Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ١ؕۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١۫ۚ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے كِتَابِ : کتاب رَبِّكَ : آپ کا رب لَا مُبَدِّلَ : نہیں کوئی بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کی باتوں کو وَ : اور لَنْ تَجِدَ : تم ہرگز نہ پاؤگے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مُلْتَحَدًا : کوئی پناہ گاہ
اور آپ پڑھ دیا کیجیے جو کچھ وحی آپ پر آپ کے پروردگار کی کتاب کے ذریعہ سے آئی ہے۔ کوئی بدل اس کی باتوں کا نہیں ہوسکتا اور نہ آپ اس کے سوا کوئی پناہ ہی پائیں گے،42۔
42۔ (اگر بفرض محال مخالفین کی آپ نے ایسی دلجوئی کرنا چاہی کہ احکام الہی ہی ترک ہوگئے) حاصل یہ کہ رؤسا کفار کی طرف سے آپ پورا استغناء برتئے۔ (آیت) ” واتل۔۔ ربک “۔ یعنی وحی الہی کی تبلیغ تو آپ پر فرض ہے لیکن اس سے آگے بڑھ کر اسی فکر اور وہم میں نہ پڑیے کہ مخالفین کی دلجوئی اگر نہ کی گئی تو دین کی اشاعت و ترقی کیونکر ہوگی، امام رازی (رح) نے یہ معنی قرار دیئے ہیں کہ آپ وحی کی تعلیم اور اس پر عمل میں لگے رہئے اور منکروں معاندوں کے طنز وتشنیع کی طرف التفات ہی نہ کیجئے جعل الاصل فی ھذا الباب شیئا واحدا وھو ان یواظب علی تلاوۃ الکتاب الذی اوحاہ اللہ الیہ والعمل بہ وان لا یلتف الی اقتراح المتقرحین وتعنت المتعنتین (کبیر) (آیت) ” لا مبدل لکلمتہ “۔ اور اسی لیے کسی مخالف معاند کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ اللہ نے جو وعدے کر رکھے ہیں انہیں وہ پورے ہونے سے روک دے، کلمات کے تحت میں اللہ کے وعدے شامل ہیں۔ (آیت) ” ملتحدا “۔ کے معنی جائے پناہ کے ہیں، اتفقوا علی ان الملتحد ھو الملجا (کبیر)
Top