Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
اور (ہمارے ان احسانات کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو قوم فرعون سے مخلصی بخشی وہ (لوگ) تم کو بڑا دکھ دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی
وَاذکروا اِذْنَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ آل فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ ، سابقہ آیات میں بنی اسرائیل پر جن انعامات و احسانات کا اجمالا ذکر تھا، (اب یہاں سے مسلسل کئی رکوعوں تک) ان کی قدرے تفصیل بیان کی جا رہی ہے، اس تاریخی بیان میں دراصل یہ دکھانا مقصود ہے کہ ایک طرف یہ احسانات و انعامات ہیں جو خدا نے تم پر کئے اور دوسری طرف تمہارے یہ کرتوت ہیں جو ان احسانات کے جواب میں تم کرتے رہے ہو۔ مِنْ آل فِرْعَوْنَ ، ال یہ اہل کامرادف ہے اور مراد اس سے فرعون کی قبطی قوم ہے آل اور اہل میں فرق صرف اس قدر ہے کہ اہل کا استعمال عام ہے اور آل صرف خصوصیت اور اہمیت رکھنے والوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ فرعون کسی متعین بادشاہ کا ذاتی نام یا علم نہیں ہے قدیم شاہان مصر کا لقب تھا، جیسا کہ فارس کے بادشاہ کو کسریٰ اور روم کے بادشاہ کو قیصر اور حبشہ کو نجاشی کہتے تھے، جیسا کہ زمانہ قریب میں روس کے بادشاہ کو زار اور ترکی کے فرمانروا کو سلطان اور والی مصر کو خدیو اور والی حیدرآباد دکھن کو نظام کہتے تھے، مؤرخین کا خیال ہے کہ موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کا ہمعصر کوئی ایک بادشاہ نہیں ہے بلکہ یکے بعد دیگرے دو بادشاہ ہیں۔ تشریح نقشہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر جزیرہ نمائے سینا میں مارہ، ایلیم اور عیدیم کے راستے کوہسینا کی طرف آئے اور ایک سال سے کچھ زائد مدت تک اس مقام پر ٹھہرے رہے، یہیں تورات کے بیشتر احکام آپ پر نازل ہوئے، ہر آپ کو حکم ہوا، کہ بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف جاؤ اور اسے فتح کرلو کہ کہ وہ تمہاری میراث میں دیا گیا ہے، چناچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام بنی اسرائیل کو لئے ہوئے تبعیر اور حصیرات کے راستے دشت فاران میں تشریف لائے اور یہاں سے آپ نے ایک وفد فلسطین کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے روانہ کیا، قادس کے مقام پر اس وفد نے آکر اپنی رپورٹ پیش کی، حضرت یوشع اور کالب کے سوا پورے وفد کی رپورٹ نہایت حوصلہ شکن تھی، جسے سن کر بنی اسرائیل چہخ اٹھے اور انہوں نے فلسطین کی مہم پر جانے سے انکار کردیا، تب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب یہ چالیس برس تک اس علاقے میں بھٹکتے رہیں گے اور ان کی موجودہ نسل، یوشع اور کالب کے سوا فلسطین کی شکل دیکھنے نہ پائے گی، اس کے بعد بنی اسرائیل دشت فاران و بیانان شور اور دشت صین کے درمیان مارے مارے پھرتے رہے اور عمالقہ، اموریوں، ادومیوں ندیانوں اور موآب کے لوگوں سے لڑتے بھڑتے رہے، جب چالیس سال گزرنے کے قریب آئے تو ادوم کی سرحد کے قریب کوہ ہور پر حضرت ہارون علیہ الصلوٰة والسلام نے وفات پائی، پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام بنی اسرائیل کو لئے ہوئے موآب کے علاقے آئے میں داخل ہوئے، اور اس پورے علاقے کو فتح کرتے ہوئے حسبون اور شطیم تک پہنچ گئے، یہاں کوہ عباریم پر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کا انتقال ہوا، اور ان کے بعد ان کے خلیفہ اول حضرت یوشع نے مشرق کی جانب سے دریائے اردن کو پار کرکے شہر یریکو (اریکا) کو فتح کیا، یہ فلسطین کا پہلا شہر تھا جو بنی اسرائیل کے قبضہ میں آیا پھر ایک مدت ہی میں پورا فلسطین فتح ہوگیا، اس نقدشہ میں ایلہ (قدیم نام ایلات اور موجودہ نام عقبہ) وہ مقام ہے جہاں غالبا اصحاب السبت کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورة بقرہ رکوع 8، اور سورة اعراف رکوع 12 میں آیا ہے۔ فرعون موسیٰ کا نام : اہل کتاب کے قول کے مطابق فرعون موسیٰ کا نام قابوس ہے اور وہب نے کہا ہے کہ اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان ہے، (فتح القدیر شرکانی) جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ '' فرعون '' شاہان مصر کا لقب ہے کسی خاص بادشاہ کا نام نہیں ہے، تین ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہو کر عہد سکندر تک فراعنہ کے اکتیس خاندان مصر پر حکمران رہے ہیں۔ عام مؤرخین عرب اور مفسرین، فرعون موسیٰ کا تعلق خاندان عمالقہ سے قرار دیتے ہیں، کوئی اس کا نام ولید بن معصب بن ریاب بتاتا ہے اور کوئی مصعب بن ریان، مگر ارباب تحقیق کی رائے ہے کہ اس کا نام ریان تھا، ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کنیت ابومرہ تھی، یہ سب اقوال قدیم مورخین کی تحقیقی روایات پر مبنی تھے، مگر اب جدید مصری اثری تحقیقات اور حجری کتبات کے پیش نظر اس سلسلہ میں دوسری رائے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ موسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام کے زمانہ کا فرعون ریمسیس ثانی کا بیٹا منفتاح ہے، جس کا دور حکومت، 1292 قبل مسیح سے شروع ہو کر 1225 قبل مسیح پر ختم ہوتا ہے۔ (قصص القرآن مولانا حفظ الرحمن ملخصا) مصری عجائب خانہ میں یہ نعش آج بھی محفوظ ہے اور قرآن عزیز کے اس کلام بلاغت نظام کی تصدیق کر رہا ہے۔ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً ، آج کے دن ہم تیرے جسم کو (دریا سے) نجات دیں گے، تاکہ وہ تیرے بعد آنے والوں کے لئے (خدا کا) نشان رہے۔ محمد احمد عدوی اپنی کتاب '' دعوة الرسل الی اللہ '' میں لکھتے ہیں کہ اس نعش کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد ہے اس کی تصدیق اس تصویر کے دیکھنے سے بھی ہوتی ہے جو زمانہ قریب میں سی ڈی میں محفوظ کی گئی ہے۔ فرعون کا جواب : تورات اور مورخین کا بیان ہے کہ فرعون کو بنی اسرائیل کے ساتھ اس لئے عداوت ہوگئی تھی کہ فرعون نے ایک بھیانک خواب دیکھا تھا وہ یہ کہ بیت المقدس سے ایک آگ نکلی ہے۔ یہاں تک کہ : اس نے مصر پہنچ کر مصر کے تمام گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور قبطیوں کو جلا ڈالا اور اسرائیلیوں کو چھوڑ دیا، اس خواب سے فرعون کو بہت تشویش لاحق ہوئی اس کی تعبیر کے لئے کاہنوں، نجومیوں اور قیافوں کو جمع کیا، ان لوگوں نے بتایا کہ تیری حکومت کا زوال ایک اسرائیلی لڑکے کے ہاتھوں ہوگا، اس واقعہ کے بعد فرعون کو اسرائیلیوں سے عدوات ہوگئی اور نومولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیدیا۔ مفسرین نے بھی انہی روایات کو کتب تفسیر میں نقل فرمایا ہے۔ موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام اور ان کا نسب : حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کا نسب چند واسطوں سے یعقوب علیہ الصلوٰة والسلام تک پہنچتا ہے ان کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام یوکابد تھا، سلسلہ نسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہث بن لاوی بن یعقوب (علیہ الصلوٰة والسلام) بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ الصلوٰة والسلام) موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی ولادت ایسے زمانہ میں ہوئی جب کہ فرعون بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کا فیصلہ کرچکا تھا۔ بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات : وَاِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ آل فِرْعَوْنَ ، نَجَّیْنَا، باب تفعیل سے ہے، اس باب کی ایک خاصیت فعل کی تدریج ظاہر کرنا بھی ہے، بعض مورخین کا خیال ہے کہ تمام اسرائیلی مصر سے ایک ساتھ نہیں نکلے تھے، بلکہ بتدریج مختلف جماعتوں کی شکل میں نکلے تھے، اور ان کا سب سے بڑا اور آخری دستہ وہ تھا، جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی قیادت میں روانہ ہوا اور راہ بھٹک کر سمندر پار ہوا۔ (تفسیر ماجدی) فرعون اور مصری سرکار کے مظالم سالہا سال تک برداشت کرنے کے بعد بالآخر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی قیادت میں ساری قوم اسرائیل نے مصر کی سکونت ترک کرکے اپنے آبائی وطن شام و فلسطین کو چلا جانا طے کرلیا، سفر مصری حکومت سے خفیہ طور پر رات کے وقت شروع کیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ راستہ میں روشنی کا انتظام تو دور کی بات ہے، آج کل کی طرح باقاعدہ سڑکیں بھی نہ تھیں، رات کی تاریکی میں اسرائیلی راستہ بھول گئے اور نجائے اس کے کہ شمال کی طرف کچھ آگے بڑھ کر اپنی دائیں طرف مشرق کی جانب مڑتے پہلے ہی ادھر مڑ گئے، ادھر فرعون کو بھی اس کی اطلاع ہوگئی، فرعون اپنے لشکر کی کمان خود کرتا ہو تیزی سے تعاقب میں آپہنچا، اب اسرائیلیوں کے سامنے یعنی مشرق کی جانب بحر قلزم کا شمالی سرا تھا اور دائیں بائیں یعنی شمال و جنوب میں پہاڑیاں تھیں اور پشت یعنی مغرب کی جانب مصری لشکر تھا، قرآن مجید میں اسی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
Top