Jawahir-ul-Quran - An-Noor : 32
سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ١ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًۢا بِالْغَیْبِ١ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّ ثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ١ؕ قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ١۫۬ فَلَا تُمَارِ فِیْهِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاهِرًا١۪ وَّ لَا تَسْتَفْتِ فِیْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا۠   ۧ
سَيَقُوْلُوْنَ : اب وہ کہیں گے ثَلٰثَةٌ : تین رَّابِعُهُمْ : ان کا چوتھا كَلْبُهُمْ : ان کا کتا وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہیں گے خَمْسَةٌ : پانچ سَادِسُهُمْ : ان کا چھٹا كَلْبُهُمْ : ان کا کتا رَجْمًۢا : بات پھینکنا بِالْغَيْبِ : بن دیکھے ۚ وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہیں گے وہ سَبْعَةٌ : سات وَّثَامِنُهُمْ : اور ان کا آٹھواں كَلْبُهُمْ : ان کا کتا قُلْ : کہ دیں رَّبِّيْٓ : میرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِعِدَّتِهِمْ : ان کی گنتی (تعداد) مَّا يَعْلَمُهُمْ : انہیں نہیں جانتے ہیں اِلَّا : مگر صرف قَلِيْلٌ : تھوڑے فَلَا تُمَارِ : پس نہ جھگڑو فِيْهِمْ : ان میں اِلَّا : سوائے مِرَآءً : بحث ظَاهِرًا : ظاہری (سرسری) وَّ : اور لَا تَسْتَفْتِ : نہ پوچھ فِيْهِمْ : ان میں مِّنْهُمْ : ان میں سے اَحَدًا : کسی
اور نکاح کر دو33 رانڈوں کا اپنے اندر اور جو نیک ہوں تمہارے غلام اور لونڈیاں اگر وہ ہوں گے مفلس34 اللہ ان کو غنی کر دے گا اپنے فضل سے اور اللہ کشائش والا ہے سب کچھ جانتا ہے
ٖ 33:۔ ” وانکحوا الایامی الخ ” یہ چوتھا قانون ہے اس کا تعلق بھی صلاح و عفاف اور تطہیر معاشرہ سے ہے۔ ایامی ایم کی جمع ہے اور ایم غیر شادی شدہ مرد و عورت کو کہتے ہیں یا وہ مرد و زن جن کا رفیق زندگی فوت ہوچکا ہو الایم قال نضر بن شمیل کل ذکر لا انثی معہ و کل انثی لا ذکر معھا بکرا کان او ثیبا۔ وفی شرح کتاب سیبویہ لابی بکر الخفاف الایم التی لا زوج لھا واصلہھی التی کانت متزوجۃ ففقدت زوجھا برزء طرا علیھا الخ (روح ج 8 ص 147) ۔ یعنی جس عورت و مرد کا ابھی تک نکاح نہیں ہوا یا ہو کر بیوہ یا رنڈوا ہوگیا ہے تو موقع مناسب دیکھ کر ان کا نکاح کردو۔ اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو نیک ہیں ان کا نکاح بھی کردو کیونکہ نکاح ہوجانے سے ان میں زنا کا داعیہ کمزور ہوجائیگا اور نکاح نہ کرنے میں بہت سی خرابیاں ہیں۔ ” الصالحین “ سے یا تو شرعی معنی مراد ہے یعنی نیک اور پرہیزگار ہوں یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ وہ حقوق زوجیت صحیح طور سے ادا کریں اور زوجین اور ان کی اولاد کا دین محفوظ رہے لیحصن دینھم ویحفظ علیھم صلاحہم (کبیر ج 6 ص 385) ۔ یا صلاح سے اس کا لغوی معنی صلاحیت مراد ہے یعنی اگر غلاموں اور لونڈیوں میں نکاح کی صلاحیت ہو۔ وہ بالغ ہوں اور حقوق زوجیت ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وقیل المراد بالصلاح معنا واللغوی ای الصالحین للنکاح والقیام بحقوقہ (روح ج 8 ص 14) ۔ 34:۔ ” ان یکونوا الخ “ غربت اور افلاس کی وجہ سے ان کے نکاح میں تاخیر نہ کرو کیونکہ فقر و غنا اللہ کے قبضے میں ہے اگر اللہ کو منظور ہوگا تو وہ ان کے افلاس کو غنا سے بدل دے گا۔ ” واللہ واسع علیم “ اس کے خزانے غیر محدود ہیں جو ختم نہیں ہوسکتے اور وہ اپنی حکمت و مصلحت کے تحت جسے چاہتا ہے فقیر یا غنی کردیتا ہے۔
Top