Tafseer-e-Jalalain - Yaseen : 51
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ
وَنُفِخَ : اور پھونکا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں فَاِذَا هُمْ : تو یکایک وہ مِّنَ : سے الْاَجْدَاثِ : قبریں اِلٰى رَبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف يَنْسِلُوْنَ : دوڑیں گے
اور (جس وقت) صور پھونکا جائے گا یہ قبروں سے (نکل کر) اپنے پروردگار کی طرف دوڑ پڑیں گے
آیت نمبر 51 تا 67 ترجمہ : اور صور پھونکا جائے گا وہ (ایک) سینگ ہے، اور دوسرا صور زندہ کرنے کے لئے ہوگا اور دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہوگا پھر جب وہ یعنی مردے قبروں سے نکل کر تیزی سے اپنے پروردگار کی طرف چلنے لگیں گے ان میں سے کافر کہیں گے، ہائے ہماری کمبختی یا تنبیہ کے لئے ہے ہائے ہماری ہلاکت، وَیْلٌ ایسا مصدر ہے کہ اس کا لفظی فعل نہیں آتا، کس نے ہم کو ہماری قبروں سے اٹھا یا ؟ اس لئے کہ وہ دونوں نفخوں کے درمیان سوئے ہوئے ہوں گے، ان کو عذاب نہ دیا جارہا ہوگا، یہ وہی (بعث) ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا، اور رسول نے اس کے بارے میں سچ کہا تھا ایسے وقت اقرار کریں گے کہ ان کا اقرار کچھ فائدہ نہ دے گا، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ بات کافروں سے کہی جائے گی بس وہ ایک زوردار آواز ہوگی جس سے یکایک سب جمع کرکے ہمارے پاس حاضر کردیئے جائیں گے، پھر اس دن کسی شخص پر ذرا (بھی) ظلم نہ ہوگا اور تم کو بس ان ہی کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے، اس دن درزخیوں کے عذاب سے بیخبر عیش ونشاط کے مشغلوں میں ہوں گے، ان چیزوں کی وجہ سے جن سے وہ لذت اندوز ہورہے ہوں گے، جیسا کہ دوشیزاؤں سے صحبت، نہ کہ ایسا کوئی کام کہ جس میں تعب ومشقت ہو، اس لئے کہ جنت تعب ومشقت کی جگہ نہیں ہے، شغُل غین کے سکون اور ضمہ کے ساتھ ہے، فَاکِھُوْنَ بمعنی ناعمونَ بمعنی خوش وخرم، یہ اِنّ کی دوسری خبر ہے اور پہلی خبر شُغْلٌ ہے، وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں مسہریوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے ھُمْ مبتداء ہے ظلال ظُلّۃ یا ظِلٌّ کی جمع ہے (فی ظلال) اول خبر ہے یعنی ان پر دھوپ نہیں آئے گی اَرَائِکِ اَرِیْکَۃٌ کی جمع ہے، اس مسہری کو کہتے ہیں جو خیمے میں ہوتی ہے یا اس فرش کو کہتے ہیں جو خیمے میں ہوتا ہے مُتَّکِئُوْنَ دوسری خبر ہے اور (متکئونَ ) علی کا متعلق ہے، وہاں ان کے لئے میوے اور جو وہ فرمائش کریں گے موجود ہوگا، ان کو پروردگار مہربان کی طرف سے سلام فرمایا جائے گا، سلام مبتداء ہے، اور قولاً خبر ہے، یعنی ان کو سلام علیکم فرمائے گا، اور اللہ تعالیٰ ان کے اختلاط کے وقت فرمائے گا اے مجرمو آج (مومنوں) سے الگ ہوجاؤ اور اے اولاد آدم کیا میں نے تم کو رسولوں کی زبانی تاکیدی حکم نہیں دیا تھا یہ کہ شیطان کی بندگی یعنی اس کی اطاعت نہ کرنا وہ تمہارا صریح دشمن ہے، یعنی اس کی عداوت کھلی ہوئی ہے اور صرف میری بندگی کرنا یعنی توحید کا اقرار کرنا اور میری اطاعت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے وہ (شیطان) تم میں سے ایک کثیر مخلوق کو گمراہ کرچکا ہے جبلاً جَبِیْلٌ کی جمع ہے جیسے قدمًا قدیمٌ کی جمع ہے، اور ایک قراءت میں ب کے ضمہ کے ساتھ ہے جُبُلاً سو کیا تم اس کی عداوت یا اس کے گمراہ کرنے کو یا اس عذاب کو جو ان پر نازل ہوا، نہیں سمجھتے تھے کہ ایمان لے آتے اور ان سے آخرت میں کہا جائے گا یہی ہے وہ جہنم جس جا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا آج اس میں اپنے کفر کی وجہ سے داخل ہوجاؤآج ہم ان کافروں کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے، ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ اے ہمارے پروردگار ہم مشرکین میں سے نہیں تھے، جو کچھ یہ (دنیا میں) کررہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کریں گے اور ان کے پیر وغیرہ گواہی دیں گے، اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو ملیا میٹ کردیں یعنی مٹا کر اندھا کردیں، پھر یہ راستہ کی طرف اپنی عادت کے مطابق دوڑیں تو اس وقت کیسے دیکھ سکیں گے ؟ یعنی نہیں دیکھ سکیں گے اور اگر ہم چاہیں تو ان کو جہاں ہیں وہیں بندروں خنزیروں یا پتھروں میں تبدیل کردیں اور ایک قراءت میں مکانا تِھِمْ ہے جو کہ مکانۃٌ کی جمع ہے معنی میں مکان کے، یعنی ان کے گھروں میں پھر یہ لوگ نہ آگے چل سکتے اور نہ پیچھے لوٹ سکتے یعنی یہ لوگ نہ جانے پر قادر ہوتے اور نہ آنے پر۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : الصور ای القرآن جس کو آج کل بوق (بگل) کہا جاتا ہے، (ج) اَبْوَاق وبِیْقان وبِیْقاتٌ۔ قولہ : اَلَاجْدَاثُ جمع جَدْثٍ بمعنی قبر۔ قولہ : یَنْسِلُوْنَ (ن، ض) نَسْلاً دوڑنا، مجبوراً تیز چلنا۔ قولہ : یا للتنبیہ لفظ تنبِیْہ کے اضافہ سے اس سوال کا جواب ہے کہ نداء عقلاء کے ساتھ مختص ہے اور وَیلٌ ذوی العقول میں نہیں ہے، لہٰذا اس کو ندا دینا درست نہیں ہے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یا نداء کے لئے نہیں ہے، بلکہ تنبیہ کے لئے ہے لہٰذا کوئی اعتراض نہیں ہے یا مجازاً ویل، کو نداء ہے ای یَا وَیْلَنَا احضر فھٰذا اوانُ حضورِکَ جمہور کے نزدیک یا وَیْلَنَا ہے، اور ابن ابی لیلیٰ نے یاوَیْلَتَنَا پڑھا ہے قولہ : مَنْ بَعَثَنَا جمہور کے نزدیک مَنْ استفہامیہ مبتداء ہے اور بَعَثَنَا اس کی خبر ہے اور مِن کسرۂ میم کے ساتھ بطور شاذ پڑھا گیا ہے، اس صورت میں جار مجرور سے مل کر وَیْلنا سے متعلق ہوگا، اور بَعْثٌ مصدر ہوگا۔ قولہ : وَیْلَنَا ویلٌ ایسا مصدر ہے کہ اس کا لفظً فعل مستعمل نہیں ہے، البتہ معناً اس کا فعل ھَلَکَ استعمال ہوتا ہے۔ قولہ : مَنْ مَرْقَدِنَا یہ بَعَثَنَا سے متعلق ہے مَرْقَدِنَا مصدر میمی ہے، نیند، سونا، اور اسم مکان بھی ہوسکتا ہے، یعنی خوابگاہ (قبر) مفرد کو مصدر ہونے کی وجہ سے جمع کے قائم مقام کردیا ہے۔ قولہ : ھٰذا مَا وَعَدَ الرحمٰنُ وصَدَقَ المرسلُونَ ، وَعَدَ اور صَدَقَ کا مفعول محذوف ہے ای وَعَدَنا بہٖ وصدقونا فیہ مفسر علام نے اَقَرُّوْا حین لاَ یَنْفَعُھُمْ الاقرارُ کے اضافہ سے اشارہ کردیا کہ ھٰذا مَا وَعَدَالرحمٰنَ الخ کفار کا قول ہے ھٰذا مبتداء ہے اور مَا وَعَدَ الرحمٰن جملہ ہو کر خبر۔ قولہ : وَعَدَ الرحمٰن، قالُوْا محذوف کا مفولہ ہونے کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے۔ قولہ : قِیْل یقال لھم ذٰلک مفسر علام نے اس عبارت سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بعض حضرات نے مَا وَعَدَ الرحمٰن کو اللہ، یا مومنین یا ملائکہ کا قول قرار دیا ہے۔ قولہ : فاکِھُوْنَ ای الناعِمُونَ اسم فاعل جمع مذکر (س) فُکاھَۃً آرام پانا، مزے اڑانا، استہزاء کرنے والے، صاحب معجم القرآن نے لکھا ہے فکِھِیْنَ اور فاکِھِیْنَ کے معنی ہیں مسلمانوں کا مذاق بنا کر مزے لینے والے۔ (لغات القرآن) علَی الْاَرَائِکِ یہ متَّکِئُونَ کا متعلق مقدم ہے، اور متکئون اپنے متعلق سے مل کر ھُمْ مبتداء کی خبر ثانی ہے۔ قولہ : مَایَدَّعُوْنَ ، یَدَّعُوْنَ اصل میں یَدْتَعِیُوْنَ تھا، بروزن یَفْتَعِلُوْنَ یاء پر ضمہ دشوار سمجھ کر ماقبل یعنی ع کو دیدیا، التفاء ساکنین کی وجہ سے ی گرگئی، پھر ت کو دال سے بدل دیا اور دال کو دال میں ادغام کردیا۔ قولہ : سَلَامٌ قولاً مِّن رَّبٍّ رَّحیْمٍ اس جملہ کی ترکیب میں مختلف اقوال ہیں، جمہور نے سَلاَمٌ رفع کے ساتھ پڑھا ہے، اور اُبَیَّ وابن مسعود و عیسیٰ نے سَلاَمًا نصب کے ساتھ پڑھا ہے، نصب یا تو مصدریت کی وجہ سے ہے یا حال ہونے کی وجہ سے ہے ای خالِصًا، علامہ محلی نے منصوب بنزع الخافض قرار دیا ہے اور ای بالقول کہہ کر اس کی طرف اشارہ کردیال اور رفع کی چند وجوہ ہیں (1) مَاعَدَّعُوْنَ کی خبر ہے (2) ما سے بدل ہے یہ زمخشری کا قول ہے، شیخ نے کہا ہے اگر سلامٌ بدل ہو تو مَا یَدّعونَ سے مخصوص تمنا مراد ہوگی، تاکہ بدل واقع ہونا صحیح ہوجائے، اور ظاہر یہ ہے کہ ما یَدَّعُوْنَ ، کُلَّ مَا یَتَمَنَّاہُ کو عام ہے، اس صورت میں بدل واقع ہونا صحیح نہیں ہے (3) مَا کی صفت ہے مگر یہ اس صورت میں صحیح ہوگا کہ جب ما کو نکرہ موصوفہ مانا جائے، اور اگر الَّذِیْ کے معنی میں لیا جائے یا مصدریہ لیا جائے تو صفت واقع ہونا دشوار ہوگا، نکرہ و معرفہ میں مخالفت ہونے کی وجہ سے (4) مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہو، ای ھُوَ سَلاَمٌ (5) سَلَامٌ مبتداء اور اس کی خبر قَوْلاً کا ناصب ای سَلَامٌ یُقَالُ لھُمْ قولاً بعض حضرات نے سَلَامٌ علیکُمْ تقدیر مانی ہے (6) سَلَامٌ مبتداء اور مِن رَّبِّ العٰلَمِیْنَ اس کی خبر، اور قولاً مضمون جملہ کی تاکید کے لئے ہے، اور مع اپنے عامل کے مبتداء خبر کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔ (لغات القرآن للدرویش) قولہ : اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یہ استفہام توبخیی ہے۔ قولہ : لاَ تُطِیعُوہ یہ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوا الشّیْطانَ کی تفسیر ہے، مقصد اس شبہ کا ازلہ ہے کہ شیطان کی بندگی تو کوئی بھی نہیں کرتا، پھر شیطان کی بندگی سے منع کرنے کے کیا معنی ؟ جواب کا حاصل یہ ہے کہ عبادت بمعنی اطاعت ہے یعنی شیطان کی اطاعت ہی کی وجہ سے لوگ غیر اللہ کی بندگی کرنے لگے، شیطان کے کہنے سے بندگی کرنا گویا کہ شیطان کی بندگی کرنا ہے، اَنْ لاَّ تَعٌبُدُوْا میں اَنْ تفسیر یہ ہے، اس لئے کہ ماقبل میں لفظ آمُرُ کُمْ جو کہ بمعنی قول ہے موجود ہے لہٰذا اَنْ کا تفسیر یہ ہونا صحیح ہے۔ قولہ : اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ یہ وجوب ممانعت کی علت ہے۔ قولہ : وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ یہ تعلیل کی تاکید ہے۔ قولہ : جِبِلاًّ با اور جیم کے کسرہ اور لام کی تخفیف کے ساتھ، اس کے علاوہ دو قراءتیں اور ہیں (1) جیم اور بادونوں کے ضمہ (2) جیم کے ضمہ مع با کے سکون اور لام کی تخفیف کے ساتھ، مذکورہ تینوں قراءتیں سبعیہ ہیں۔ قولہ : تُوْعَدُوْنَ بِھا، بِھا کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا تُوْعَدُوْنَ جملہ ہو کر صلہ ہے اور اس کا عائد بھا محذوف ہے۔ قولہ : بِمَا کُنْتُمْ ای بسبب ما کنتم تکفرونَ ، بِمَا میں مامصدریہ ہے ای بسبب کفرکُمْ ۔ قولہ : وَلَوْ نشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلیٰ اَعْیُنِھِمْ ، لَوْ شرطیہ ہے نَشَاءُ فعل بافاعل ہے، نَشَاءُ کا مفعول بہ محذوف ہے، ای لَوْ نَشَاءُ طَمْسَھَا لَطَمَسْنَا ھَا، لَطَمَسْنَا جواب شرط ہے۔ قولہ : فَاَنّٰی یُبْصِروْنَ استفہام انکاری ہے یعنی نہیں دیکھ سکیں گے۔ قولہ : وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَا ھُمْ ای لَوْ نَشَاءُ مَسْخَھُمْ لَمَسَخْنَا ھُْ ۔ قولہ : عَلیٰ مَکَانَتِھِمْ عَلیٰ بمعنی فِی ہے، جیسا کہ شارح (رح) تعالیٰ نے فی منَازِلِھِمْ کہہ کر اشارہ کردیا ہے۔ تفسیر وتشریح ونفخ۔۔ الصور . لوگ بازاروں میں خریدو فروخت میں اور دیگر کاموں میں حسب عادت بحث و تکرار میں مشغول ہوں گے، کہ اچانک صور پھونک دیا جائے گا، اور قیامت برپا ہوجائے گی، یہ نفخۂ اولیٰ ہوگا، جسے نفخۂ فزع بھی کہتے ہیں، اس کے بعد دوسرا نفخہ ہوگا اس کو نفخۃ الصعق کہتے ہیں، جس سے اللہ کی ذات کے سوا شئ پر موت طاری ہوجائے گی، یہ نفخۂ ثالثہ ہے، جس کو نفخہ البعث و النشورکہتے ہیں، اس نفخہ کے بعد لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے، اور فرشتے ان کو بعجلت سختی کے ساتھ دھکیل کر میدان خشر میں لیجائیں گے، قبروں سے نکلنے کے وقت کافر کہیں گے، ہائے ہماری کمبختی ہماری خوابگاہوں سے ہم کو کس نے اٹھا دیا، مرقَدْ خوابگاہ کو کہتے ہیں، اور مطلقاً خواب کو بھی کہتے ہیں، ظاہر ہے کہ کافروں اور مشرکوں کو قبر میں خواب کہاں نصیب ہوگی ؟ وہ تو عذاب قبر میں مبتلا رہیں گے، تو پھر کافروں کے یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ہم کو کس نے خواب سے بیدار کردیا ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے، شاہد نفخۂ ثانیہ کے درمیان ان پر نیند کی حالت طاری کردی جائے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قیامت کے، ہولناک منظر کو دیکھ کر عذاب قبر ہی کو غنیمت سمجھیں گے، اور نیند سے تشبیہ دیں گے، یا پھر مرقد بمعنی مضجع ہو اور نیند کے معنی سے تجرید کرلی جائے۔ (فوائد عثمانی) ھٰذا۔۔ الرَّحْمٰنُ (الآیۃ) مشرکوں اور کافروں کو یہ جواب اللہ کی طرف سے اس وقت ملے گا، یا مستقبل کو حاضر قرار دیکر اب جواب دے رہے ہیں، یعنی کیا پوچھتے ہو کس نے اٹھایا ؟ ذرا آنکھیں کھولو یہ وہی بعد الموت ہے جس کا وعدہ خدائے رحمٰن کی طرف سے کیا گیا تھا، اور پیغمبر جس کی خبر برابر دیتے رہے تھے۔ جمیع۔۔ محضرون . یعنی نفخۂ بعث کے بعد نہ کوئی بھاگ سکے گا اور نہ روپوش ہو سکے گا، ماقبل کی آیت میں جہنمیوں کی پریشانیوں کا ذکر تھا، قرآن اپنے اسلوب اور عادت کے مطابق اہل جنت کا حال بیان کررہا ہے، کہ اہل جنت اپنی تفریحات میں مشغول ہوں گے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ یہ لفظ ” فی شُغُلٍ “ اس خیال کے دفع کرنے کے لئے بڑھایا ہو، کہ جنت میں جب نہ کوئی عبادت ہوگی اور نہ فرض و واجب اور نہ کسب معاش کا کوئی کام تو کیا اس بیکاری میں آدمی کا جی نہ گھبرائے گا، اس کے جواب میں فرمایا کہ ان کو اپنی تفریحات ہی کا بڑا شغل ہوگا، جی گھبرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بہشت میں ہر قسم کے عیش ونشاط کا سامان ہوگا، دنیا کی مکروہات سے آزاد ہو کر آج سیرو تفریح اور عیش و عشرت ہی ان کا مشغلہ ہوگا، اہل جنت اپنی بیویوں اور حور وغلمان کے ہمراہ تفریحی مشغلوں میں مست ومگن ہوں گے، اور اعلیٰ درجہ کے خوشگوار سایوں میں مسہریوں پر آرام کررہے ہوں گے، ہر قسم کے میوے اور پھل ان کے لئے حاضر ہوں گے، خلاصہ یہ کہ جس چیز کی جنتیوں کے دل میں تمنا اور آرزو ہوگی وہ شئ فوراً حاضر کی جائے گی، یہ تو جسمانی لذتوں اور راحتوں کا حال تھا آگے روحانی لذتوں کا ذکر ہے، جن کی طرف سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍ رَّحِیْمٍ سے اشارہ کردیا، یعنی اس مہربان پروردگار کی طرف سے جنتیوں کو ہدیۂ سلام پیش کیا جائے گا، خواہ فرشتوں کے ذریعہ یا بلا واسطہ رب العالمین جنتیوں کو سلام ارشاد فرمائیں گے جیسا کہ ابن ماجہ کی روایت میں مذکورہ ہے، اس وقت کی عزت و عظمت، لذت و فرحت کا کیا کہنا (اللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا ھٰذِہِ النِّعْمَۃََ العظمٰی بحرمۃِ نبیکَ محمد صلَّی اللہ علیہ وسلَّمَ ) ۔ وامتا۔۔ المجرمون . میدان حشر میں جب مردے اپنی اپنی قبروں سے نکلیں گے تو نیک و بد کافر و مومن سب مخلوط ہوں گے، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا کَاَنَّھُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ یعنی وہ منتشیر ٹڈیوں کی طرح ہوں گے، بعد میں گروہوں کی شکل میں سب کو الگ الگ کردیا جائے گا، اور مجرموں سے کہا جائے گا، وامتازوا الیومَ ایھا المجرمون کہ جنتیوں کے عیش و آرام میں تمہارا کوئی حصہ نہیں الم۔۔ الیکم (الآیۃ) یعنی تمام بنی آدم بلکہ جنات کو بھی مخاطب کرکے قیامت میں کہا جائے گا کہ کیا میں نے دنیا میں تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا، یہاں سوال ہوتا ہے کہ کوئی بھی شیطان کی عبادت نہیں کرتا اور نہ کفار کرتے تھے، بتوں یا دیگر چیزوں کو پوجتے تھے، اس لئے ان پر شیطان کی عبادت کا الزام کیسے عائد ہوا ؟ جواب کا حاصل یہ ہے کہ کسی کی اطاعت مطلقہ کرنا کہ ہر کام میں ہرحال میں بےچوں وچرا اس کا کہنا مانے، اسی کا نام عبادت ہے، اسی معنی میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد آزر سے کہا تھا یٰاَبَتِ لاَ تَعْبُدِ الشَّیْطَانَ ۔ (سورۂ مریم) الیوم۔۔۔ افواھھم . محشر میں حساب کتاب کے لئے پیشی میں اول تو ہر شخص کو آزادی ہوگی جو چاہیے عذر پیش کرے مگر مشرکین وہاں قسمیں کھا کر اپنے شرک و کفر سے مکر جائیں گے، کہیں گے وَاللہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ (سورۂ انعام) اور بعض یہ بھی کہیں گے کہ فرشتوں نے جو کچھ ہمارے اعمال ناموں میں لکھ دیا ہے ہم اس سے بری ہیں، اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے، تاکہ بول نہ سکیں، البتہ اللہ تعالیٰ اعضائے انسانی کو قوت گویائی عطا فرمائے گا، ہاتھ کہیں گے کہ ہم نے فلاں فلاں کام کئے تھے، اور پیر اس پر گواہی دیں گے اس طریقہ سے اقرار اور شہادت کے ذریعہ جرم ثابت ہوجائے گا، اس آیت میں انسان کے ہاتھوں اور پیروں کا بولنا ذکر کیا گیا ہے، دوسری آیت میں انسان کے کان، آنکھ اور کھال کا بولنا مذکور ہے شَھِدَ علْھِمْ سَمْعُھُمْ وَاْصَارُھُمْ وَجُلُوْ دُھُمْ اور ایک جگہ فرمایا گیا وَتَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ یعنی خود ان کی زبانیں گواہی دیں گی۔ سوال : زبانوں کا گواہی دینا، مونہوں پر مہر لگانے کے منافی ہے۔ جواب : منہ پر مہر لگانے اور زبانوں کے گواہی دینے میں کوئی تنافی وتعارض نہیں ہے، اس لئے کہ منہ پر مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کچھ نہ بول سکیں گے بلکہ ان کی زبان ان کی مرضی کے خلاف شہادت دے گی۔ حکمت : کسب اعمال میں اگرچہ تمام اعضاء کا دخل ہوتا ہے، مگر ہاتھوں کا دخل زیادہ ہوتا ہے، اس وجہ سے ہاتھ گویا فاعل مباشر ہوتے ہیں، اسی لئے قرآن کریم میں بہت سی جگہ فعل و کسب ہاتھوں کی طرف کی گئی ہے مثلاً یَوْمَ یَنْظُرُ الْمَرأُ مَا قَدَّمَتْ یَدَاہُ ، وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ ، بِمَا کَسَبَتْ اَیٌدِی النَّاس، فبمَا کَسَبَت اَیْدِیْکُمْ بخلاف پیروں کے کہ ان کی طرف فعل کی نسبت نہیں کی گئی، تو گویا کہ پیر، ہاتھوں کے اعتبار سے اکتساب اعمال میں اجنبی ہیں، ہاتھوں کا تکلم بمنزلہ اقرار کے ہے، اور اقرار فاعل کا معتبر ہوتا ہے، اور پیر بمنزلہ اجنبی کے ہیں اور شاہد کے لئے اجنبی ہونا مناسب ہے، اس لئے ہاتھوں کی طرف تکلم کی پیروں کی طرف شہادت کی نسبت ہے، گویا کہ ہاتھ مباشر ہیں، اور پیر حاضر، اقرار مباشر سے ہوتا ہے اور شہادت حاضر سے۔ حکمت : روزمحشر ہاتھوں کا تکلم بمنزلہ دعوے کے ہے اور ہاتھ بمنزلہ مدعی اور نفس بمنزلہ مدعا علیہ ہے اس لئے کہ حقیقی فاعل نفس ہی ہے، اور مدعی خود گواہ نہیں بن سکتا، گواہ مدعی کے علاوہ ہوتا ہے اور وہ پیر ہیں، اس وجہ سے تکلم کی نسبت ہاتھوں کی طرف اور شہادت کی نسبت پیروں کی طرف کی ہے۔ ولو۔۔۔ اعینھم (الآیۃ) یعنی بینائی سے محرومی کے بعد انہیں راستہ کس طرح دکھائی دیتا ؟ لیکن یہ تو ہمارا حلم و کرم ہے کہ ایسا نہیں کیا، مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہماری آیتوں سے جس طرح دل کی آنکھیں بند کرلی ہیں، اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ہم ان کی ظاہری آنکھوں کو بند کرکے دنیا میں اندھا کردیں کہ ان کو راستہ ہی نہ سوجھے مگر ہم نے اپنی رحمت اور حلم و کرم کی وجہ سے ایسا نہیں کیا، اور جس طرح یہ لوگ شیطانی راستوں سے ہٹ کر رحمانی راستوں پر چلنا چاہتے، ہم کو قدرت ہے کہ ان کی صورتیں مسخ کردیں، کہ ایک جگہ پتھر کے مانند پڑے رہیں، ہل بھی نہ سکیں۔
Top