Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 68
وَ كَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا
وَكَيْفَ : اور کیسے تَصْبِرُ : تو صبر کرے گا عَلٰي : اس پر مَا : جو لَمْ تُحِطْ بِهٖ : تونے احاطہ نہیں کیا اس کا خُبْرًا : واقفیت سے
اور جس بات کی تمہیں خبر ہی نہیں اس پر صبر کر بھی کیوں کرسکتے ہو
وکیف تصبر علی ما لم تحط بہ خبرا۔ اور جس بات کا آپ کو پورا علم نہ ہو اس پر آپ صبر کیسے کرسکتے ہیں۔ خبراً کا معنی ہے علم ‘ اطلاع ‘ امتیاز۔ خضر کو معلوم تھا کہ ایسے واقعات سامنے آئیں گے جو (بظاہر) ممنوع اور برے ہوں گے اور انبیاء امور ممنوعہ پر اس وقت تک خاموش نہیں رہتے جب تک ان کے جواز کی کوئی وجہ ان پر ظاہر نہ ہوجائے۔ میں کہتا ہوں وہ انبیاء اور رسل جن کو اصلاح عامہ کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ ان کی شریعتوں کے احکام ایسے اصول اور ضوابط پر مبنی ہوتے ہیں جن کی اصلاحات کا تعلق عوام سے ہوتا ہے اس لئے ان کی حکمت و مصلحت عوام کے ذہنوں پر منکشف ہوجاتی ہے اور ہونا چاہئے بھی لیکن جو انبیاء کسی امت کی اصلاح کے لئے مبعوث نہیں ہوتے ان کے پاس وحی کے ذریعہ سے آنے والے احکام کا مقصد صرف انبیاء کے نفوس کی اصلاح یا اللہ کے ساتھ انبیاء کے معاملات کی براہ راست درستی ہوتا ہے۔ موسیٰ ( علیہ السلام) (نبی دعوت تھے ان) کے انکار اور خضر کے فعل پر اعتراض کی وجہ یہی تھی کہ خضر کا عمل شریعت موسوی کے خلاف تھا دونوں کا مسلک جدا جدا تھا اتحاد مسلک اور ترک اعتراض استفادہ کے لئے ضروری ہے۔ موسیٰ کو اسی لئے خضر بھی سمجھ گئے کہ ان سے برداشت نہ ہو سکے گی یہ خاموش نہیں رہیں گے کیونکہ میری مصاحبت ان کو سودمند نہ ہوگی۔ اسی لئے صوفیاء کا قول ہے کہ اگر مرید کو یقین ہو کہ پیر عارف کامل ہے تو اس کے کسی فعل پر اعتراض نہ کرے خواہ اس کا فعل بظاہر شریعت کے خلاف ہو اور اگر اختلاف مسلک کی وجہ سے مرید اعتراض کئے بغیر نہیں رہ سکتا تو پیر کی صحبت ترک کر دے (یعنی مرید پر اگر ظاہر شریعت کا غلبہ ہو اور خلاف شرع بات دیکھ کر وہ روکنے ٹوکنے سے باز نہ رہ سکتا ہو تو پیر کو کامل العرفان سمجھنے کے باوجود اس کو پیر کی صحبت سے ہٹ جانا چاہئے۔ مترجم) ایک شبہ شریعت محمدیہ عام ہے قیامت تک اس کے احکام میں کوئی تبدیلی و تنسیخ ممکن نہیں (نہ کوئی دوسرا نبی آئے گا کہ براہ راست اس کا تعلق اللہ سے ہو اور راست تعلق کی وجہ سے وہ اسلامی شریعت کے خلاف کرسکے۔ پھر پیر کو شریعت کے خلاف کرتے دیکھ کر کامل العرفان سمجھنا یا کسی کامل عارف کا شریعت کے خلاف کرنا کیسے ممکن ہے اولیاء و عرفاء کو انبیاء پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے انبیاء ( علیہ السلام) براہ راست مامور ہوتے ہیں اور اولیاء کا شرعی تعلق اللہ سے براہ راست نہیں ہوتا۔ مترجم) جواب بیشک منصوص ‘ محکم احکام کی خلاف ورزی کرنا اور خلاف ورزی کے ثبوت میں اپنے ذاتی الہام کو پیش کرنا جائز نہیں ‘ خضر نے لڑکے کو قتل کردیا ان کے لئے جائز تھا۔ لیکن شریعت محمدیہ کو ماننے والے اولیاء امت ایسا نہیں کرسکتے الہام کو بہانہ بنا کر کسی کو بےقصور قتل نہیں کرسکتے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس بےقصور کو اس لئے مار ڈال تاکہ آئندہ اس کے والدین اس کی محبت کی وجہ سے تباہ نہ ہو سکیں۔ لیکن اختلافی مسائل میں مثبت ‘ منفی ہر پہلو کی ایک وجہ ہوتی ہے اگر اللہ کا کوئی ولی اور عارف کسی ایک قول کو اختیار کرے (جو جمہور کے مسلک کے خلاف ہو) تو اس کو حکم شریعت کے خلاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جہری ذکر اور سماع و غناء کے مسائل اسی طرح کے ہیں ‘ (مجوزین کے پاس بھی کوئی علت جواز ہے) اگر اللہ کا کوئی عارف سماع یا جہری ذکر کا شغل کرتا ہے تو نکتہ چینی نہ کرنی چاہئے۔ بعض چیزیں بظاہر ممنوع نظر آتی ہیں لیکن واقع میں ایسی نہیں ہوتیں ‘ ایک شخص گلاس میں شراب نما شربت پیتا ہو اور لوگوں کو دکھاتا ہو کہ یہ شراب ہے اور اس کی غرض صرف یہ ہو کہ لوگوں کا ہجوم بدگمان ہو کر اس کے پاس سے چھٹ جائے تاکہ اس کے ذکر و فکر میں خلل نہ پڑے تو اس میں کیا خرابی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ باوجود ولی کامل اور عارف ہونے کے کسی صغیرہ گناہ کا اس سے صدور ہوجائے اور وہ اس کے گناہ ہونے کا اقرار بھی کر رہاہو۔ عصمت تو انبیاء کے ساتھ خاص ہے۔ پھر بدگمانی اور نکتہ چینی کی کیا وجہ۔ مرید پر لازم ہے کہ اگر اس کے شیخ سے کوئی اس قسم کی کوئی حرکت صادر ہو رہی ہے تو خود اس کا مرتکب نہ ہو لیکن شیخ کی تردید بھی نہ کرے اور اس کے عارف کامل ہونے میں شک نہ کرے۔ اولیاء اللہ (جیسے شیخ ابن عربی ‘ ابن سبعین ‘ ابن فارض وغیرہ) کے بعض مقالات مشاہدہ اور کشف پر مبنی ہیں ( اور شریعت کے خلاف نظر آتے ہیں) مناسب ہے کہ ان کی کوئی صحیح تاویل کی جائے اور شریعت کے موافق بنانے کی کوشش کی جائے اور بدگمانی کو راہ نہ دی جائے اللہ نے فرمایا ہے لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا اگر صحیح تاویل ممکن ہی نہ ہو تو ان مقالات کو حالت سکر پر محمول کیا جائے ‘ فقہاء کا فتویٰ ہے کہ مباح چیز سے اگر سکر پیدا ہوجائے اور اس سکر کی حالت میں طلاق دے دے تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ تو اولیاء اللہ جو اللہ کی محبت میں ڈوبے رہتے ہیں ان کے اس غلبۂ حال کے مقالات کیسے قابل گرفت ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والے ان کے مقالات کا مرادی مطلب ہی نہ سمجھے ہوں ان کی اصلی مراد کچھ اور ہو اور سننے پڑھنے والے کچھ اور سمجھ جائیں۔ بات یہ ہے کہ تمام عبادات محسوس معانی یا محسوس معانی سے استنباط کئے ہوئے عقلی معانی کے بیان پر موقوف ہیں انہی محسوس یا مستنبط از محسوس معانی کے اظہار پر تمام عبادات کا انحصار ہے لیکن جب ذات وصفات الٰہیہ کی ایسی (جن کی نہ کوئی محسوس نظیر ہو نہ شبیہ) کا کسی عارف کے دل پر تو پڑ رہا ہو اور وہ ان کو بیان کرنا چاہے لیکن غیبی سادہ غیر محسوس حقائق کے اظہار کے لئے کسی زبان میں الفاظ وضع ہی نہیں کئے گئے ہیں پھر کس طرح سوائے استعارہ مجاز اور ناقص تشبیہ کے واردات قلب بیان کرے۔ ایسی تعبیر کو سن کر سننے والے کے لئے کسی طرح جائز نہیں کہ وہ اس تعبیر کا ظاہری معنی مراد لے کر عقائد اہل سنت کے خلاف قرار دے دے مناسب یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے کلام میں متشابہات کا جس طرح استعمال کیا گیا ہے (جن کی حقیقت ناقابل فہم و افہام ہے) اسی طرح صفات و ذات کی جلوہ ریزیوں کا الفاظ میں اظہار بھی ظاہری الفاظ کی تعبیر میں بطور استعارہ و مجاز کیا جاتا ہے (حقیقی وضعی معنی مراد نہیں ہوتے) اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی اور یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ (رحمن عرش پر ٹھیک ٹھیک مقیم ہوگیا۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے) دونوں آیات قرآن کی ہیں جو ان کو آیات قرآن نہ کہے وہ کافر ہے (لیکن ان کے ظاہری الفاظ سے تو اللہ کا جسم ہونا ثابت ہوتا ہے) اور اللہ کے جسم ہونے کا عقیدہ رکھنا قریب قریب کفر کے ہے اسی طرح بعض اولیاء اللہ کا کلام بھی اگر بظاہر شرع کے خلاف ہو تو ظاہری معنی مراد نہ لئے جائیں اور ان کی تردید بھی نہ کی جائے۔ حضرت موسیٰ کو اپنے صابر رہنے کا چونکہ قطعی اعتماد نہ تھا اس لئے اللہ کی مشیت کے ساتھ اپنے صابر رہنے کو مشروط کر کے جواب دیا۔
Top