر وہ بات کرے تو تم اس کو کوڑے ماتے ہو اور اگر وہ خاموش رہے تو غصہ پر خاموش رہے۔ اے اللہ ! فیصلہ فرمادیجئے۔ تو اس پر آیت اللعان نازل ہوئی یہ پہلا آدمی تھا جو اس واقعہ میں مبتلا ہوا۔ 8۔ عبدالرزاق واحمد وعبد بن حمید والبخاری ومسلم ابو داوٗد ووالنسائی وابن ماجہ وابن جریر وابن المنذر والطبرانی سہل بن سعد ؓ نے فرمایا کہ عویمر، عاصم بن عدی کے پاس آیا اور کہا کہ رسول اللہ سے سوال کرو آپ بتائیے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی کو پایا اور اس کو قتل کردیا تو اس کو اس وجہ سے قتل کردیا جائے گا یا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ عاصم نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے سوال کرنے والے پر ناراضگی کا اظہار فرمایا عویمر ان سے ملے اور پوچھا تو نے کیا کہا عاصم نے جواب دی اتو میرے لیے کوئی خیر نہیں لایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور خود سوال کروں گا وہ حاضر ہوا اور یہ کیفیت پائی کہ آپ سے وحی نازل ہوچکی تھی آپ نے دونوں کو بلوایا اور اور دونوں کے درمیان لعان کرایا عویمر ؓ نے کہا یا رسول اللہ اسے جانے دیں اس نے اپنے بارے میں جھوٹ بولا ہے تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے بتانے سے پہلے ہی اسے طلاق دیدی۔ تو یہی واقعہ لعان کرنے والوں کے لیے لعنت بن گیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس عورت کو دیکھتے رہو اگر وہ سیاہ رنگ موٹی کالی آنکھوں والا اور بڑی سرین والا بچہ جنے تو میرا خیال ہے کہ یہ مرد سچا ہے اور اگر وہ عورت سرخ رنگ کا بچہ جنے گویا کہ وہ وجرہ ہے تو میرا خیال ہے وہ مرد جھوٹٓ ہے پھر اس عورت نے ناپسندیدہ کیفیت پر بچہ جنا۔ پہلا لعان کرنے والا ہلال بن امیہ ہے۔ 9۔ ابو یعلی وابن مردویہ نے روایت کیا کہ انس ؓ نے بیان فرمایا کہ دور اسلام میں سب سے پہلے لعان کرنے والا ہلال بن امیہ تھا اس نے شریک بن سحماء پر تہمت لگائی کہ اس نے اس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کی ہے عورت کا معاملہ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کردیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چار گواہ لاؤ ورنہ تیری پیٹھ پر حد جاری ہوگی اس نے عرض کیا یارسول اللہ اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ایسا حکم ضرور جاری فرمائیں گے کہ جس سے میری پیٹھ کوڑے لگنے سے بری ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ نے لعان والی آیت اتاری یعنی آیت ” والذین یرمون ازواجہم “ آیت کے آخرتک نبی ﷺ نے ان کو بلوایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ گواہی دو کہ تو سچ بولنے والوں میں سے ہے اس بارے میں تو نے اس عورت پر بد کاری کی تہمت لگائی ہے پڑھ اس نے اللہ کے نام کے ساتھ چار گواہیاں دیں پھر پانچویں گواہی میں آپ نے اس سے فرمایا اللہ کی لعنت ہو تجھ پر اگر تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہوگا اس بارے میں جو تو نے اس پر بدکاری کی تہمت لگائی ہے پھر اس نے ایسا کردیا یعنی پانچویں گواہی بھی دے دی پھر رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کو بلوایا اور اس سے فرمایا کھڑی ہوجا اور اللہ کے نام کے ساتھ یہ گواہی دے کہ مرد نے تجھ پر جو بدکاری کی تہمت لگائی ہے اس میں وہ جھوٹا ہے۔ عورت نے اس بارے میں چار گواہیاں دے دیں۔ پھر آپ نے اس سے پانچویں گواہی کے بارے میں فرمایا کہ اللہ کا غضب ہو تجھ پر اگر وہ سچ بولنے والوں میں سے ہے اس بارے میں جو اس نے تجھ پر تہمت لگائی ہے (راوی نے کہا) ۔ کہ جب وہ عورت چوتھی یا پانچویں گواہی دے رہی تھی تو وہ ذرا سی دیر خاموش رہی یہاں تک کہ صحابہ کرام ؓ نے گمان کیا کہ عنقریب وہ اقرار کرلے گی پھر کہنے لگی میں ہمیشہ اپنی قوم کو ذلیل ورسوا نہیں کروں گے اور اس نے گواہی دے دی (اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کردی۔ اور فرمایا تم دیکھتے رہو اگر یہ گھن گیا لے بالوں والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو وہ شریک بن سحماء کا ہے اور وہ سفید نرم اور سیدھے بالوں والا چھوٹی آنکھوں والا ہو تو یہ ہلال بن امیہ کا ہے تو اس عورت نے گندمی رنگ والے اور گھنگھریالے بال والے اور پتلی پنڈلیوں والے بچے کو جنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان کے بارے میں اگر اللہ کا حکم نازل نہ ہوچکا ہوتا تو میں اسے دیکھ لیتا۔ 10۔ نسائی وابن مردویہ نے عمرو بن شعیب ؓ سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد اور داد سے روایت کرتے ہیں کہ انصار کے قبیلہ بنی زریق میں سے ایک آدمی نے اپنی بیوی پر بدکاری کی تہمت لگائی وہ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ نے اس پر چار مرتبہ اس کی بات کو رد فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے لعان والی آیت کو نازل فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوال کرنے والا کہاں ہے اللہ کی طرف سے ایک عظیم حکم نازل ہوا ہے مرد نے لعان کے علاوہ ہر چیز کا انکار کیا اس عورت نے بھی انکار کردیا پھر دونوں نے لعان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر یہ عورت زرد رنگ والا اور پتلی پنڈلیوں والا۔ بڑی ہوئی ہڈیوں والا بچہ جنے تو لعان کرنے والے کا ہوگا اور اگر سیاہ رنگ والا خاکستری اونٹ کی طرح ہو تو بچہ کسی اور کا ہوگا اس عورت نے خاکستری اونٹ جیسا بچہ جنا رسول اللہ ﷺ نے اس بچہ کو منگوایا اور اس بچے کو ماں کے خاندان کے حوالے کردیا پھر فرمایا اگر وہ آیات نہ ہوتیں جو پہلے گزر چکیں تو اس میں یہ یہ سزا ہوتی۔ 11۔ البزار نے حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر سے فرمایا اگر تو اپنی بیوی رومان کے ساتھ کسی آدمی کو دیکھے تو اس کے ساتھ تو کیا کرے گا عرض کیا عرض کیا اللہ کی قسم میں اس کے ساتھ بہت برا سلوک کروں گا، پھر عمر ؓ نے سے یہی فرمایا، انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں اس کو قتل کردوں گا تو (آیت) آیت ” والذین یرمون ازواجہم “ نازل ہوئی میں کہتا ہوں کہ اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں مگر یہ کہ بزار اپنے حافظے سے حدیث بیان کرتا تھا اور بعض اوقات غلطی کرتا تھا اور مردویہ اور دیلمی (رح) نے اس سند سے روایت نقل کی تاہم حضرت عمر ؓ کے قول آیت ” کنت قاتلہ “ کے بعد ان الفاظ کا اضاہ کیا کہ آپ نے فرمایا اے سہیل بن بیضاء تو کیا کرتے گا اس نے عرض کیا میں یوں کہوں گا اللہ تعالیٰ نے ابعد لعنت کی کہ وہ خبیث ہے اور اللہ تعالیٰ نے بعدی پر لعنت کی کہ وہ خبیثہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے تین میں سے پہلے پر لعنت کی جس کے بارے میں خبردی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابن بیضاء تو نے قرآن کے معنی کو سمجھا ہے آیت ” والذین یرمون ازواجہم “ اور یہ زیادہ صحیح ہے، بزار کے قول سے۔ لعان کرنے کا طریقہ 13۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” والذین یرمون ازواجہم “ سے مراد وہ آدمی ہے جو اپنی بیوی کو زنا کی تہمت لگاتا ہے آیت ” ولم یکن لہم شہداء الا انفسہم “ یعنی اس مرد کے پاس اپنی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہیں جو یہ گواہی دیں کہ اس کی بیوی نے زنا کیا ہے یہ معاملہ حکام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ نماز کے بعد مسجد میں شوہر کے لیے یہ گواہی ہوگی کہ وہ چار مرتبہ اللہ کے نام کے ساتھ گواہی دے اور یوں کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ میری بیوی نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اور پانچویں دفعہ یہ گواہی دے کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے ” یدرأ “ کا معنی ہے کہ حکام اس سے حکد کو ساقط کردیں گے۔ جب عورت چار مرتبہ یہ گواہی دے گی کہ اس کا شوہر جھوٹ بوالنے والوں میں سے پھر عورت اپنے شوہر کی جگہ پر کھڑی ہوگی اور چار مرتبہ کہے گی میں اس اللہ کے نام کے ساتھ گواہی دیتی ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ میں نے زنا نہیں کیا اور میرا شوہر جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے اور پانچویں مرتبہ یوں کہے کہ اللہ کا غضب ہو اس پر اگر اس کا شوہر سچ بولنے والوں میں سے ہے۔ 14۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے آیت ” والخامسۃ ان لعنت اللہ علیہ ان کان من الکذبین “ کے بارے میں روایت کیا کہ اگر عورت اپنے بارے میں زنا کا اقرار کرے گی تو اسے رجم کردیا جائے گا اور اگر انکار کرے گی تو حد سے بچ جائے گی۔ یہاں عذاب سے مراد دنیا کا عذاب ہے (اور فرمایا) آیت ” ان تشہد اربع شہدت باللہ انہ لمن الکذبین۔ والخامسۃ ان غضب اللہ علیہا ان کان من الصدقین “ اگر انہوں نے آپس میں قسمیں کھالیں تو ان کے درمیان جدائی کردی جائے گی اور وہ طلاق والی عورت کی طرح عدت گزارے گی۔ 15۔ عبدالرزاق نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ دو آپس میں لعان کرنے والے کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوں گے۔ 16۔ عبدالرزاق نے علی اور ابن مسعود ؓ سے اس طرح روایت کیا۔ 17۔ عبدالرزاق نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ لعان کرنا زیادہ سخت ہے رجم کرنے سے۔ 18۔ عبدالرزاق نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ دونوں میں سے جو زیادہ جھوٹا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ 19۔ البزار نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ آپس میں لعان والی آیت نہیں نازل ہوئی مگر کثرت سے سوال کرنے کی وجہ سے۔ حضرت سعد ؓ کی غیرت 20۔ الخرائطی نے مکارم اخلاق میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سعد بن عبادہ نے عرض کیا اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو دیکھوں تو میں انتظار کروں یہاں تک کہ میں چار گواہ لے آؤں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ! سعد نے پھر عرض کیا اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر میں اس کو دیکھ لوتو میں اس کو جلدی تلوار کے ساتھ قتل کردوں گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے انصار کی جماعت ! سنو تمہارا سردار کیا کہتا ہے بیشک سعد غیرت مند آدمی ہے۔ اور میں اس سے زیادہ غیر مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ 21۔ ابن ماجہ وابن حبان والحاکم وابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب لعان والی آیت نازل ہوئی تو جس عورت نے اپنی قوم پر ایسے آدمی کو داخل کیا جو ان میں سے نہیں یعنی بدکاری کے ذریعہ غیر کی اولاد کو ان میں شامل کیا اس کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو ہرگز اپنی جنت میں داخل نہ فرمائیں گے اور جس آدمی نے اپنی بیوی اور اپنی اولاد کا انکار کردیا جبکہ وہ جانتا ہے کہ یہ اس کی اولاد ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے پردہ فرمالیں گے اور تمام اگلے اور پچھلے لوگوں کے سامنے اس کو رسوا کریں گے۔
Top