Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 171
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ١ۚ اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ١٘ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١۫ۚ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ١ؕ اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْ١ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ؕ سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ١ۘ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا۠ ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ
: اے اہل کتاب
لَا تَغْلُوْا
: غلو نہ کرو
فِيْ دِيْنِكُمْ
: اپنے دین میں
وَ
: اور
لَا تَقُوْلُوْا
: نہ کہو
عَلَي اللّٰهِ
: پر (بارہ میں) اللہ
اِلَّا
: سوائے
الْحَقَّ
: حق
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
الْمَسِيْحُ
: مسیح
عِيْسَى
: عیسیٰ
ابْنُ مَرْيَمَ
: ابن مریم
رَسُوْلُ
: رسول
اللّٰهِ
: اللہ
وَكَلِمَتُهٗ
: اور اس کا کلمہ
اَلْقٰىهَآ
: اس کو ڈالا
اِلٰي
: طرف
مَرْيَمَ
: مریم
وَ
: اور
رُوْحٌ
: روح
مِّنْهُ
: اس سے
فَاٰمِنُوْا
: سو ایمان لاؤ
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَرُسُلِهٖ
: اور اس کے رسول
وَلَا
: اور نہ
تَقُوْلُوْا
: کہو
ثَلٰثَةٌ
: تین
اِنْتَھُوْا
: باز رہو
خَيْرًا
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
اللّٰهُ
: اللہ
اِلٰهٌ وَّاحِدٌ
: معبودِ واحد
سُبْحٰنَهٗٓ
: وہ پاک ہے
اَنْ
: کہ
يَّكُوْنَ
: ہو
لَهٗ
: اس کا
وَلَدٌ
: اولاد
لَهٗ
: اس کا
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
وَكَفٰي
: اور کافی ہے
بِاللّٰهِ
: اللہ
وَكِيْلًا
: کارساز
اے اہل کتاب اپنے دین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے بلکہ) خدا کے رسول اور اس کلمہ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے تو خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور (یہ) نہ کہو (کہ خدا) تین (ہیں۔ اس اعتقاد سے) باز آؤ کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ خدا ہی معبود واحد ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور خدا ہی کارساز کافی ہے۔
خطاب خاص باہل کتاب باعتاب نصیحت مآب۔ قال تعالیٰ یا اھل الکتاب لا تغلوا فی دینکم۔۔۔ الی۔۔۔ مستقیما۔ ربط) گزشتہ آیات میں یہود کے شبہات اور معاندانہ سوالات کے جوابات ارشاد فرمائے ہیں اور ان کے قبائح وفضائح سب کے سامنے کھول دیے جنہیں وہ چھپاتے تھے پس جب نبی ﷺ کو نبوت ثابت ہوگئی تو اس کے بعد ایک خطاب عام فرمایا اور تمام بنی آدم کو دین حق اور رسالت محمدیہ کی تصدیق کی دعوت دی اب خطاب عام کے بعد پھر اہل کتاب کو خطاب خاص فرماتے ہیں اور گوعنوان عام ہے مگر اصل مقصود بالخطاب، نصاری ہیں جس میں ان کو اس کی نصیحت ہے کہ اپنے عقائد فاسدہ سے باز آکر خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اگر انحراف کریں گے تو انہیں بہت سخت عذاب ہوگا اور چونکہ ان کے عقائد فاسدہ کا اصل سبب ہی تھا کہ ان کی طبیعت میں غلو یعنی مبالغہ پسندی تھی جس کے متعقد ہوئے اس کو حد سے بڑھا دیا حضرت عیسیٰ کو نبوت اور رسالت سے بڑھا کر الوہیت کا درجہ دے دیا اس لیے اللہ نے سب سے پہلے اسی غلو اور مبالغہ کے ترک کا حکم دیا جو ان کی گمراہی کا اصل سبب تھا اور خاص طور پر اہل کتاب کو مخاطب بنایا کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو کیونکہ یہ ایسی پاکیزہ اور عمدہ بات ہے کہ کسی کو اس کے تسلیم کرنے میں تردد نہیں ہوسکتا اور یہی بلاغت کا کمال ہے اور اسی کو حسن استدلال کہتے ہیں کہ اولا ایک مقدمہ مسلمہ پیش کردیا جائے تاکہ مخاطب اس کا انکارنہ کرسکے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں مبالغہ نہ کرو یعنی حد سے آگے نہ بڑھو اور حد سے زیادہ کسی کی تعظیم نہ کرو اور اللہ کی نسبت سوائے حق کے کوئی لفظ نہ کہو تمہارا حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہنا اللہ کی تنقیص ہے اور خدا کے ذمہ جھوٹ لگانا ہے کہ اس نے حضرت عیسیٰ کو اپنا بیٹا بنایا ہے اور اہل کتاب کے دو گروہ تھے ایک یہود اور ایک نصاری یہود نے حضرت مسیح کی تنقیص کی اور ان کی شان کو گھٹایا اور ان کے قتل کے درپے ہوئے اور ان کی والدہ مطہرہ کو متہم کیا غرض یہ کہ یہود حضرت عیسیٰ کی تحقیر میں حد سے گذر گئے اور نصاری ان کی تعظیم میں حد سے گذر گئے اور ان کی تعظیم میں یہاں تک مبالغہ کیا کہ ان کو خدا کا بیٹا کہا اس آیت میں اہل کتاب سے خاص طور پر نصاری مراد ہیں گذشتہ رکوع میں یہود کی غلطی بیان فرمائی اب اس کے بعد خاص طور پر نصاری کو نصیحت فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے متعلق غلط عقیدہ نہ رکھیں اور نصاری کے اکثر فرقے خدا کی ذات میں بامتیاز حقیقی تین اقنوم کے قائل ہوئے اور اس کا نام تثلیث رکھا اور پھر تماشہ یہ کہ یہ کہا کہ تین ایک میں ہیں اور ایک تین میں ہے اور یہ نصاری کا بنیادی عقیدہ ہے اور نجات کی سیڑھی ہے اور اس کو وہ توحید فی التثلیث اور تثلیث فی التوحید کے نام سے موسوم کرتے ہیں نصاری کے کل چار فرقے تھے، یعقوبیہ، ملکانیہ، نسطوریہ، مرقوسیہ ان میں سے یعقوبیہ اور ملکانیہ مسیح کو خدا کہتے تھے اور نسطوریہ خدا کا بیٹا اور مرقوسیہ ان کو تین کا تیسرا قرار دیتے تھے یعنی انکا عقیدہ یہ تھا کہ خدا تین اقنوم ہیں یعنی خدا باپ اور بیٹے اور روح القدس سے مرکب ہے ان میں سے ایک قنوم عیسیٰ ہے تو عیسیٰ تین خدا میں سے ایک خدا ہے گویا کہ عیسائی مذہب میں الوہیت کے تین رکن ہیں جن سے خدائی قائم ہے۔ اللہ جل شانہ نے اس آیت میں ان چاروں فرقوں کی تردید فرمائی ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے اہل کتاب دین میں غلو اور مبالغہ نہ کرو اپنی طرف سیدین میں کسی بات کو داخل کرنا درحقیقت اللہ پر جھوٹ بولنا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے حالانکہ اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا لفظ لاتغلوا فی دینکم سے گمراہی کا مبداء اور منشاء بیان فرمایا کہ ہر گمراہی کا منتہی اور اس کا انجام بیان فرمایا کہ غلو اور مبالغہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ دین میں وہ باتیں داخل ہوجاتی ہیں جن کا اللہ نے حکم نہیں دیا جھوٹ بلونے کے مرادف ہے کہ خداوندی کسی چیز کو دین کہنا اور موجب ثواب و عقاب بتانا۔ وقال تعالی، ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا۔ آیت۔ اسی طرح عیسیٰ کو خدا اور خدا کا بیٹا کہنا اللہ پر جھوٹ بولنا ہے وہ وحدہ لاشریک لہ ہے نہ کوئی اس کا کوئی شریک ہے اور نہ کوئی اس کی بیوی ہے اور نہ کوئی اس کی اولاد ہے اللہ تعالیٰ شرکت اور حلول سب سے پاک اور منزہ ہے خدا نے ہرگز نہیں کہا کہ مسیح میرا بیٹا ہے جزایں نیست کہ مسیح یعنی عیسیٰ بن مریم خدا کے پیغمبر ہیں وہ خدا کے بیٹے نہیں بلکہ وہ مریم کے بیٹے ہیں اور ظاہر ہے کہ عورت کامولود معبود اور معبود کا بیٹا نہیں ہوسکتا حضرت عیسیٰ صرف پیغمبر خدا ہیں خدا سے انکا کوئی نسب اور رشتہ نہیں اور وہ اللہ کا کلمہ ہیں جس کو اللہ نے مریم کی طرف ڈالا اور اللہ کی طرف سے ایک خاص روح ہیں مسیح کو خدا کا کلمہ اس لیے کہا کہ وہ محض کلمہ کن سے پیدا ہوئے اور ان کی پیدائش عام لوگوں کی طرح کسی مادہ منویہ سے نہیں ہوئی اور چونکہ ان کی ولادت روح الامین کے نفخہ روحانیہ سے ہوئی اور روحانیت ان پر خاص طور پر غالب تھی اس لیے ان کو روح منہ فرمایا۔ اس جگہ اللہ نے حضرت عیسیٰ کے چار وصف بیان فرمائے ہیں۔ پہلاوصف) ۔ یہ ہے کہ وہ ابن مریم ہیں یعنی بحکم خداوندی بغیر باپ کے صرف ماں سے پیدا ہوئے معاذ اللہ حرام فعل کی بناء پر نہیں جیسا کہ یہود کہتے ہیں اور معاذ اللہ نہ خدا ہیں اور نہ خدا کے بیٹے جیسا کہ نصاری کہتے ہیں۔ دوسرا وصف۔ رسول اللہ ہے یعنی وہ خدا کے رسول تھے اور اس میں یہود کا بھی رد ہے اور نصاری کا بھی یہود ان کو اللہ کا رسول نہیں سمجھتے تھے بلکہ معاذ اللہ ان کو جھوٹا اور جادوگر کہتے تھے اور نصاری ان کو خدا اور خدا کا بیٹا کہتے تھے کہ خدا نے مریم کے پیٹ میں حلول کیا اور انسانی صورت میں ظاہر ہوا جیسا کہ ہنود اپنے اوتاروں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ لفظ رسول اللہ میں اللہ نے دونوں کا رد فرمایا۔ تیسراوصف) ۔ یہ کہ وہ اللہ کا کلمہ تھے یعنی صرف کلمہ کن سے بلاتوسط اسباب پیدا ہوئے اگرچہ تمام لوگوں کی خلقت اللہ ہی کے کلمہ سے ہوئی ہے مگر چونکہ بظاہر اور لوگوں میں کچھ اسباب ظاہری کا بھی لگاؤ ہوتا ہے اور حضرت مسیح کی ولادت میں یہ بھی نہ تھا اس لیے ان پر کلمہ اللہ کا اطلاق زیادوہ موزوں ہوا اس صفت میں اشارہ اس طرف تھا کہ دشمن آپ کے قتل پر قادر نہ ہوں گے اسل یے کہ کوئی شخص اللہ کے کلمہ کو پست نہیں کرسکتا اللہ کا کلمہ اوپر ہی کو چڑھے گا کماقال تعالی، الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ۔ آیت۔ چوتھا وصف) ۔ روح منہ ہے یعنی حضرت عیسیٰ اللہ کی طرف سے ایک پاکیزہ اور لطیف روح ہیں جو روح الامین کے پھونک مارنے سے ظہور پذیر ہوتی ہے صورت آپ کی اگرچہ بشری ہے مگر فطرت اور اندرونی حقیقت ملکی اور جبرائیلی ہے، نقش آدم لیک معنی جبرائیل، رستہ از جملہ ہواؤ وقال وقیل۔ اور عجب نہیں کہ اسی بناء پر آپ کو کلمۃ اللہ کہا گیا ہو کہ جس طرح کلمہ کے الفاظ اور حروف میں ایک لطیف معنی مستور ہوتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح کی صورت بشریہ میں ایک نہایت لطیف شی یعنی حقیقت ملکیہ اور معنی جبرائیلی مستور اور مخفی تھے۔ نقابیست ہر سطر من زیں کتیب، فرو ہشتہ برعارض دلفریب معانی است درزیر حرف سیاہ، چودرپردہ معشوق ودرمیغ ماہ۔ اور اس وصف میں اشارہ اس طرف تھا کہ جب آپ کی فطرت ملکی اور روحانی ہے تو ملائکہ اور روحانین کی طرح آپ کے لیے عمر بھر ایک مرتبہ عروج الی السماء اور نزول ضرور پیش آئے گا کماقال تعالی، تعرج الملائکۃ واروح الخ۔ فرشتے اور روح جبرائیل آسمان پر جاتے ہیں اور فرشتے اور روح جبریل آسمان سے اترتے ہیں۔ پس جس طرح روح الامین کے لیے عروج اور نزول ثابت ہے اسی طرح جناب مسیح جو خدا کی ایک خاص روح ہیں اور روح الامین کے پھونک مارنے سے ظہور پذیر ہوئے ہیں کے لیے بھی ضرور عروج الی السماء اور نزول الی الارض ہوگا اور چونکہ حضرت مسیح کو سراپا روح قرار دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ وہ سراپا من جانب اللہ ایک روح ہیں اور یہ نہیں کہا گیا فیہ روح اس لیے یہود ان کے قتل پر قادرنہ ہوئے اس لیے کہ قتل جسم کا ممکن ہے روح کا قتل ممکن نہیں پس جس کو اللہ روح منہ کہے اس کو کون قتل کرسکتا ہے اور چونکہ اللہ نے آپ کو روح منہ فرمایا اور روح کا خاصہ یہ ہے کہ جس شی سے روح کا اتصال ہوجاتا ہے وہ شی زندہ ہوجاتی ہے اس لیے آپ کو احیا موتی کا معجزہ عطا کیا گیا حضرت عیسیٰ کے ہاتھ پھیرنے پر مردہ زندہ ہوجاتا تھا اس لیے کہ حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کی خاص روح تھے جس سے خدا کی یہ روح ملتی وہ شی باذن اللہ زندہ ہوجاتی۔ خلاصہ کلام یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندہ اور رسول تھے اور ان صفات فاضلہ مذکورہ کے ساتھ موصوف تھے معاذ اللہ خدا اور خدا کا بیٹانہ تھے پس اے اہل کتاب تم اللہ پر اور اس کے رسولوں پر صحیح ایمان لاؤ کہ اللہ ایک ہے نہ اس کے بیوی ہے اور نہ اولاد ہے اور حجرت عیسیٰ اللہ کے رسول ہیں اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں یعنی یہ خیال نہ کرو کہ خدائی تین ہیں باپ، بیٹا اور روح القدس اور انہیں تین چیزوں کو نصاری اقانیم ثلاثہ کہتے ہیں کہ پس اے اہل کتاب تم باز آجاؤ تین خدا کہنے سے یعنی تثلیث اور اتحاد اور حلول کے عقیدہ سے توبہ کرو یہی تمہارے لیے دنی اور آخرت میں بہتر ہوگا کہ کیونکہ جزایں نیست کہ اللہ ہی تمہارا معبود ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی دوسرا تیسرا معبود نہیں اور جو شخص تین خدا کا قائل ہے وہ تو توحید کا منکر ہے اور وہ نادان الوہیت میں جمہوریت کا قائل ہے او توحید کا قائل ہوجانا اور تثلیث سے باز آجانا اور اسی دنیا اور آخرت کی بہتری ہے دنیا کی بہتری تو یہ ہے کہ لوگ تم کو بےعقل نہ کہیں گے اور آخرت کا فائدہ یہ ہے کہ عذاب سے نجات پاؤ گے۔ عقیدہ تثلیث کے ابطال کے بعد عقیدہ ابنیت کو باطل فرماتے ہیں اللہ منزہ ہے اس سے کہ اس کے لیے کوئی فرزند ہو کیونکہ ولد والد کا جزء ہوتا ہے اور باپ سے حادث پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تجزی اور حدوث سے پاک ہے، نیز بیٹا باپ کے مماثل اور مشابہ ہوتا ہے اور خدا کا کوئی مثل نہیں نیز باپ ایک درجہ میں اولاد کا محتاج ہوتا ہے اس لیے کہ اولاد اس لیے ہوتی ہے کہ زندگی میں باپ کی مددگار ہو اور مرنے کے بعد باپ کے قائم مقام ہو اور اللہ ان سب باتوں سے پاک اور منزہ ہے اور اللہ کافی کارساز ہے اسے اپنی کارسازی میں اوالد کی امداد کی حاجت نہیں پس وہ جب اپنی تدبیر اور کارسازی میں اکیلا کافی ہے تو دوسرے اور تیسرے معبود ماننے کی کیا ضرورت اور بےضرورت اور فالتو چیز کو معبود بنانا اور خدائی میں اس کو شریک ٹھہرانا بےعقلی نہیں تو اور کیا ہے۔ (نصاری کا ایک شبہ اور اس کا جواب) ۔ الوہیت مسیح اور ابنیت مسیح کے باطل کرنے کے بعد نصاری کے ایک شبہ کا جواب دیتے ہیں کہ اگر نصاری یہ کہیں کہ ہم تو دین میں غلو نہیں کرتے لیکن اے مسلمانو تم حضرت عیسیٰ کی تنقیص کرتے ہو کہ ان کو تم خدا کا بندہ بتاتے ہو حالانکہ ان سے خدائی افعال سرزد ہوتے تھے وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے اور مادر زاد اندھوں کو اچھا کرتے تھے ایسی برگزیدہ ذات کو خدا کا بندہ کہنا یہ ان کی تنقیص اور تحقیر ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ مسیح ابن مریم ہرگز اللہ کا بندہ ہونے سے عار نہیں کرتے بلکہ وہ خدا کی بندگی کو اعلی درجہ کی عزت اور رفعت سمجھتے تھے تم خود مقر ہو کہ حضرت مسیح رات بھر زیتون کی پہاڑی پر اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ ذوق وشوق کے ساتھ اللہ کی عبادت وہی کرے گا جو اللہ کا بندہ ہونے پر فخر کے گا معبود کسی کی عبادت نہیں کیا کرتا اور نہ مقرب فرشتے خدا کی بندگی سے عار کرتے ہیں حالانکہ فرشتے نورانیت اور روحانیت میں حضرت مسیح سے بڑھے ہوئے ہیں فرشتے بغیر ماں باپ کے محض نور سے بلااسباب ظاہری کے محض کارکن سے پیدا ہوئے اور ظہور خوارق اور عالم غیب کے علم وادراک میں اور آسمان و زمین کے عروج ونزول میں حضرت مسیح سے بڑھ کر ہیں فرشتوں کا اصل مسکن آسمان ہے اور حضرت مسیح اصل باشندہ زمین کے ہیں جو بہ نسبت آسمانوں کے بہت پست ہے مگر باایں ہمہ فرشتے خدا اور خدا کے بیٹے نہیں دن رات اللہ کی تسبیح وتحمید وتہلیل وتمجید میں لگے رہتے ہیں نجرام کے عیسائیوں نے نبی ﷺ سے کہا کہ اے محمد آپ ہمارے خداوند یسوع مسیح کا رتبہ گھٹاتے ہیں کہ آپ ان کو خدا کا بندہ بتلاتے ہو اس سے تو ان کی کسرشان ہوتی ہے آپ نے فرمایا کہ عیسیٰ کو خود خدا کا بندہ بننے سے عار نہیں ہے اور یہ آیت نازل ہوئی کہ نہ مسیح کو خدا کا بندہ بننے سے عار نہیں اور نہ ملائکہ مقربین کو اس سے عار ہے یہ تمہاری اور مشرکوں کی حماقت اور نادانی ہے کہ تم مسیح کو خدا کا بندہ بننے سے عار ہے اور نہ ملائکہ مقربین کو اس سے عار ہے یہ تمہاری اور مشرکوں کی حماقت اور نادانی ہے کہ تم مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہو اور مشرک فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں خدا کا بندہ بننا کسی طرح بھی موجب عار نہیں بلکہ موجب صد فخر اور باعث صد شکر ہے اور حضرت مسیح اور ملائکہ مقربین کو یہ خوب معلوم ہے کہ جو شخص اللہ کی بندگی اور عار کرے اور تکبر کرے تو قیامت کے دن اللہ حساب کے لے مستنکفین اور غیر مستنکفین کو جمع کرے گا اور جس دن سوائے بندگی کے کوئی چیز نفع نہ دے گی پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور اس کی عبودت اور عبادت سے استنکاف اور استکبار نہیں کیا پس اللہ ایسے لوگوں کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا اور بلکہ انہیں اپنے فضل سے اور زیادہ دے گا یعنی جس قدر ثواب کے وہ مستحق ہیں وہ اس سے زیادہ دے گا اور جن لوگوں نے اس کی بندگی کو موجب عار سمجھا اور تکبر کیا سو ان کو دردناک عذاب دے گا جو اللہ کی بندگی سے عار کرنے والوں کی ذلت ورسوائی کا ذریعہ ہوگا اور نہ پاویں گے یہ لوگ اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار جو ان کو ذلت سے بچا سکے یاچھڑا سکے۔ خاتمہ کلام برخطاب عام۔ جس طرح یہود کے خطاب کے بعد عام لوگوں کو مخاطب بنایا اسی طرح اب نصاری کے خطاب خاص کے بعد عام لوگوں سے خطاب فرماتے ہیں اے لوگو تحقیق آچکی تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک روشن دلیل یعنی نبی ﷺ کی ذات بابرکات۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب، گرد لیلی باید ازوے متاب۔ اور اتارا ہم نے آپ کی طرف ایک واضح روشنی کو تاکہ تم کو حق اور باطل کا فرق نظر ائے پس لوگوں پر اللہ کی حجت قائم ہوگئی اور کسی کے لیے حق قبول نہ کرنے میں کوئی عذر باقی نہیں رہا پس جو لوگ ایمان لائے اللہ وحدہ لاشریک لہ پر اور اس کی رسی کو مضبوط پکڑا اور خدا کی برہان اور اس کے نورمبین کو اپنے لیے مشعل راہ بنایا سو اللہ ان کو اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا رحمت سے مراد جنت اور ثواب عظیم ہے اور فضل سے وہ نعمت مراد ہے کہ جو وہم گمان سے کہیں زائد ہو اور ان کو سیدھے راستے پر چلا کر اپنے نزدیک پہنچا دے گا اللہ کی عطا کردہ برہان اور اس کے نازل کردہ نورمبین ہی کی روشنی میں آخرت کی راہ طے ہوسکتی ہے۔ ابطال الوہیت عیسیٰ علیہ السلام۔ تمام تاریخوں اور ناقابل تردید روایتوں اور انجیل کی بیشمار آیتوں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابن آدم اور انسان مجسم تھے حضرت مریم کے پیٹ سے پیدا ہوئے ان کا جسم انسانوں ہی کا سا تھا انسانوں کی طرح اعضاء رکھتے تھے انسانوں ہی کی طرح کھانے پینے کے محتاج تھے انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے سوتے اور جاگتے تھے چلتے اور پھرتے تھے غرض یہ کہ انسانیت کے تمام لوازم ان میں موجود تھے پس ایسے وجود کو کیسے خدا مان لیاجائے اور کسی طرح اس کے لیے خدائی صفات ثابت کردی جائیں۔ 1) ۔ خدا تو اس ذات پاک کا نام ہے کہ جو خود بخود موجود ہو اور تمام صفات کمال و جلال کے ساتھ متصف ہو اور تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہو قادر مطلق ہو عاجزنہ ہو۔ اے نصاری حیاری خدا را تم یہ تو بتلاؤ کیا خدا کو بھی مجبوری لاحق ہوسکتی ہے اور کیا سولی پر چلا کردم دے دینا خدا کی شان کے شایان ہے انجیل لوقا باب ہشتم آیت 22 و 23 میں ہے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اور اس کے شاگرد کشتی پر چڑھے اور اس نے ان سے کہا کہ آو جھیل کے پار چلیں پس وہ روانہ ہوئے مگر جب کشتی چلی جاتی تھی تو وہ سو گیا اور جھیل پر بڑی آندھی آئی اور کشتی پانی سے بھری جاتی تھی اور وہ خطرے میں تھے اور انہوں نے پاس آکر اسے جگایا اور کہا کہ صاحب ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں۔ 2) ۔ پس مسیح اگر خدا ہوتے تو اس قدرے بیخبر نہیں ہوسکتا اور نہ اس پر نیند طاری ہوسکتی ہے۔ اللہ وہ ذات ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود ہیں وہ ایسا زندہ ہے جس پر موت نہیں وارد ہوسکتی اور وہ تمام کائنات کے وجود کو قائم رکھنے والا تھا اور تھامنے والا ہے نہ اس کو اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ سب کو معلوم ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو بشری عوارض لاحق تھے اور کوئی خدائی صفت ان میں موجود نہ تھی پس کس طرح ان کو ازلی اور ابدی اور غیرمخلوق اور خدا تسلیم کرلیا جاسکتا ہے۔ 3) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو باوجود صاحب جسم وصاحب لحم ودوم ہونے کے خدا اور خالق عالم ماننے کا مطلب یہ ہوگا کہ رب معبود کا کچھ حصہ تو قدیم اور ازلی ہے اور کچھ حصہ مخلوق اور احادیث ہے اس لیے کہ جسم اور لحم دم بلاشبہ مخلوق اور احادیث ہے اور بقول نصاری اندر کی روح قدیم ہے۔ 4) ۔ نیز انصاری ایک طرف تو حضرت عیسیٰ کو ساری دنیا کا خالق مانتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ دنیا کا ایک جز تھے تو نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کا یہ خالق بھی ہے اور مخلوق بھی ہے۔ 5) ۔ نیز انجیل سے یہ ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے بال بھی کٹواتے تھے اور ناخن ترشواتے تھے جو زمین میں گر کر لاشی بن جاتے تھے تو نصاری کے مذہب پر نتیجہ یہ نکلے گا کہ خالق از لی کے بعض اجزاء کا کٹ جانا اور کٹ کر زمین میں مل جانا اور پھر ان کا فنا ہوجانا سب جائز ہے۔ 6) ۔ نیز نصاری کے نزدیک یہ بھی مسلم ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پیدا ہونے کے بعد بتدریج کی نشوونما پایا اور ان کے طول وعرض میں زیادتی ہوئی حتی کہ جوان ہوئے اور پیدائش سے لے کر اخیر عمر تک قسم قسم کے تغیرات بشریہ ان کو لاحق ہوتے رہے۔ تو حضرت نصاری بتائیں کہ معاذاللہ کیا خدا بھی بتدریج نشوونما پاتا ہے اور بشری تغیرات اس کو لاحق ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس کے طول وعرض میں زیادتی ہوتی ہے (الجواب الفسیح لما لفقہ عبدالمسیح ص 11) 8) ۔ نیز عیسیٰ (علیہ السلام) اگر خدا ہوتے تو یہودیوں سے خائف نہ ہوتے اور نہ ان سے چھپنے کی کوشش کرتے اور نہ موت کا پیالہ ٹلنے کی خدا سے چھپنے کی کوشش کرتے اور نہ موت کا پیالہ ٹلنے کی خدا سے دعا مانگتے دشمنوں سے ڈرنا اور دعا مانگنا بندہ کا کام ہے خدا تعالیٰ نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی سے کچھ مانگتا ہے۔ 9) ۔ نیز ابتداء ولادت سے لے کر اخیر عمر تک بچپن اور جوانی وغیرہ وغیرہ کے مراحل سے گزرنا یہ بھی تردید الوہیت کے لیے کافی ہے کیونکہ اس قسم کے بیشمار تغیرات بلاشبہ الوہیت کے منافی ہیں۔ 10) ۔ نیز نصاری جب ان کی موت کا عقیدہ رکھتے ہیں تو عقیدہ موت کے بعد تو تردید الوہیت کے لیے کسی دلیل کی حاجت ہی نہیں رہتی کیونکہ باتفاق عقلاء خدا کا حی لایمت ہونا ضروری ہے اللہ دکھ اور بیماری اور موت سے پاک ہے۔ نصاری کے چند شبہات اور ان کے جوابات۔ نصاری یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی ان آیات میں حضرت مسیح کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ یعنی اللہ کی روح اور اللہ کا کلمہ کہا گیا ہے اور خدا کی روح خدا سے کم تر نہیں ہوسکتی معلوم ہوا کہ حضرت مسیح مرتبہ الوہیت میں تھے اور علی ہذا لفظ کلمۃ اللہ میں مرتبہ الوہیت کی طرف اشارہ ہے قرآن میں کسی نبی کو اللہ کی روح اور اللہ کا کلمہ نہیں کہا گیا قرآن کریم نے ان دو صفتوں سے مسیح کو تمام پیغمبروں پر فوقیت دی ہے اس سے اشارہ ان کے مرتبہ الوہیت کی طرف ہے حضرت مسیح کلمہ خدا تھے اسی سے ساراجہاں پیدا ہوا اس لحاظ سے لفظ کلمۃ اللہ میں حضرت مسیح کی الوہیت کی طرف اشارہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کل کائنات کے مبداء ہیں۔ پہلی بات کا جواب) ۔ روح منہ کا مطلب یہ ہے کہ حضڑت عیسیٰ اللہ کی طرف سے ایک پاکیزہ روح ہیں جن کو اللہ نے بغیرباپ کے محض نفخ جبریل سے پیدا کیا جیسے جبریل امین کو روح الامین کہا جاتا ہے اس لیے کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ پاک روح ہیں جو محض نور سے پیدا کی گئیں اور روح منہ میں روح کی نسبت اور اضافت اللہ کی طرف محض تشریف و تکریم کے لیے ہے جیسے بیت اللہ اور ناقۃ اللہ میں بیت اور ناقہ کی اضافت اللہ کی طرف محض تشریف کے لیے ہے روح کے معنی خدا کے نہیں قرآن کریم میں اللہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے نفس ناطقہ پر من رواحہ اور من روحی کا اط لاق فرمایا ہے کماقال تعالی، ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ۔ وقال تعالی، فاذا سویتہ۔۔۔ الی۔۔۔ ساجدین۔ آیت۔ (2) ۔ نیز جو چیز بطور خرق عادت عجیب و غریب طریقہ سے ظہور میں آئے تو خاص طور پر اس کی اضافت اللہ کی طرف کرتے ہیں جیسے ھذہ ناقۃ اللہ میں صالح (علیہ السلام) کی ناقہ کو اللہ کی طرف سے اس لیے مضاف کیا ہے کہ تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ اونٹنی خلاف عادت الٰہیہ محض اللہ کی قدرت سے پتھر سے نکلی ہے اور اس کے لی کوئی مادہ اور نر نہ تھا اسی طرح حضرت عیسیٰ کو اس لیے روح اللہ کہتے ہیں کہ وہ بغیر باپ کے بلاسبب ظاہری کے پیدا ہوئے نہ کہ اس وجہ سے کہ معاذ اللہ وہ خدا ہیں اور یا خدا کی روح ہیں۔ (3) نیز لفظ روح، رحمت کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اور قرآن کریم میں روح کا اطلاق وحی خداوندی پر آیا ہے کماقال تعالیٰ وکذالک اوحینا الی روحا من امرنا۔ آیت اس لیے کہ وحی خدا وندی پر رحمت عظمی ہے اور لوگوں کی روحانی حیات کا ذریعہ ہے اس طرح حضرت عیسیٰ کا وجود باوجود لوگوں کے لیے ابر رحمت اور آب حیات تھا اس لیے ان کو روح اللہ کہا گیا۔ (4) نیز انجیل میں جابجا ہر سچے واعظ پر روح اللہ اور روح الحق کا اطلاق آیا ہے چناچہ انجیل یوحنا میں ہے اے دوستوں ہر روح پر ایمان نہ لاؤ بلکہ ان کا امتحان کرو جو روح اللہ کی طرف سے ہو اس پر ایمان لانا پس اس اعتبار سے حضرت عیسیٰ پر روح اللہ کا اطلاق بالکل درست ہے کہ وہ بلاشبہ سچے واعظ تھے۔ (5) ۔ نیز عہد عتیق میں روح اللہ کا اطلاق ہراس نفس ناطقہ پر بھی آیا ہے جو کامل الادراک ہو اور منبع حسنات اور مصدر امور غریبہ ہو جیسا کہ کتاب پیدائش باب 41 درس 38 میں بادشاہ مصر کا قول ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے حق میں یوں منقول ہے اور فرعون نے اپنے نوکروں سے کہا کیا تم ایسا جیسا یہ مرد ہے کہ جس میں خدا کی روح ہے پاسکتے ہو۔ اور کتاب دانیال میں شاہ بابل کا قول دانیال (علیہ السلام) کے حق میں اس طرح منقول ہے کہ خدا کی مقدس روح تیرے اندر ہے پس اسی طرح حضرت عیسیٰ کا نفس ناطقہ کامل الادراک اور منبع حسنات وبرکات تھا اس لیے ان کو روح اللہ کہا گیا۔ خلاصہ کلام) ۔ یہ کہ اس قسم کے اطلاقات سے الوہیت ثابت کرنا کمال ابلہی اور غایت سفاہت ہے ہاں اس قسم کے اطلاقات سے ایک قسم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے سو اس میں بحمدہ تعالیٰ اہل اسلام کو کوئی کلام نہیں عہد عتیق اور عہد جدید میں روح اللہ کا اطلاق بکثرت خدا کے برگزیدہ بندوں پر آیا ہے کیا نصاری ان سب کو خدا اور خدا کا بیٹا ماننے کے لیے تیار ہیں تفصیل کے لیے ازالۃ الشکوک حصہ اول از ص 29 ج 1 تا ص 40 ج 1 دیکھئے۔ دوسری بات کا جواب) ۔ لفظ کلمہ، کلام عرب میں کہیں بھی بمعنی ذات خدا یا بمعنی اقنوم علم مستعمل نہیں ہوا قرآن کریم میں جہاں کہیں لفظ کلمہ یاکلمات اللہ کی طرف مضاف ہے مثلا کلمۃ اللہ وکلمہ ربکت، ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین۔ آیت۔ وغیرہ وغیرہ انت تمام مواضع میں لفظ کلمہ یاکلمات خدا تعالیٰ کی طرف اضافت کے ساتھ مستعمل ہوا ہے اور سب جگہ خدا کی باتیں اور خدا کے احکام کے معنی میں مستعمل ہوا ہے لفظ کلمہ یاکلمات جو خدا کی طرف مضاف ہو تمام قرآن میں کہیں بھی بمعنی ذات خدا یا اقنوم علم کے معنی میں مستعمل نہیں ہوا۔ اور عہد عتیق اور عہد جدید کی کتابوں میں بکثرت لفظ کلمۃ اللہ اور کلمۃ الرباب بمعنی کلام خدایا حکم خدا آیا ہے چناچہ زبور 33 درس 6 میں بکلمۃ الرب تثبت السماوات وبروح فیہ جمیع جنودھا اور فارسی نسخہ مطبوعہ 1845 میں ہے آسمانہا بکلام خداوندتمامی عساکر آنہا، بنفس دہانش ساختہ شدہ اند۔ اور ہندی نسخہ مطبوعہ 1843 میں ہے خداوندکلام سے آسمان بنے اور ان کے سارے لشکر اس کے مہ کے دم سے اور خبار الایام کے پہلی کتاب کے سترھویں باب تیسرے درس میں ہے فلما کان فی تلک اللیلۃ حلت کلمۃ اللہ علی ناتان النبی۔ اور اردو نسخہ میں ہے اور اسی رات ایسا ہوا کہ خدا کا کلام ناتن کو پہنچا۔ اسی طرح قرآن کریم میں کلمہ اطلاق حضرت مسیح پر اس لیے کیا گیا کہ وہ بغیر باپ کے بحکم خداوندی کلمہ کن سے پیدا ہوئے جس سے مقصود حضرت مسیح کی ایک فضیلت اور بزرگی کو ظاہر کرنا ہے تاکہ یہود کا رد ہوجائے۔ غرض یہ کہ حضرت عیسیٰ کی شان میں کلمۃ اللہ یا روح اللہ کا لفظ ان کی خصوصیت اور فضیلت ثابت کرنے کے لیے آیا ہے نہ کہ ان کی الوہیت بتلانے کے لیے اس لیے کہ سارا قرآن الوہیت کے انکار اور رد سے بھراپڑا ہے اور الوہیت کے ماننے والوں کو کافر بتاتا ہے اس قسم کے الفاظ سے حضرت مسیح کی الوہیت نکالنا پرلے درجہ کی نادانی ہے حضرت مسیح کو حقیقتا کلام خداوندی یا حکم خداوندی کہنا عقلا محال ہے اس لیے کہ کلمہ خداوندی کی نسبت یہ کہنا کہ معاذ اللہ یہ کلمہ خداوندی حقیقۃ ایک کنوری کے پیٹ سے متولد ہوا اور پھر وہ کلمہ خداوندی اور کلام الٰہی اور حکم یزدانی دشمنوں کے جبر وقہر سے صلیب پر لٹکا دیا گیا الی آخرہ کیا یہ دیوانہ کی بڑ نہیں سب کو معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰ ایک ذات محدود اور شخص تھے جو ایک کنواری کے پیٹ سے پیدا ہوئے لہذا ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ تمام کائنات کے مبداء تھے سراسر حماقت ہے۔ عقیدہ ابنیت۔ نزول قرآن کے وقت نصاری کے مختلف فرقے تھے ایک فرقہ یہ کہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ عین خدا ہیں اور خدا ہی بشکل مسیح دنیا میں اتر آیا ہے اور دوسرا فرقہ یہ کہتا کہ مسیح ابن اللہ ہے یعنی خدا کا بیٹا ہے۔ اور تیسرا فرقہ یہ کہتا تھا کہ وحدت کا راز تین میں پوشیدہ ہے۔ باپ، بیٹا اور روحالقدس اور بعضے روحالقد کی جگہ حضرت مریم کو قنوم ثالث کہتے ہیں اور قرآن کریم نے تینوں جماعتوں کو جدا جدا بھی مخاطب کیا ہے اور یکجا بھی اور دلائل اور براہین سے یہ واضح کردیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مریم کے بطن سے پیداشدہ خدا کے برگزیدہ انسان اور رسول برحق تھے اور اس کے برخلاف یہود ونصاری حضرت مسیح کے بارے میں جو عقیدہ رکھتے ہیں وہ باطل محض ہے یہود کا عقیدہ یہ ہے کہ معاذ اللہ حضرت مسیح شعبدہ باز اور مفتری تھے اور نصاری کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور خدا کے بیٹے ہیں یا تین میں تیسرے ہیں قرآن کریم نے یہود کی تفریط اور نصاری کے افراط دونوں کا رد کیا ہے اور واضح اعلان کیا ہے کہ حضرت مسیح نہ خدا تھے اور نہ خدا کے بیٹے تھے بلکہ خدا کے برگزیدہ رسول تھے اور خدائے تعالیٰ لاشریک لہ حضرت مسیح کی پیدائش سے پہلے بلکہ ازل سے خدا ہے اور خدا کی خدائی حضرت مسیح پر موقوف نہیں ہے۔ اور توریت اور انجیل میں جہاں کہیں کسی کو بیٹا یافرزند کہا گیا ہے وہاں یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں کہ یہ لوگ حقیقۃ خدا کے بیٹے ہیں بلکہ اس سے خدا کے مقبول اور خاص برگزیدہ بندے مراد ہیں توریت وانجیل میں ابن اللہ اطلاق انبیاء ومرسلین اور تمام عباد صالحین پر آیا ہے اس میں حضرت مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں جس سے ان کی الوہیت پر استدلال کیا جاسکے دیکھو نوید جاوید مصنفہ مولانا سید ابوالمنصور امام فن مناظرہ۔ عقیدہ تثلیث (ثالوث) ۔ حضرت عیسیٰ حق جل شانہ کے رسول برحق تھے اور توحید خالص کے منادی تھے حضرت عیسیٰ کے حواریین اور اولین اصحاب سب کے سب توحدی اور تسبیح اور تقدیس کا عقیدہ رکھتے تھے توریت اور انجیل میں اس عقیدہ کا کہیں نام ونشان بھی نہیں اور نہ کسی نبی نے اس کی تعلیم دی عقیدہ ثالوث پولوس رسول کے عہد سے دین مسیحی میں داخل ہوا اور رفتہ رفتہ الوہیب مسیح اور ابنیت مسیح اور تثلیث کلیسا کا مقبول عقیدہ بن گیا عقیدہ تثلیث کا جب ظہور اور آغازہوا تو علماء نصاری میں اس کے ردوقبول پر بڑی بحثیں ہوئیں اور مختلف فرقے ہوگئے فرقہ آریوس یہ کہتا تھا کہ خدا وحدہ لاشریک لہ ہے اور حضرت مسیح تمام کائنات سے افضل اور برتر ہیں اور فرقہ سائبین یہ کہتا تھا کہ اللہ ذات واحد ہے اور اب اور ابن اور روح القدس یہ اسی ذات کی واحد کی مختلف صورتیں ہیں جن کا مختلف حیثیتوں سے ذات واحد پر اطلاق کیا جاتا ہے بعد میں کلسا کی کونسل منعقدہ 352 اور قسطنطنیہ کی کو نس منعقدہ 381 نے ثالوث کو مسیحی عقیدہ کی بنیاد تسلیم کرلیا۔ اور یہ اعلان کردیا کہ اب اور ابن اور روح القدس یہ تین جدا جدا اور مستقل اقنوم ہیں اور یہی حق ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کا نام عقیدہ امانت رکھا جس کا متن روح المعانی اور الجواب الفسیح میں مذکور ہے اور دوسرے فرقوں کے متعلق فتوی صادر کردیا کہ جو تثلیث کا عقیدہ نہ رکھے وہ ملحد اور بےدین ہے اور عقیدہ توحید کو بدعت قرار دیا اب عام طور پر نصاری کا یہی عقیدہ ہے کہ خدا تین اقنوم ہیں باپ، بیٹا اور روح القدس اور ان ہی تین اقانیم کے مجموعی حقیقت کا نام خدا ہے اور اس توحید حقیقی میں تثلیث مضمر ہے اور اس کی تفصیل اس طرح کرتے ہیں کہ خدا تین اقنوم ہیں اوراقنوم اول باپ ہے جس سے دوسرا قنوم بیٹا پیدا ہوا اور دوسرے اقنوم سے تیسرا اقنوم پیدا ہو رہا یہ امر کہ اقنوم اول سے اقنوم ثانی اوراقنوم ثانی سے اقنوم ثالث کس طرح پیدا ہوا اور توحید کس طرح تثلیث بن جاتی ہے اور تثلیث کس طرح توحید ہوجاتی ہے اس کی تشریح توضیح وتلویح میں نصاری کے عجیب و غریب مباحث ہیں جو ان کی عقل وادراک سے بھی خارج ہیں عجیب عجیب بولیاں بولتے ہیں بعض یہ کہتے ہیں کہ دوسرا اقنوم پہلے اقنوم کی طرح ازلی نہیں البتہ اس عالم ناسوت سے غیر معلوم مدت پہلے اقنوم اول سے پیدا ہوا ہے جس کا درجہ باپ کے درجہ سے کم اور اس کے بعد ہے۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ خدا کے دو ہی اقنوم ہیں باپ اور بیٹا اور روح القدس مخلوق خداوندی منجملہ فرشتوں کے ایک فرتہ ہے جس کا مرتبہ تمام فرشتوں سے بلند ہے اور بعض فرقے یہ کہتے ہیں کہ خدا کا تیسرا اقنوم مریم (علیہا السلام) ہیں یہ فرقہ روح القدس کو اقنوم ثالث نہیں مانتا بلکہ بجائے روح القدس کے حضرت مریم کو اقنوم ثالث مانتا ہے نصاری کے بہت سے فرقے روح القدس کو خدا نہیں مانتے اور نصاری کے بعض یہ کہتے ہیں کہ اب اور ابن اور روح القدس یہ تین تین علیحدہ علیحدہ اقنوم نہیں بلکہ ذات واحد کی تین بنیادی صفات علم و حکمت اور قدرت اور حفظ وضبط کی طرف اشارہ ہے نصآری کے اکثر فرقے ذات خداوندی میں توحید اور تثلیث کو حقیقی مانتے ہیں اوراقانیم ثلاثہ یعنی اقنوم اب، اور قنوم ابن اوراقنوم روح القدس میں امتیاز اور فرق حقیقی مانتے ہیں چناچہ مفتاح الاسرار کی فصل اول باب دوم کے آخر میں نسخہ مطبوعہ 1850 عیسوی میں ہے ہرچند خدا کی ذات میں باپ اور بیٹے اور روح القدس کے درمیان حقیقی امتیاز ہے پھر ذات کی وحدانیت زائل نہیں ہوتی اور تثلیث کی تعلیم سے ذات کو نقصان اور قصور نہیں پہنچتا بلکہ حقیقت میں صرف ایک خدائے واحد حقیقی ہے۔ اور تیرھویں صدی عیسوی کے متعدد فرقوں نے یہ صاف طور پر کہہ دیا کہ عقیدہ تثلیث عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے اور ناقابل تسلیم ہے مگر قومی عصبیت نے ان کو اسلامی عقیدہ قبول کرنے سے باز رکھا۔ اہل اسلام کا مسیحین کے ساتھ نزاع اس صورت میں کہ جب تین اقنوم خارج میں حقیقۃ علیحدہ علیحدہ مانیں اور تینوں کو واجب الوجود مانیں اور ان کے درمیان امتیاز حقیقی جانیں اور اگر امتیاز حقیقی کے قائل نہ ہوں یا توحید کو مجازی یا توحید اور تثلیث دونوں کو مجازی کہیں اوراقانیم سے محض صفات مراد لیں اور علیحدہ علیحدہ اور جدا جدا تین مسقتل ذاتیں نہ مانیں تو پھر نصاری کے ساتھ اہل اسلام کا یہ نزاع نہ ہوگا کوئی اور نزاع ہوگا مگر عام طور پر نصاری اقانیم ثلاثہ کو محض صفات الٰہیہ نہیں مانتے بلکہ تین شخصیتیں باعتبار وجود اور شخص کے علیحدہ علیحدہ جدا اور ممتاز مانتے ہیں اور صفات کا وجود موصوف سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ ابطال تثلیث۔ نصاری کا یہ عقیدہ کہ تین ایک ہیں اور ایک تین ہیں سراسر خلاف عقل ہے فرقہ یونی ٹیرین جو عیسائی فرقوں میں شمار کیا جاتا ہے اب اس کے بھی لاکھوں آدمی یورپ میں موجود ہیں وہ تثلیث کا منکر ہے اور بہت سے علماء نصاری وفرنگ نے اس عقیدہ کا انکار کیا ہے توریت اور انجیل میں کسی جگہ بھی لفظ تثلیث موجود نہیں اور نہ حضڑت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اور نہ کسی حواری نے کسی عیسائی کو یہ تعلیم دی کہ تم تثلیث کا عقیدہ رکھو بغیر اس کے بغیر اس کے نجات ممکن نہیں تفصیل کے لیے دیکھو نوید جاوید کلیسا ششم سکرمنٹ، از صفحہ 344 تا 355 مصنفہ امام فن مناظرہ مولانا سید ابوالمنصور (رح) تعالی۔ (1) ۔ اور بلاشبہ یہ عقیدہ صریح البطلان ہے اور بداھۃ خلاف عقل ہے توحید کا تثلیث کے ساتھ جمع ہونا ایسا ہی محال ہے جیسا کہ توحید کا تربیع اور تخ میں اور تسدیس کے ساتھ جمع ہونا محال ہے اور اس کی کیا وجہ ہے کہ وحدت حقیقی تین کے ساتھ تو جمع ہوسکے اور چار یا پانچ یاچھ کے ساتھ جمع نہ ہوسکے وحدت حقیقی اور کثرت حقیقی ایک دوسرے کی ضد ہیں اورا جتماع ضدین باجماع عقلا محال اور ناممکن ہے زوجیت اور فردیت اور وحدت اور کثرت ایک ذات میں جمع ہونا عقلا عالم کے نزدیک ایک بدیہی محال ہے جس سے عقل کوسوں دور بھاگتی ہے اور اس حماقت کا سننا بھی گوارا نہیں کرتی مختصر یہ کہ نصاری یہ بتلائیں کہ یہ تینوں اقانیم اپنے وجود اور تشخص میں ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز ہیں یا نہیں اگر یہ کہیں کہ تینوں کا تشخص اور وجود علیحدہ علیحدہ ہے تو پھر یہ تین اشخاص ہوئے توحید کہاں رہی ایک کہنا غلط ہو اور اگر یہ کہیں کہ تینوں کا وجود ایک ہے تو پھر تین کہنا غلط ہوا اور تثلیث ختم ہوئی۔ (2) ۔ نیز تینوں کا مجموعہ مل کر خدائے مستقل ہے یا جداگانہ ہر ایک مستقل خدا ہے پہلی صورت میں کوئی بھی خدا نہ رہا نہ حضرت مسیح اور نہ روح القدس بلکہ خدا بھی خدا نہ رہا اس لیے کہ خدا تو تین کا مجموعہ ہے جداگانہ کوئی بھی مستقل خدا نہیں اور دوسری صورت میں جب ہر ایک جدگانہ مسقتل خدا تو توحید کہاں رہی۔ (3) ۔ نیز ایک تین کا ثلث یعنی تہائی ہے اور ظاہر ہے کہ کوئی شی اپنے ثلث تہائی کا عین نہیں ہوسکتی۔ 4۔ نیز تین کل ہیں اور ایک تین کا جز ہے اور کل اور جز کا ایک ہونا عقلا محال ہے اس لیے کہ کل اور جز کیسے ایک ہوسکتے ہیں۔ 5۔ نیز جب تین ایک کا عین ہوگا تو لازم آئے گا کہ ایک اپنے نفس کا بھی ثلث ہو اور تین اپنا ثلث ہو اور کسی شی کا خود اپنا ثلث ہونا بداھۃ محال ہے۔ 6۔ نیز ایک تین کا جز ہونے کی وجہ سے مقدم اور تین بوجہ کل ہونے کے موخر ہے اور اس لیے کہ جز کل سیمقدم ہوتا ہے اور کل جز سے موخر ہوتا ہے۔ پس اگر ایک اور تین ایک ہوں تو مقدم کا عین موخر ہونا اور موخر کا عین مقدم ہونا لازم آئے گا جو بداھۃ محال ہے۔ 7۔ بلکہ شی کا خود اپنے نفس پر مقدم ہونا لازم آئے گا جو بداھۃ محال ہے۔ 8۔ نیز تمام اعداد حقیقت میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور جدا ہیں لہذا شی واحد کا حقیقۃ ایک ہونا اور تین ہونا عقلا محال ہے۔ 9۔ نیز مسیحیین کے نزدیک جب خدا تین اقنوموں کا مجموعہ ہو اور ہر اقنوم واجب الوجود ہوا تو مجموعہ اپنے وجود خارجی میں ان تین اجزاء یعنی تین اقنوموں کا محتاج ہوگا اور مجوعہ معلول ہوگا اور قانیم ثلاثہ اس کی علت ہوگے اور جو کسی علت کا محتاج ہو وہ واجب الوجود نہیں ہوسکتا اس لیے کہ معلوم علت سے موخر ہوتا ہے وہ ممکن اور حادث ہوتا ہے۔ 10۔ نیز حضرت مسیح کو جب خدا کا بیٹا کہا جاتا ہے تو باپ کو بیٹے پر ضرور تقدم زمانی ہوتا ہے اور بیٹے کو تاخر زمانی اور بیٹا اپنے وجود میں باپ کا محتاج بھی ہوتا ہے اور موخر اور محتاج خدا نہیں ہوسکتا۔ خلاصہ کلام۔ یہ کہ عقیدہ تثلیث سراسر خلاف عقل ہے نصاری کے اولین اور آخرین میں کوئی شخص ایک دلیل عقلی بھی توحید فی التثلیث اور تثلیث کے لیے نہیں پیش کرسکتا اور بلاشبہ عقیدہ تثلیث عقیدہ شرک ہے اور توحید اور تثلیث کے اجتماع کا عقیدہ رکھنا اور اجتماع نقیضین کا عقیدہ رکھنا ہے اس وجہ سے امام رازی نے لکھا ہے کہ ہم نے دنیا میں نصاری کے مذہب سے زیادہ کوئی مذہب رکیک اور عقل سے بعید نہیں دیکھا اس وجہ سے جارج سیل نے اپنے ترجمہ قرآن مطبوعہ 1836 میں عیسائیوں کو وصیت کی ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ایسے مسئلے نہ بیان کرو کہ جو خلاف عقل ہوں کلیسا میں یہ طاقت نہیں کہ وہ مسلمانوں کو اپنی طرف کھینچ لے۔ (الخ دیکھو ازالۃ الشکوک ص 26 ج 1) ۔ حکایت) ۔ کسی زمانہ میں ایک پادری صاحب نے چین کے علاقہ میں جا کر بڑی کوشش سے تین آدمیوں کو عیسائی بنایا اور طوطے کی طرح ان کو یہ مسئلہ یاد کرایا اور وہ بھی تین تین ٹکے روز یا تین تین روپیہ مہینہ کی لالچ سے مسئلہ تثلیث کو طوطے کی طرح ٹی ٹی ٹی کرتے رہے اتفاقا ایک مدت کے بعد پادری صاحب کا ایک دوست وہاں آگیا اور پھر اثنائے تذکرہ میں اس نے پوچھا کہ تم نے اتنی مدت میں کتنے شخصوں کو عیسائی بنایا پادری صاحب نے کہا عیسیٰ خداوند کے مسیح کے فضل سے تین شخص مسیحی جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور مسیح کے وفادار سپاہی اور خدمت گزار ہیں وہ سن کر ان کی ملاقات کا مشتاق ہوا پادری صاحب نے اول کو ایک کو بلایا اور اپنے دوست کو تبلانے کے لیے یہ مسئلہ اس سے پوچھا کہ اس شاگرد نے کہا کہ آپ نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ خدا تین ہیں ایک جو آسمان پر رہتا ہے دوسرا وہ جو بی بی مریم کنواری کے پیٹ میں نو مہینہ رہ کر پیدا ہوا تھا تیسرا وہ جو اس دوسرے خدا پر تیس برس کی عمر میں کبوتر کی شکل ہو کے اترا تھا پادری صاحب خفا ہوئے اور فرمانے لگے یہ نامعقول ہے دوسرے کو جو اس سے زیادہ عاقل تھا آواز دی وہ فوراحاضر ہوا اس سے پوچھا کہ اس نے کہا کہ آپ نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ خدا تین تھے ایک تو سولی پا کر مرگیا اور دو ابھی تک جیتے ہیں، پادری صاحب اس پر بھی چیں برجیبیں ہوئے اور تیسرے کو جو ان میں فرد کامل تھا بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس نے کہا جیسا آپ نے سکھایا ہے ویسا ہی مجھے خوب یاد ہے کہ تین میں ایک اور ایک میں تین اور تینوں ایک تھے اور جب ایک خدا منطوس پلاطوس کی حکومت میں سولی پا کر مرگیا تو تینوں مرگئے اور اب کوئی خدا باقی نہیں رہا پادری صاحب بہت لال سرخ ہوئے اور اس وقت تینوں کو اپنے سامنے سے نکلوا دیا۔ (منقول از ازالۃ الشکوک ص 25 ج 1، والفارق) ۔ ذکر عقیدہ امانت سراپا خیانت۔ حضرت عیسیٰ کی تعلیم توحید اور تفرید کی تھی حضرت عیسیٰ کے رفع الی السماء کے بعد عرصہ اکیاسی سال تک لوگ توحید پر قائم رہے پھر رفتہ رفتہ نصاری میں مختلف فرقے ہوگئے پھر ایک یہودی شخص جس کا نام پولوس تھا وہ فریب سے عیسائی مذہب میں داخل ہوا اور ظاہرا عیسائی بن کر اس نے عیسائی مذہب میں طرح طرح کی خرابیاں ڈالیں من جملہ ان کے یہ مسئلہ تثلیث ہے رفتہ رفتہ یہ عقیدہ نصاری میں شائع ہوگیا نصاری میں جب یہ عقیدہ تثلیث شائع ہوا تو آیوس نے جو اسکندریہ کے قسیسین میں سے تھا اس عقیدہ باطلہ کی تردید کی اور تثلیث کو دین مسیحی میں بدعت قرار دیا اور علی الاعلان حضرت مسیح کو الوہیت سے انکار کیا اور ہی تعلیم دی کہ اللہ ایک ہے اور عیسیٰ خدا کے مخلوق اور برگزیدہ پیغمبر ہیں آریوس کا یہ عقیدہ جب لوگوں میں شائع ہوا تو اہل تثلیث کو اس کی فکر دامن گیر ہوئی بالاآخر 325، میں شہر نائیس میں قسطنطین شاہ روم کے سامنے مجلس مناظر منعقدہ ہوئی آریوس نے اپنے عقیدہ تثلیث کی حمایت کی اور آریوس کی تعلیم کو باطل قرار دیا عقیدہ تثلیث جب مجلس کی اکثریت سے طے ہوگیا تو بادشاہ نے سرکاری طور پر حکم جاری کردیا کہ جو شخص تثلیث سے انکار کرے گا اس کا مال ومتاع ضبط کر لیاجائے گا اور اس شخص کو جلاوطن کیا جائے تب اکثر لوگوں نے بادشاہ کے خوف سے عقیدہ تثلیث کو قبول کیا اس وقت سے تثلیث کا سلسلہ چلا اور اس عقیدہ تثلیث پر جو متفقہ تحریر تیار کی گئی اس کا نام امانت رکھا گیا اس عقیدہ امانت کے متن کو شیخ ابوالفضل مالکی مسعودی نے منتخب التنجیل ص 56 میں ذکر کیا ہے اس عقیدہ امانت کے ابطال کے لیے ایک مستقل باب یعنی باب چہارم منعقد کیا ہے جس میں تفصیل کے ساتھ اس کی خرابیوں اور قباحتوں کو بیان کیا ہے اور علی ہذا علامہ آلوسی نے روح المعانی میں تفسیر پارہ ششم کے تحت قولہ تعالیٰ ولا تقولوا ثلاثہ، اور پھر ان کے صاحبزادے سید نعمان آلوسی نے الجواب الفیح لمافقہ عبدالمسیح میں اس کو ذکر کیا ہے اور پھر اس عقیدہ امانت سراپا خیانت کی خیانتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور علامہ قرافی مالکی نے الاجوبۃ الفاخرہ مطبوعہ برحاشیہ الفارق میں اس عقیدہ امانت کے متن کو مختصر تردید کے ساتھ ذکر کیا ہے حضرات اہل علم اصل کی مراجعت فرمائیں مگر باوجود اس کہ شاہی حکم سے عقیدہ تثلیث ملک میں شائع کیا گیا بہت سے لوگوں نے جو آریوس کے معتقد تھے انہوں نے اس عقیدہ تثلیث کو تسلیم نہیں کیا اور آریوس ہی کی تعلیم کے قائل اور معتقد رہے اور کئی فرقوں تک یہ اعتقاد جاری رہا اور فرقہ آریوسیہ کی طرح یونی ٹیرین فرقہ کے لوگ بھی تثلیث سے انکار کرتے ہیں اور الوہیت صرف اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں تاریخی حیثیت سے اگر ان اختلافات کی تفصیل درکار ہے تو نوید جاوید سکرمنٹ نمبر 3 مصنفہ مولانا سید ابوالمنصور از ص 355 تا ص 360 کی مراجعت کریں۔ متن عقیدہ امانت سراپا خیانت۔ اب ہم ناظرین کے سامنے نصاری کے عقیدہ امانت کا متن پیش کرتے ہیں جو ان کے نزدیک قانون نجات اور مدار ایمان ہے پھر ان کے اس مزعوم عقیدہ امانت کی خیانت کو ظاہر کریں گے تاکہ اس امانت کی حقیقت منکشف ہوجائے وہو ہذا۔ ترجمہ۔ ہم ایمان لاتے ہیں ایک اللہ پر جو باپ ہے اور ہر چیز کا بنانے والا اور مالک ہے اور مرئی اور غیر مرئی یعنی جو چیزیں نظر آتی ہیں اور نظر نہیں آئیں ان سب چیزوں کا وہ صانع ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں ایک پروردگار یسوع مسیح پر جو خدائے واحد کا بیٹا ہے اور ساری مخلوق میں سب سے اول باپ سے پیدا ہوا وہ مصنوع نہیں وہ خدائے برحق ہے جو خدائے برحق سے نکلا ہے اور باپ کے جوہر سے ہے وہ جس کے ہاتھوں سے تمام جہانوں نے پختگی اور استحکام پایا اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اے دنیا کے لوگو وہ ہماری ہی خلاصی اور چھٹکارے کے لیے آسمان سے اترا اور روح القدس اور مریم سے متجسد ہو کر انسان بن گیا اور روح القدس سے اس کا حمل قرار پایا اور مریم بتول کے بتول کے بطن سے پیدا ہو اور دکھ اور درد اٹھائے اور پیلا طوس کے ایام حکومت میں سولی پر لٹکا یا گیا اور پھر مر کر قبر میں دفن ہوا اور پھر تیسرے روز مردوں میں جی اٹھا جیسا کہ نوشتوں میں تھا پھر آسمان پر چڑھ گیا اور باپ کے دائیں جانب جاکر بیٹھ گیا اور وہ دوبارہ آنے کے لیے تیار ہے تاکہ مردوں اور زندوں کے درمیان فیصلہ کرے اور ہم روح القدس پر بھی ایمان لاتے ہیں جو ایک ہے اور روح حق ہے اور باپ سے نکلی ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں اس بات پر کہ ایک بپتسمہ گناہوں کی مغفرت کے لیے کافی ہے اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کا طولی کی جماعت پاک اور مقدس جماعت ہے جس نے یہ عقیدہ امانت ایجاد کیا ہے اور ہم ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی پر ایمان لاتے ہیں جو ابدالآباد تک رہے گی۔ (عقیدہ امانت کا ترجمہ ختم ہوا۔ ) کشف حقیقت از عقیدہ امانت سراپا خیانت۔ یہ وہ عقیدہ امانت ہے جس پر سوائے فرقہ آریوسیہ اور یونی ٹیرین کے نصاری کے اکثر فرقے متفق ہیں فرقہ یعقوبیہ اور ملکانیہ اور نسطوریہ ان سب کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ بغیر اس ایمان کے کوئی عبادت اور کوئی قربت بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں حالانکہ کسی انجیل میں اس اعتقاد اور ایمان کا کہیں نام ونشان نہیں اور نہ یہ حضرت مسیح سے مروی ہے اور نہ حضرت مسیح کے تلامذہ اور حواریین سے منقول ہے بلکہ چوتھی صدی عیسوی میں نصاری کی ایک خاص جماعت کی مرتب کردہ عبارت ہے جو شاہی حکم اور اقتدار سے نافذ ہوئی ہے اس کو دین اور ایمان کیسے کہا جاسکتا ہے عقیدہ وہ چیز بن سکتی ہے جو آسمانی کتابوں اور انبیاء کرام کی شریعتوں سے صریحی اور قطعی طور پر ثابت ہو علاوہ ازیں یہ عقیدہ امانت بہت سی خلاف عقل باتون پر مشتمل ہے اور متعارض اور متناقض باتوں کا ایک مجموعہ ہے جس میں بعض سے بعض کی تردید ہوتی ہے۔ 1۔ عقیدہ امانت کے شروع اور اول ہی میں اس کا صریح اعتراف ہے کہ اللہ ایک ہے اور تمام کائنات کا خالق اور مالک اور ضابط ہے جس میں حضرت مسیح اور ان کی والدہ ماجدہ مریم صدیقہ اور روح القدس بھی داخل ہیں پھر دوسری سطر میں اس کے برخلاف مسیح بن مریم کی الوہیت اور وحدانیت اور خالقیب پر ایمان لانے کا ذکر ہے ہم مسیح پر ایمان رکھتے ہیں جو تمام اشیاء کا خالق ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے واحد کے ساتھ دوسراخدا بھی موجود ہے جو پہلے خدا کافر زند ہے جو اپنے باپ سے پیدا ہوا ہے اور باپ کی طرح بیٹا بھی تمام کائنات کا خالق ہے یہ ساراکلام صریح کفر اور شرک ہے اور پہلے کلام کی ضد اور نقیض ہے گویا کہ باپ اور بیٹا ہرا یک عالم کا خالق ہے۔ (2) ۔ نیز جب حضرت عیسیٰ کو تمام عالم کا خالق مانا گیا تو ضروری ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا وجود سارے عالم پر مقدم ہو کیونکہ خالق مخلوق سے مقدم ہوتا ہے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اس لیے کہ حضرت عیسیٰ تو حضرت آدم کے ہزارہا سال بعد مریم سے پیدا ہوئے اور نصاری بتلائیں کہ موخر الوجود اپنے مقدم الوجود کے لیے کیسے خالق ہوگیا۔ 3۔ پھر نصاری یہ کہتے ہیں کہ وہ بیٹا تمام مخلوقات سے پہلے اپنے باپ سے پیدا ہوا یہ امر بھی مشاہدہ کے خلاف ہے اس لیے کہ حضرت مسیح معاذ اللہ اللہ تعالیٰ سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ پیدائش عالم کے ہزارہا سال بعد مریم بتول کے بطن سے پیدا ہوئے۔ 4۔ پھر نصاری یہ کہتے ہیں کہ وہ بیٹا باپ کے اصل جوہر سے پیدا ہوا جس کا مطلب یہ ہوا کہ باپ اور بیٹے کی حقیقت ایک ہے اور یہ بیٹا ذات وصفات میں اپنے باپ کے مشابہ اور مساوی ہے کیا یہ صریح شرک نہیں جس کے مٹانے کے لیے تمام انبیاء کرام مبعوث ہوئے۔ 5۔ نیز انجیل میں ہے کہ عیسیٰ سے قیامت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو یہ فرمایا کہ مجھے قیامت کا علم نہیں کہ کب آئے گی قیامت کے وقت کو سوائے باپ کے کوئی نہیں جانتا۔ پس اگر عیسیٰ کا اصل جوہر اور اصل حقیقت وہی ہوتی جو اللہ کی ہے تو اللہ کی طرح عیسیٰ کو بھی ضرور قیام تکاعلم ہوتا معلوم ہوا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا نہ تھے بلکہ انسان حق تھے اور انسان حق یعنی داود کے بیٹے تھے اور تمام انبیاء کرام انسان اور بشر تھے اور خدا کے برگزیدہ بنے تھے خدا نہ تھے اور نہ خدا کے ساتھ متحد تھے انبیاء کرام سے جب کبھی قیامت کے بارے دریافت کیا گیا تو سب نے یہی کہا کہ جو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ قیامت کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں۔ 6۔ نیز اس نادان کو یہ علم نہیں کہ جس انسانی لحم اور شحم اور دم اور معدہ اور امعاد سے مرکب ہے جس سے خداوندقدس پاک ہے اور منزہ ہے پس ایک ابن آدم اور ابن مریم کا اصل جوہر خداوندقدوس کے اصل جوہر کے ساتھ کیسے متحد ہوسکتا ہے۔ 7۔ نیز تمام عقلاء عالم کا اس پر اتفاق ہے کہ حادث اور قدیم کی حقیت جداجدا ہے پس خداوند کریم اور ایک شیر خوار بچہ کی حقیقت ایک کیسے ہوسکتی ہے اور جسم اور روح کی حقیقت ایک نہیں تو قدیم اور حادث کی حقیقت ایک کیسے ہوسکتی ہے۔ 8۔ نیز اگر ایک الہ حق سے دوسرا الہ حق پیدا ہوسکتا ہے تو دوسرے الہ سے تیسرا الہ اور تیسرے الہ سے چوتھے الہ کا اور چوتھے الہ سے پانچویں الہ کا پیدا ہونا بھی ممکن ہوگا بلکہ پہلے ہی خدا سے بیشمار خدا وں کا پیدا ممکن ہوگا اس لیے کہ جس انسان سے ایک بیٹے کا پیدا ہونا ممکن ہے اسی سے دس بیٹوں کا پیدا ہونا بھی بلاشبہ ممکن ہے اور خداوندقدوس کی صفات کمال تو غیرمحدود اور غیر متناہی ہونی چاہے ایک محدود بیٹے پر اس کو ختم کردینا مناسب نہیں۔ 9۔ نیز عقیدہ امانت میں یہ کہنا کہ مسیح کے ہاتھ سے ہر چیز پیدا ہوئی اس سے لازم آتا ہے کہ ان کی والدہ ماجدہ مریم صدیقہ بھی ان کی مخلوق ہوں بلکہ ان کے آباء و اجداد بھی ان کی مخلوق ہوں کیونکہ ہر چیز میں وہ بھی داخل ہیں اور مولود کو اپنی والدہ اور اپنے آباء و اجداد کا خالق کہنا دیوانہ کا کام ہے۔ 10۔ نیز نصاری یہ کہتے ہیں کہ باپ کی طرح بیٹے نے بھی تمام کائنات کو پیدا کیا گویا کہ کائنا ت کے دو خالق ہوگئے اور ایک باپ اور ایک بیٹا اگر باپ تمام کائنات کا خالق ہے تو بیٹے کے لیے کیا باقی رہا اور اگر بیٹا خالق کائنتا ہے تو باپ کے لیے کیا باقی رہا۔ 11۔ نیز عقیدہ امانت میں یہ کہنا کہ وہ خدا آسمان سے نازل ہوا اور مجسم ہو کر کنواری کے پیٹ سے پیدا ہوا تاکہ عالم کی خلاصی نجات کا سبب بنے سو یہ امر بھی سراسر غیر معقول ہے اور ذرہ برابر قابل قبول نہیں اول تو یہ کہ یہ دعوی بلادلیل ہے بلکہ اللہ اور اس کے برگزیدہ بندہ مسیح بن مریم پر صریح بہتان اور افتراء ہے اور الوہیت اور نبوت کی تحقیر وتذلیل کی ایک عجیب و غریب من گھڑت داستان ہے جس کو کوئی ادنی عقل والا شخص بھی ماننے کے لیے تیار نہیں اور اگر بفرض محال تھوڑی دیر کے لیے یہ تسلیم کرلیاجائے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول اور تجسم عالم کی خلاصی اور نجات کے لیے ہوا تھا تو علماء نصرانیت اور عقلاء مسیح تیہ بتلائیں کہ تمہارے زعم کے مطابق حضرت مسیح نے جو مصیبت اور ذلت تمہاری خلاصی اور نجات کے لیے اختیار فرمائی وہ تمہاری کسی مصیبت اور مصائب وآلام اور امراض واسقام اور موت سے نجات دلائی تو مشاہدہ ہے کہ اس کی تکذیب کرے گا کوئی فرد وبشر دنیا میں ایسا نہیں کہ جو طلب معاش میں سرگرداں اور حیران نہ ہو اور رنج وغم اور بیماری اور موت سے نجات پا گیا ہو اور گر یہ کہیں کہ نفس و شیطان کے پنچہ سے ہم کو نجات دلائی تو یہ بھی مشاہدہ کے خلاف ہے نصاری کی جس مجلس میں چاہے چلے جاؤ اور آنکھ سے دیکھ لو نفس اور شیطان نے نصاری کا کس طرح کھیل اور تماشہ بنارکھا ہے نصاری سے بڑھ کر کوئی قوم نفس و شیطان کی اسیر نہیں اور اگر یہ کہیں کہ خلاصی اور نجات سے ہماری مراد یہ ہے کہ دار دنیا میں حکام خداوندی کی بجاآوری اور پابندی سے خلاص اور آزاد ہوگئے اور نماز اور روزہ ہم پر ضروری نہیں اور فرض نہیں رہا ہم جو چاہیں کریں خدا کا ہم پر کوئی مواخذہ نہیں تو حضرت مسیح اور ان کے حواریین کے اقوال اس کی تکذیب کریں گے جو اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت کے متعلق ان سے اناجیل میں منقول ہیں اور اگر یہ کہیں کہ خلاصی اور نجات سے ہماری مراد یہ ہے کہ دارآخرت کے احکام سے خلاص ہوگئے اور نجات پاگئے یعنی دنیا میں جو چاہیں چوری کریں یا زنا اور بدکاری کریں اور شراب خوری کریں اور قص و سرود کی محفلیں کریں غرض یہ کہ جو چاہیں نفس و شیطان کے مطابق کام کریں آخرت میں ہم پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا یسوع مسیح ہمارا نجات دہندہ ہے اس نے صلیب کی تکلیف اور مصیبت جھیل کر ہم کو قیامت کے مواخذہ اور حساب اور عذاب اور عقاب سے نجات دلا دی ہے سو اگر نصاری کے نزدیک خلاصی اور نجات سے یہ معنی مراد ہیں تو یہ معنی تمام انبیاء کرام کی تعلیم اور حضرت مسیح کی تعلیم کے بالکل خلاف ہیں اور توریت اور انجیل اس کی تکذیب کرتی ہے انجیل میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن اہل یمین سے یہ کہیں گے جاؤ نعیم مقیم کی طرف اور اہل شمال کو اولا توبیخ اور سرزنش کریں گے کہ تم نے یہ کیا کیا اور یہ کیا جاؤ اس کی سزا بھگتوا اور اس عذاب کی طرف جاؤ جو تمہارے لیے پہلے سے تیار کیا گیا ہے پس اے نصاری حیاری جب تم کو اپنی دنیا میں اور آخرت کا حال معلوم ہوگیا تو خدارا یہ بتلاؤ کہ تمہارے زعم کے مطابق جس خدا نے آسمان سے اتر کر تمہاری نجات اور خلاصی کے لیے صلیبی موت کا مزہ چکھا اس نے کسی مصیبت سے تم کو نجات دلائی اور جس کا نام تم نے مخلص عالم نجات اور خلاصی بخشی اور تم کو دنیا اور آخڑت کی کن پریشانیوں سے بےفکر بنادیا اور کیا تم اس مفروضہ صلیبی موت کے ذریعہ نفس شیطان کے چنگل سے نجات پاگئے ہو۔ 12۔ پھر یہ کہ عقیدہ امانت میں یہ ذکر ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) دوبارہ آکر زندوں اور مردوں کے درمیان فیصلہ کریں گے تو عرض یہ کہ جو ذات نصاری کے نزدیک اس قدر عاجز اور لاچار اور بےبس کہ اپنے چند دشمنوں کو بھی جو اس کی مخلوق تھے ان کو بھی دفع نہ کرسکی وہ دوبارہ زندہ ہو کر سارے عالم کا کس طرح فیصلہ کرسکے گی ممکن ہے پہلی مرتبہ کی طرح دوسری مرتبہ بھی عیسیٰ (علیہ السلام) پر ان کے دشمن غالب آجائیں اور نصاری کے پاس اس کی کیا کفالت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ آمد کے پہلی مرتبہ کی طرح ذلت اور اہانت کا ماجرا پیش نہیں آسکتا۔ 13۔ نیز اس عقیدہ امانت میں یہ بھی کہا گیا کہ مسیح مریم عذراء اور روح القدس سے مجسم ہوئے تو اس سے تو نتیجہ نکلتا ہے کہ مسیح روح القدس کے بیٹے ہوں جیسا کہ وہ مریم کے بیٹے ہیں نہ کہ خدا کے بیٹے اس لیے کہ حضرت مسیح کو جب روح القدس سے تجسد اور تجسم حاصل ہوا تو وہ ابن روح القدس ہوئے نہ ابن اللہ۔ 14۔ پھر یہ کہ اس عقیدہ امانت کے اخیر میں یہ ہے کہ ہم ایمان لاتے ہیں روح القدس پر جو کہ روح حق ہے اور باپ سے نکلی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح روح القدس بھی باپ سے نکلے ہیں اور یہ بھی خدا کے بیٹے ہیں اور حضرت مسیح کے بھائی ہیں اس لیے کہ جب مسیح کی طرح روح القدس بھ باپ سے نکلے تو وہ بھی اسی باپ کے بیٹے ہوئے جس باپ کے حضرت مسیح بیٹے ہیں اور ایک باپ کے دوبیٹے آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں تو اس اعتبار سے حضڑت مسیح روح القدس کے بھائی ہوئے اور اس اعتبار سے کہ حضرت مسیح روح القدس سے متجسم اور متجسد ہوئے ہیں جیسا کہ ابھی گذرا ہے حضرت مسیح روح القدس کے بیٹے ہوئے اور ایک ہی ذآت کا ایک ہی ذات کے حق میں بیٹا اور بھائی بننا عقلا محال ہے۔ 15۔ نیز عیسائیوں کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ بیٹا باپ سے متولد ہوا اور ان دونوں سے روح القدس متولد ہوئے جس کا مطلب یہ ہوا کہ مسیح بن مریم تو خدا کے بیٹے ہیں اور روح القدس خدا کے پوتے ہیں کیونکہ بیٹے کا بیٹا پوتا ہوتا ہے۔ خلاصہ کلام۔ یہ کہ نصاری کا یہ بنیادی عقیدہ ہے جس کے بغیر ان کے نزدیک نجات ممکن نہیں ناظرین کرام نے دیکھ لیا کہ یہ عقیدہ عقیدہ امانت نہیں بلکہ درحقیقت عقیدہ خیانت ہے جو کہ ازل تاآخر جہالتوں اور حماقتوں اور متناقض باتوں کا مجموعہ ہے اور تمام انبیاء کرام کی تعلیمات وتلقیات اور حضرت مسیح اور حواریین کی تصریحات کے صریح خلاف ہے اس لیے کے ہتمام کتب سماویہ اور توریت اور زبور اور انجیل توحید کی تعلیم سے بھری پڑی ہے۔ پھر یہ عقیدہ امانت عجب گورکھ دھندہ ہے جس کا اول اور آخر متناقض اور متضاد ہے اس لیے کہ اس عقیدہ کے ابتداء میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مسیح مولود اور مخلوق ہیں اور اللہ ہی ہر نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیز کا خالق ہے جس میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والد بھی داخل ہیں پھر اس ایمان اور اقرار کے بعد چند جملوں کے بعد یہ کہہ دیا کہ ہم اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح خدا ہے اور تمام اشیاء کا خالق اور تو کیا یہ دونوں ایمان ایک دوسرے کی ضد اور نقیض نہیں تو جس عقیدہ میں اس درجہ اختلاف ہو اور تناقض ہو وہ کبھی حق نہیں ہوسکتا۔ خاتمہ کلام برمعذرت واستدعا دعائے مغرت۔ حق جل شانہ کا ارشا ہے لیحق الحق ویبطل الباطل ولو کرہ المجرمون۔ آیت۔ اس لیے کہ اس ناچیز نے اس مقام پر احقاق حق کے ساتھ ابطال باطل یعنی تردید تثلیث وغیرہ پر مفصل کلام کیا تاکہ حضرات اہل علم تتبع اور استقراء کی مشقت سے بچ جائیں اور اس ناچیز کو دعائے مغفرت سے نوازیں۔ بحمدہ تعالیٰ جو کچھ لکھا ہے وہ مسئلہ کی تحقیق اور تفصیل ہے تطویل نہیں بلکہ رد نصرانیت میں سلف اور خلف کی تحقیق کا عطر اور لب لباب ہے۔ فالحمدللہ الذی ھدانا لہذا وماکنا لنھتدی لولاان ھدانا اللہ۔ خاتمہ سورت۔ قال اللہ تعالیٰ یستفتونک۔۔۔ الی۔۔۔۔ علیم۔ ربط) اس سورت کے اول میں میراث کے احکام بیان کیے گئے اب اسی پر اس سورت کو ختم کرتے ہیں اس لے کہ میراث کے احکام سخت دشوار ہیں جن میں بڑے بڑے عقلاء کی عقلیں حیران ہیں اللہ کی ہدایت نے اور اس کے نازل کردہ نورمبین نے ان دقیق احکام کو واضح اور روشن کردیا اور اللہ کی برہان یعنی محمد رسول اللہ کی بعثت سے لوگوں پر حجت پوری ہوئی۔ شروع سورت میں بھی کلالہ کی میراث کا ذکر گزر چکا ہے اس کے بعد بعض صحابہ نے اس کے متعلق زیادہ تفصیل پوچھنی چاہی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی شروع سورت میں جو کلالہ کی میراث میں آیت گذرچ کی ہے اس لیے کہ وہ جاڑوں میں نازل ہوئی اس کو آیت الشتا کہتے ہیں اور اس آیت کو بوجہ اس کے گرمیوں میں نازل ہونے کے آیت الصیف کہتے ہیں۔ اور لفظ کلالہ کا اطلاق وارث اور مورث دونوں پر ہوتا ہے پس آیت میں کلالہ سے یا تو وہ میت مراد ہے جس کے وارچ اس کے ماں باپ اور اولاد نہ ہوں یا وہ وارث مراد ہے جو کہ میت کے نہ ماں باپ میں سے ہو اور نہ اسکی اولاد میں سے ہو۔ صحیین میں جابر بن عبداللہ انصآری سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ بیمارا ہوا تو رسول اللہ اور ابوبکر میری عیادت کو آئے اس وقت میں اپنے ہوش میں نہ تھا آپ نے وضو کیا اور وضو کا بچا ہوا پانی مجھ پر چھڑ کا جس سے مجھ کو ہوش آگیا تو دیکھا کہ رسول اللہ تشریف فرما ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ میں کلالہ ہوں میری میراث کیسے تقسیم ہوگی اس پر یہ آیت نازل ہوئی کلالہ کی میراث کے بارے میں لوگ آپ سے فتوی پوچھتے ہیں یعنی جس شخص کے اصول و فروع ماں باپ اور اولاد نہ ہوں اس کی میراث کا کیا حکم ہے آپ جواب دیجئے کہ اللہ تم کو کلالہ کے بارے میں یہ فتوی دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کے کوئی اولاد نہ ہو نہ بیٹا نہ بیٹی اور نہ پوتا اور نہ پوتی اور علی ہذا ماں باپ بھی نہ ہوں اور اس کے ایک عینی یا علاتی بہن ہو تو اس بہن کو اس کے ترکہ میں سے نصف حصہ ملے گا اور اس آیت میں بہن سے سگی یا علاتی بہن مراد ہے کیونکہ اخیافی بہن کا حکم شروع سورت میں گذر چکا ہے اور اگر وہ شخص جس اوپر ذکر ہوا ہے وہ تو زندہ ہو اور اس کی بہن مذکورہ مرجائے تو یہ بھائی اپنی بہن کے کل ترکہ کا وارث ہوگا بشرطیکہ اس بہن کے کوئی اولاد نہ ہو نہ والدین ہوں یعنی اگر کوئی عورت مرجائے اور اس کے اولاد نہ ہو اور نہ والدین ہوں اور صرف ایک سگا بھائی ہو یا ایک علاتی بھائی چھوڑے تو وہ بھائی اپنی اس بہن کے کل مال کا وارث ہوگا لیکن اخیافی بھائی کا یہ حکم نہیں اس کا صرف چھٹا حصہ ملے گا جیسا کہ شروع سورت میں گذر چکا یہ تو ایک بہن کا بیان تھا اب اگر شخص مذکورہ مرجائے اور ویسی ہی اس کی دو بہنیں یا زیادہ ہوں تو ان کا حصہ اس مال کادوتہائی اور دو سے زیادہ بہنوں کا بھی یہی حکم ہے اور مطلب ہہ کہ اگر کسی کے باپ اور لڑکا نہ ہو اور وہ دو یا دو سے زیادہ حقیقی یا علاتی بہنیں چھورے تو ان سب کا حصہ میت کے ترکہ میں سے دو تہارئی ہے اور اگر ایسا میت جس کے نہ اولاد ہے اور نہ والدین خواہ وہ میت مذکر ہو یا مونث وہ مرنے کے بعد چند وارث چھوڑے جو ملے جلے مرد و عورت ہوں یعنی بھائی اور بہنیں ہوں تو ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے بشرطیکہ وہ سب عینی یا سب علاتی ہوں اور اگر عینی یا علاتی مخلوط ہیں تو ان کا حکم دوسرا ہے جو کتب فرائض میں مذکور ہے اب اللہ ان احکام کی حکمت بیان کرتا ہے اللہ تمہارے لے ان احکام اور فرائض کو اس لیے بیان کرتا ہے کہ لاعلمی کی بناء پر تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور کسی کو حق سے کم یا زائد نہ دے دو اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے تم کو چاہے کہ اس کے حکم کے پابند رہو اور اپنی ناقص رائے سے اس میں دخل نہ دو کیونکہ تمہیں خود اپنی ہی مصلحتوں کا علم نہیں دنیا کی مصلحتوں کو کیا جانو۔ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا کہ اللہ نے فرائض کے متعلق شروع سوہ نساء میں جو آیتیں نازل فرمائیں ان میں سے پہلی آیت اولاد او ماں باپ کی میراث کے بارے میں ۃ ے اور دوسری آیت شوہر اور بیوی اور اخیافی بھائی بہنوں کی میراث کے بارے میں ۃ ے اور جس آیت پر اللہ نے سورة نساء کو ختم فرمایا وہ حقیقی اور علاتی بہنوں بھائی کی میراث کے بارے میں ۃ ے اور خاتمہ سورة انفال کی آیت ذوی الارحام کے باہ میں ہے (تفسیر کبیر ص 360 ج 3) ۔ اس سورت کا آغاز اللہ کی کمال قدرت کے بیان سے ہوا اور اختتام کمال علم کے بیان پور ہوا اور کمال قدرت اور کمال علم یہ سے اللہ کی ربوبیت اور الوہیت اور جلال اور عزت ثابت ہوتی ہے پس بندوں کا فرض ہے کہ اس علیم وقدیر کے احکام کی بےچون وچرا تعمیل کریں اور دل وجان سے اس کے اوامر اور نواہی کے پابند رہیں (تفسیر کبیر) ۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم اتم واحکم۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ آج بوقت چاشت 23 رمضان المبارک دو شنبہ 1382 ھ جامعہ اشرفیہ لاہور میں سورة نساء کی تفسیر اختتام کو پہنچی انشاء اللہ تعالیٰ اب اس کے بعد سورة مائدہ کی تفسیر آتی ہے اور اللہ سے درخواست اور دعا ہے کہ اپنے فضل اور رحمت سے اس تفسیر کو اس فقیر کے ہاتھ سے مکمل فرمادے آمین، وماتوفیقی الابااللہ علیہ توکلت والیہ انیب ولاحول ولاقوۃ الا باللہ۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔ وآخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا مولانا محمد وعلی آلہ و اصحابہ وازواجہ وذریاتہ اجمعین وعلینا معھم یا ارحم الراحمین
Top