Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 4
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ١ؕ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ١ۙ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ١٘ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں مَاذَآ : کیا اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَهُمْ : ان کے لیے قُلْ : کہ دیں اُحِلَّ : حلال کی گئیں لَكُمُ : تمہارے لیے الطَّيِّبٰتُ : پاک چیزیں وَمَا : اور جو عَلَّمْتُمْ : تم سدھاؤ مِّنَ : سے الْجَوَارِحِ : شکاری جانور مُكَلِّبِيْنَ : شکار پر دوڑائے ہوئے تُعَلِّمُوْنَهُنَّ : تم انہیں سکھاتے ہو مِمَّا : اس سے جو عَلَّمَكُمُ : تمہیں سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِمَّآ : اس سے جو اَمْسَكْنَ : وہ پکڑ رکھیں عَلَيْكُمْ : تمہارے لیے وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو (لو) اسْمَ : نام اللّٰهِ : اللہ عَلَيْهِ : اس پر وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَرِيْعُ : جلد لینے والا الْحِسَابِ : حساب
پوچھتے ہیں یہ لوگ آپ سے (اے پیغمبر ! ) کہ کیا حلال ہے ان کے لئے ؟ تو آپ (انہیں) بتادیں کہ حلال کردی گئیں تمہارے لئے سب پاکیزہ چیزیں، اور ان شکاری جانوروں کے شکار بھی جن کو تم نے سکھایا (سدھایا) ہو، ان طریقوں سے جو تم کو سکھائے ہیں اللہ نے، بشرطیکہ ان کو تم نے خود چھوڑا ہو، پس کھاؤ تم اس (شکار) میں سے، جو انہوں نے پکڑا ہو تمہارے لئے، اور اس پر نام لیا کرو اللہ کا، اور (ہر حال میں) ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے، بیشک اللہ بڑا ہی جلد حساب لینے والا ہے۔
18 حِلّتِ شکار کے بارے میں سوال کا جواب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " پوچھتے ہیں یہ لوگ آپ سے کہ کیا حلال ہے ان کے لیے "۔ یعنی کتے اور باز وغیرہ کے ذریعے کئے گئے شکار میں سے کیا حلال ہے ؟۔ جیسا کہ روایات میں وارد ہے کہ حضرت عدی بن حاتم اور زید بن مہلہل وغیرہ بعض حضرات نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ ہم شکار کرنے والے لوگ ہیں۔ کتوں اور باز وغیرہ کے ذریعے شکار کرتے ہیں تو ان میں سے کس جانور کا شکار ہمارے لئے حلال ہے ؟ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (ابن کثیر، ابن جریر، محاسن التاویل، خازن، معارف وغیرہ) ۔ سو یہ سوال اگرچہ اپنے الفاظ اور قرآن حکیم کے اپنے معروف اسلوب کے مطابق عام ہے لیکن اس بارے واردشدہ روایات اور اسی سوال کے جواب سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ سوال خاص طور پر شکار کے بارے میں ہے کہ اگر شکاری جانور کا شکار ذبح سے پہلے ہی ہلاک ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ بہرکیف شکار چونکہ انسان کی ایک اہم ضرورت ہے اور ایسی اہم کہ بعض لوگوں کا گزارہ ہی شکار پر ہوتا تھا اور ہوتا ہے۔ اس لئے سدھائے اور سکھائے ہوئے جانور کے شکار کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ حلال ہے کہ نہیں۔ تو اس کے جواب میں اس بارے یہ ہدایات اور تعلیمات ارشاد فرمائی گئیں جن میں اس بارے بھرپور ہدایت و راہنمائی ہے۔ اور واضح فرمایا دیا گیا کہ سکھائے ہوئے شکاری جانوروں کا کیا ہوا شکار کھانا جائز ہے ۔ والحمد للہ - 19 شکاری جانور اور ان کے شکار : یعنی مضاف مخدوف ہے۔ اصل میں ہے " وَصَیْدَ مَا عَلَّمْتُمُوْہُ "۔ (صفوۃ، محاسن، جواہر وغیرہ) ۔ " جوارح " جمع ہے " جارحۃ " کی۔ جو کہ مشتق و ماخوذ ہے " جرح " سے۔ جسکے اصل معنیٰ زخمی کرنے کمانے اور بنانے کے آتے ہیں۔ اسی لیے اعضاء کو " جوارح " کہا جاتا ہے۔ اور ہتھیاروں کو بھی اسی لیے " جوارح " کہا جاتا ہے۔ اور اسی بنا پر شکاری جانوروں کو بھی " جوارح " کہا جاتا ہے خواہ وہ درندوں میں سے ہوں جیسے کتے، شیر، چیتے وغیرہ۔ یا پرندوں میں سے ہوں جیسے باز اور شکرے وغیرہ۔ کیونکہ یہ سب چیزیں کمائی کا ذریعہ ہیں۔ سو ایسے سکھائے سدھائے ہوئے جانوروں میں سے جس کو اپنے ارادئہ و اختیار سے اور اللہ کا نام لے کر شکار کے لئے چھوڑا جائے اور وہ شکار کر کے لائے اور وہ ذبح کرنے سے پہلے مرجائے تو اس کا کھانا جائز ہے کہ ایسے میں وہ سکھایا سدھایا ہوا جانور چھری چاقو کی طرح کا ایک آلہ ذبح ہوجائیگا۔ اس لیے اس کے ذریعے کیا گیا شکار حلال اور جائز ہے۔ 20 شکاری جانوروں کے شکار کی حلت کا بیان : یعنی تم لوگوں نے ان کو سکھایا ہو ان طریقوں کے مطابق جو اللہ نے تم لوگوں کو سکھلائے اپنے فضل و کرم اور لطف و عنایت سے۔ خواہ یہ سکھلانا القاء والہام کے ذریعے ہو یا عقل و فکر کے واسطے سے۔ جس کی دولت سے اس واہب مطلق نے تم لوگوں کو ازخود نوازا ہے۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ یہ شرط بہرحال ملحوظ رہے کہ اس کو سکھایا پڑھایا تم لوگوں نے ہو۔ جیسا کہ ۔ { تُعَلِّمُوْنَہَنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ } ۔ سے واضح ہوتا ہے۔ اور یہ اس لیے کہ ہر تربیت میں اس کے مربی کی طبیعت، اس کے ذوق اور اس کے مقصد تربیت کا اثر پایا جاتا ہے۔ اور یہ تربیت کا ایک طبعی تقاضا ہے۔ اس بنا پر ایک مسلمان کی تربیت و ٹریننگ یافتہ کتے کی حیثیت ایک غیرمسلم کے سکھائے ہوئے کتے سے الگ ہوگی۔ اور شکاری جانور چونکہ اپنے مربی اور مالک کے آلہ اور جارحہ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے مسلمان کے سدھائے اور سکھائے ہوئے جانور کا شکار ایسے ہی ہوجائیگا جیسا کہ اس نے اپنے قصد و ارادے سے اپنی کسی چھری یا چاقو سے اس کو خود ذبح کیا ہو۔ سو اس سے دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کی لطافتوں اور نزاکتوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ مسلمان کس قدر پاکیزہ انسان ہوتا ہے۔ اور ربِّ ذو الجلال اس کو کس درجہ پاکیزہ انسان دیکھنا چاہتا ہے۔ اور ایسے ہی پاکیزہ لوگ اس دنیا میں حیات طیبہ کی نعمت سے سرفراز ہوں گے اور آخرت میں جنت کی سدا بہار نعمتوں سے مالا مال ہوں گے ۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 21 شکاری جانور کے شکار کی حلت کیلئے ایک شرط کا بیان : { مُکِلّبِیْن } بنا ہے " تَکْلِیْب " سے۔ جو کہ اصل میں ماخوذ ہے " کلب " سے۔ جس کے معنیٰ کتے کے بھی آتے ہیں اور مطلق درندے کے بھی۔ اور " تَکْلِیْب " کے معنیٰ ہوں گے کتے وغیرہ شکاری جانوروں کو سکھانا سدھانا۔ یا تو تغلیب کی بنا پر یا " کَلْب " کو مطلق درندے کے معنیٰ میں لینے کی اساس پر۔ جس کے اصل اور لغوی معنیٰ چیرنے پھاڑنے کے آتے ہیں۔ (صفوۃ البیان وغیرہ) ۔ پھر " تَکْلِیْب " کے لفظ کو توسع کے طور پر ارسال یعنی چھوڑنے اور بھیجنے کے معنیٰ میں استعمال کیا جانے لگا۔ جیسا کہ جلالین وغیرہ میں موجود ہے۔ اور قرطبی سے بھی منقول ہے۔ اسی بنا پر شکاری جانور کے مارے ہوئے شکار کی حلت کی شروط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کو اس کا مالک اپنے ارادئہ و اختیار سے شکار کرنے کے لئے چھوڑے۔ (معارف القرآن للدیوبندی وللکاندھلوی، محاسن التاویل للقاسمی وغیرہ) ۔ کیونکہ اس صورت میں اس کتے وغیرہ شکاری جانور کی حیثیت اس آلے کی سی ہوجائے گی جسکے ذریعے کسی جانور کو ذبح کیا جاتا ہے۔ جیسے چھری چاقو وغیرہ۔ بہرکیف اس ارشاد سے شکاری جانور کے شکار کی حلت کے لئے ایک اہم شرط کو بیان فرما دیا گیا ہے کہ شکاری جانور کا مالک اس کو خود شکار کے لیے چھوڑے ورنہ حلال نہیں ہوگا۔
Top