Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 19
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا١ؕ وَ لَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ۚ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تَرِثُوا : کہ وارث بن جاؤ النِّسَآءَ : عورتیں كَرْهًا : زبردستی وَلَا : اور نہ تَعْضُلُوْھُنَّ : انہیں روکے رکھو لِتَذْهَبُوْا : کہ لے لو بِبَعْضِ : کچھ مَآ : جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : ان کو دیا ہو اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّاْتِيْنَ : مرتکب ہوں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی مُّبَيِّنَةٍ : کھلی ہوئی وَعَاشِرُوْھُنَّ : اور ان سے گزران کرو بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق فَاِنْ : پھر اگر كَرِھْتُمُوْھُنَّ : وہ ناپسند ہوں فَعَسٰٓى : تو ممکن ہے اَنْ تَكْرَهُوْا : کہ تم کو ناپسند ہو شَيْئًا : ایک چیز وَّيَجْعَلَ : اور رکھے اللّٰهُ : اللہ فِيْهِ : اس میں خَيْرًا : بھلائی كَثِيْرًا : بہت
مومنو ! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں میں) مت روک رکھنا۔ ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا نامناسب نہیں) اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو۔ اگر وہ تم کو ناپسند ہوں عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں سے بہت سی بھلائی پیدا کر دے۔
یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ ، عرب جاہلیت میں میت کی جائداد کی طرح اس کی بیوی بھی سوتیلے لڑکوں کے ورثہ میں آجاتی تھی اور یہی دستور یونانی اور رومی تمدن کے بھی کسی دور میں رہ چکا ہے (ماجدی) عرب جاہلیت میں وارث اگر چاہتا تو ان سے جبراً خود نکاح کرلیتا یا دوسروں کے نکاح میں دیدیتا گار چاہتا تو کسی سے بھی نکاح کی اجازت نہ دیتا اور ساری عمر یوں ہی گزارنے پر مجبور کردیتا، اسلام نے ظلم کے ان تمام طریقوں سے منع کیا ہے، عرب جاہلیت میں ایک ظلم عورت پر یہ بھی کیا جاتا تھا کہ اگر شوہر کو وہ ناپسند ہوتی اور وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تو از خود اس کو طلاق نہ دیتا بلکہ اسے خوب تنگ کرتا تاکہ وہ مجبور ہو کر حق مہر یا خاوند نے اسے کچھ دیا ہوتا ا از خود واپس کرکے اس سے خلاصی حاصل کرنے کو ترجیح سے اسلام نے اس حرکت کو بھی ظلم قرار دیا ہے۔ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا (الآیۃ) بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا وہ حکم ہے جس کی قرآن نے بڑی تاکید کی ہے اور احادیث میں نبی کریم ﷺ نے بھی اس کی بڑی وضاحت اور تاکید کی ہے، ایک حدیث میں آیت کے اسی مفہوم کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ لایَفْرُکْ مؤمن مؤمنۃ اِن سَخِطَ منھا خُلْقًا رَضِیَ مِنْھَا آخَرَ ۔ (صحیح مسلم کتاب الرضاع) مومن (شوہر) مومنہ (بیوی) سے بغض نہ رکھے اگر اس کی ایک عادت اسے ناپسند ہے تو اس کی دوسری عادت پسندیدہ بھی ہوگی، مطلب یہ ہے کہ بےحیائی اور نشوز و عصیان کے علاوہ اگر بیوی میں کچھ اور کو تاہیاں ہوں جن کی وجہ سے شوہر اسے ناپسند کرتا ہو تو اسے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق نہ دے بلکہ صبر و برداشت سے کام لے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں سے اس کیلئے خیر کثیر پیدا فرما دے یعنی نیک اولاد دے یا اس کی وجہ سے اللہ اس کے کاروبار میں برکت ڈال دے۔ وَکَیْفَ تَأْخُذُوْنَہٗ (الآیہ) خود طلاق دینے کی صورت میں حق مہر واپس لینے سے نہایت سختی کے ساتھ روک دیا گیا ہے، قنطار خزانے اور مال کثیر کو کہتے ہیں یعنی کتنا بھی حق مہر دیا ہو واپس نہیں لے سکتے، اگر ایسا کرو گے تو یہ ظلم اور کھلا گناہ ہے۔
Top