Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
اے ایمان والو تم نہ کہو راعنا اور کہو انظرنا201 اور سنتے رہو اور کافروں کو عذاب ہے دردناک
201 اللہ نے مسلمانوں کو راعنا کے لفظ سے منع فرمادیا کیونکہ یہ لفظ موہم شرک تھا اور اس کے تحت یہودیوں کی ناپاک نیتیں تھیں اور اس کی جگہ انظرنا کا لفظ استعمال کرنے کا حکم دیا۔ وَاسْمَعُوْا۔ میرے امرونہی کو غور سے سنو اور اس پر عمل کرو۔ ای ما امرتکم بہ ونھیتکم عنہ بجد (روح ص 349 ھ 1) اس سے ایسے الفاظ کہنے اور ایسی رسموں کی بنا رکھنے ممانعت ثابت ہوئی جو مبدا شرک ہوں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو قُلْ لَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ ۔ الایۃ کا علان کرنیکا حکم دیا تاکہ نصاری کی طرح مسلمان حضور ﷺ کو عالم الغیب اور مالک ومختار نہ سمجھنے لگیں۔ اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے اللہ میری قبر ظاہر نہ ہونے پائے تاکہ وہ شرک کا اڈہ نہ بن جائے۔ کذا فی الخازن۔ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ۔ اس کا تعلق لَمَّا جَاۗءَھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۔ سے ہے یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے اُعْبُدُوْ ا رَبَّکُمْ وَلَاتَجْعَلُوْا للہ اَنْدَاداً تو وہ اس کے مقابلہ میں جادو منتر پیش کردیتے ہیں۔ اب یہاں فرمایا گیا کہ وہ تو مشرک ہیں ہی اب تمہارے اندر بھی موہم شرک الفاظ کے ذریعے شرک پھیلانا چاہتے ہیں۔ اَلْکَافِرِیْنَ میں الف لام عہد کا ہے اور اس سے مراد وہ سازشی یہود ہیں جنہوں نے بد نیتی سے لفظ راعنا استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ اب آگے اہل کتاب اور مشرکین کی ایک اور بری اور ناپاک خواہش کا ذکر کیا ہے۔
Top