Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 217
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ١ؕ قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌ١ؕ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۗ وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ١ؕ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا١ؕ وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے سوال کرتے ہیں عَنِ : سے الشَّهْرِ الْحَرَامِ : مہینہ حرمت والا قِتَالٍ : جنگ فِيْهِ : اس میں قُلْ : آپ کہ دیں قِتَالٌ : جنگ فِيْهِ : اس میں كَبِيْرٌ : بڑا وَصَدٌّ : اور روکنا عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَكُفْرٌ : اور نہ ماننا بِهٖ : اس کا وَ : اور الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَ اِخْرَاجُ : اور نکال دینا اَھْلِهٖ : اس کے لوگ مِنْهُ : اس سے اَكْبَرُ : بہت بڑا عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ وَالْفِتْنَةُ : اور فتنہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنَ : سے الْقَتْلِ : قتل وَلَا يَزَالُوْنَ : اور وہ ہمیشہ رہیں گے يُقَاتِلُوْنَكُمْ : وہ تم سے لڑیں گے حَتّٰى : یہانتک کہ يَرُدُّوْكُمْ : تمہیں پھیر دیں عَنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین اِنِ : اگر اسْتَطَاعُوْا : وہ کرسکیں وَمَنْ : اور جو يَّرْتَدِدْ : پھر جائے مِنْكُمْ : تم میں سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَيَمُتْ : پھر مرجائے وَھُوَ : اور وہ كَافِرٌ : کافر فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَ : اور الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
(اے محمدﷺ) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ) ہےاور خدا کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (بند کرنا) ۔ اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں) خدا کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے۔ اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں۔ اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ ( اے محمد ﷺ ! مسلمان) آپ ﷺ سے ماہ حرام میں جنگ کرنے کی بابت پوچھتے ہیں) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے اور طبرانی نے کبیر میں اور ابن سعد اور بیہقی نے اپنی اپنی سنن میں جندب بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ جنگ بدر سے دو مہینے پہلے ماہ جمادی الاخریٰ 2 ھ میں آنحضرت ﷺ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی عبد اللہ بن جحش کو ان کی اردلی میں آٹھ نفر مہاجرین دے کر بھیجا ان مہاجرین کے نام یہ ہیں۔ سعد بن ابی وقاص زہری۔ عکاشہ بن محصن اسدی۔ عتبہ بن غزوان اسلمی۔ ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ۔ سہیل بن بیضا۔ عامر بن ربیعہ۔ واقد بن عبد اللہ۔ خالد بن بکیر اور بعض راویوں نے سہیل بن بیضا کو ذکر کیا ہے اور سہیل خالد، عکاشہ کو ذکر نہیں کیا اور بعض نے مقداد ابن عمرو کو ذکر کیا ہے ابن سعد کہتے ہیں یہ سب ( اصل میں) بارہ آدمی تھے اور دو ‘ دو آدمی ایک ایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے اور حضور انوررسول مقبول ﷺ نے ان کے افسر عبد اللہ بن جحش کو ایک حکم نامہ لکھ کر دے دیا تھا اور یہ فرما دیا تھا کہ اللہ کا نام لے کر روانہ ہوجاؤ اور جب تک دو دن کا سفر طے نہ کرلو اس حکم نامہ کو ( کھول کر) نہ دیکھنا دوسری منزل پر پہنچ کر اس حکم نامہ کو دیکھنا اور ( جو کچھ اس میں تحریر کیا ہے) وہ اپنے ساتھیوں کو بھی سنا دینا پھر ہمارے حکم کا اجراء کرنا اس کے علاوہ اپنے ساتھ لے جانے میں اپنے کسی ساتھی پر زبردستی نہ کرنا۔ اس کے بعد جب عبد اللہ چلنے لگے تو چلنے سے پہلے ہی پوچھا یا رسول اللہ میں کس طرف جاؤ فرمایا نجد کی طرف عبد اللہ وہاں سے روانہ ہوگئے اور دو روز کا سفر کرلینے کے بعد ایک جگہ پڑاؤ کیا اور وہ حکم نامہ کھولا تو اس میں یہ مضمون لکھا ہوا تھا) ۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اما بعد فسر علی رکۃ اللہ بمن تبعک من اصحابک حتی تنزل بطن نخلۃ فترصدبھا عیرقریش لعلک ان تاتینا منہ بخیر ( یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم بعد حمد و صلوٰۃ کے واضح ہو کہ تم اللہ کی برکت پر ( اور اس کی رحمت پر بھروسہ کرکے) اپنے ان ہمراہیوں کو لے کر چلے جاؤ جو تمہارے کہے میں ہوں اور جس وقت بطن نخلہ میں پہنچو تو قریش کے قافلہ کے منتظر رہو امید ہے کہ ان کا مال تمہارے ہاتھ لگے اور تم اسے ہمارے پاس لاؤ) جس وقت عبد اللہ نے اس حکم نامہ کو دیکھا فوراً رضا مندی ظاہر کرنے کے لیے) سمعاً و طاعتًا کہا اس کے بعد وہ مضمون اپنے ساتھیوں کو سنایا اور یہ بھی کہہ دیا کہ حضور ﷺ نے اس سے مجھے منع فرمادیا ہے کہ تم میں سے کسی پر میں زبردستی کروں اب تم میں سے جس کا ارادہ شہادت (یعنی شہید ہونے) کا ہو وہ تو چلے اور جسے یہ پسند نہ وہ لوٹ جائے پھر آپ آگے بڑھے اور آپ کے سب ساتھی بھی ساتھ ہی رہے کوئی ان میں سے نہیں پھرا جب یہ لوگ معدن پہنچے جو علاقہ حجاز میں فزع سے اوپر ایک مقام ہے جسے لوگ نجران کہتے ہیں تو وہاں پہنچ کر سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان کا اونٹ جس پر یہ دونوں سوار ہوتے تھے گم ہوگیا یہ دونوں اس اونٹ کو تلاش کرنے میں پیچھے رہ گئے اور عبد اللہ اپنے باقی ہمراہیوں کو لے کر آگئے بڑھ گئے یہاں تک کہ مکہ اور طائف کے درمیان بطن نخلہ میں جا اترے ابھی یہ ٹھہرنے ( بھی) نہ پائے تھے کہ اتنے میں قریش کا قافلہ دکھلائی دیا جو طائف کی تجارت کا مال کشمش اور چمڑے ( وغیرہ) لیے آرہا تھا انہیں میں عمرو حضرت حکم بن کیسان مولیٰ ہشام بن مغیرہ عثمان بن عبد اللہ بن مغیرہ مخزومی اور اس کا بھائی نوفل بن عبد اللہ مخزومی بھی تھے جس وقت ان لوگوں نے ان مسلمانوں کو دیکھا تو ان سے دہشت کھا گئے۔ (افسر) عبد اللہ بن جحش نے کہا کہ وہ لوگ تم سے خوف کھا گئے ہیں اب تم یہ کرو کہ اپنے میں سے ایک آدمی کا سر مونڈ کر ان کے پاس بھیج دو ( تاکہ انہیں کچھ اطمینان ہوجائے) چناچہ عکاشہ کا سر مونڈ کر ان کی طرف بھیج دیا گیا جب عکاشہ ان کے پاس پہنچے تو وہ دیکھتے ہی کہنے لگے کہ یہ تو عمار کی قوم ( کے آدمی) ہیں ان سے ڈرنے کی کوئی بات نہیں غرض کہ ان سے وہ بےخوف سے ہوگئے اور یہ واقعہ اس تاریخ کو ہوا جس کو وہ لوگ تو جمادی الثانی کا آخری دن سمجھ رہے تھے اور اصل میں رجب کی پہلی پھر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر آج کی رات تم انہیں چھوڑے دیتے ہو تو پھر یہ حرم میں داخل ہوجائیں گے اور تمہارے قبضہ سے نکل جائیں گے (کیونکہ حرم میں لڑنا جائز نہیں) اس کے علاوہ ماہ حرام ( رجب) بھی شروع ہوجائے گا یہ سمجھوتہ ہونے کے بعد واقد بن عبد اللہ سہمی نے عمرو حضرمی کے تیرمار کر اسے تو وہیں مار دیا اور باقی مسلمانوں نے بڑی مردانگی سے ان پر حملہ کیا۔ عثمان بن عبد اللہ بن مغیرہ اور حکم بن کیسان کو مقید کرلیا اور نوفل بھاگ گیا وہ ان کے ہاتھ نہ آیا پھر ان دونوں قیدیوں اور اونٹوں کو لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس مال غنیمت میں سے عبد اللہ بن جحش نے رسول اللہ کے لیے خمس علیحدہ کرکے باقی مال اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیا تھا اور اسلام میں سب سے پہلے خمس اور سب سے پہلا مال غنیمت یہی تھا اور مشرکین میں جو سب سے پہلے قتل ہوا وہ یہی عمرو حضرمی تھا اور سب سے پہلے قیدی عثمان اور حکم ہیں اور یہ واقعہ مال غنیمت میں خمس فرض ہونے سے پہلے کا ہے پھر عبد اللہ بن جحش کی اس کارروائی کے مطابق خمس فرض ہوا اور جب یہ لوگ آنحضرت ﷺ سے ملے تو آپ نے فرمایا کہ ماہ حرام میں جنگ کرنے کا میں نے حکم نہیں دیا تھا ( یہ تم نے عدول حکمی کی) اور اس مال غنیمت میں سے آپ نے کچھ نہ لیا۔ اس مال اور ان دونوں قیدیوں کو ویسے ہی رہنے دیا اور ( جب یہ خبر مکہ میں پہنچی تو) قریش نے ان مسلمانوں سے جو مکہ میں رہتے تھے طعنہ کے طور پر کہا کہ اے بےدینو ! تم نے ماہ حرام کو بھی حلال سمجھ لیا اور اس میں بھی قتل و قتال کرنے لگے یہ سن کر ان لشکریوں کو بہت بڑا صدمہ ہوا اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ بس ہم ہلاک ہوگئے ( ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی) اور حضور انور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! ابن حضرمی کو قتل کرنے کے بعد شام کو ہم نے رجب کا چانددیکھا لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم ہوا کہ یہ خون ہم نے رجب میں کیا یا کہ جمادی الثانی میں پھر اس کے بارے میں لوگوں نے مختلف اقوال بیان کئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تب آنحضرت ﷺ نے وہی خمس لے لیا جو عبد اللہ بن جحش نے نکالا تھا یا آپ نے سارا مال لے کر اس میں سے خمس نکال لیا اور باقی مال ان لشکریوں میں تقسیم کردیا۔ بعض مفسرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ( جنگ) بدر سے واپس آنے تک یہ اہل نخلہ کا مال غنیمت ویسے ہی رکھا رہا اور بدر کی غنیمتوں کے ساتھ ہی یہ بھی تقسیم ہوا اور اہل مکہ نے اپنے دونوں قیدیوں کے فدیہ میں (انہیں چھوڑانے کی امید پر) کچھ مال بھیجا حضرت نے فرمایا کہ سعد اور عتبہ کے آنے تک ان دونوں قیدیوں کو ہم قید ہی میں رکھیں گے کیونکہ ہمیں تمہاری طرف سے اندیشہ ہے اگر ( ہمارے) وہ دونوں آدمی نہ آئے تو ان کے عوض ہم ان دونوں کو قتل کردیں گے کچھ دنوں کے بعد سعد اور عتبہ بھی ( بخیر و عافیت) آگئے تب آنحضرت ﷺ نے ہر قیدی کے فدیہ میں چالیس چالیس اوقیہ لے کر دونوں کو رہا کردیا۔ حکم بن کیسان تو جبھی مسلمان ہوگئے اور حضرت کے پاس ہی مدینہ منورہ میں رہنے لگے پھر بیر معونہ ( کی لڑائی) میں شہید بھی ہوگئے لیکن عثمان بن عبد اللہ بن مغیرہ مکہ چلا گیا اور وہیں کفر ہی کی حالت میں مرگیا رہا نوفل اس نے جنگ خندق میں اپنے گھوڑے کو خندق میں ڈالنے کی غرض سے اس کے ایڑ لگائی اور مع گھوڑے کے خندق میں گرپڑا اور دونوں کا کچلا ہوگیا اللہ تعالیٰ نے وہیں اس کی جان لے لی اس کے بعد مشرکین نے کچھ قیمت پر اس کا لاشا مانگا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ لے لو کیونکہ اس کا لاشہ بھی ناپاک اور اس کی دیت بھی ناپاک ہے۔ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ( اے محمد ﷺ ان سے) ( کہہ دو کہ اس ( ماہ حرام) میں لڑنا بڑا گناہ ہے) اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے آیت : فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم سے ( یعنی مشرکین کو تم جہاں پاؤ قتل کردو) ابن ہمام فرماتے ہیں کہ ( منسوخ کہنا) اس بنا پر ہے کہ حیث کا لفظ زمانہ ( کے معنی) میں مجازاً ہے اور اس میں شک نہیں کہ یہ کثیر الاستعمال ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حیث کے لفظ کو مکان کے معنی میں حقیقی اور زمانہ کے معنی میں مجازی کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے اور اگر ہم یہ مان لیں کہ یہ لفظ مکان اور زمان دونوں میں مشترک ہے تب بھی تمام زمانوں کو شامل ہونے میں شک رہنا ہے اور شک کے ہوتے ہوئے منسوخ کہنا جائز نہیں ہے۔ بیضاوی فرماتے ہیں کہ یہ عام سے خاص کا منسوخ ہونا ہے اور اس میں اختلاف ہے یعنی عام سے خاص کا منسوخ ہونا۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جائز ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ عام بھی اپنے افراد میں خاص کر طرح قطعی دلیل ہوتا ہے اور امام شافعی (رح) وغیرہ کے نزدیک جائز نہیں ہے ان کا قول یہ ہے کہ عام ظنی دلیل ہے بخلاف خاص کے کیونکہ کوئی عام ایسا نہیں جس میں سے بعض افراد خاص نہ ہوگئے ہوں اور اس کی ( مفصل) بحث اصول فقہ میں ہے۔ قاضی بیضاوی کہتے ہیں اولیٰ یہ ہے کہ اشہر حرام میں مطلقاً جنگ حرام ہونے پر اس آیت کو دلیل نہ کہا جائے کیونکہ قتال (کالفظ) نکرہ ہے جو مثبت ( فعل) کے تحت میں ہے لہٰذا یہ عام نہ ہوگا ( کیونکہ نکرہ منفی فعل کے تحت میں آکر عام ہوا کرتا ہے نہ مثبت کے تحت میں) میں کہتا ہوں کہ مثبت ( فعل) میں بھی قرینہ وجود ہونے کے وقت نکرہ عام ہوجایا کرتا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد میں کہ تمرۃ خیر من جرادۃ اگر یہاں نکرہ کے لیے نہ ہو تو سائل کا جواب نہیں ہوسکتا۔ ابن ہمام نے اس حرمت کے منسوخ ہونے پر چند عمومات سے استدلال کیا ہے مثلا یہ آیت : اقتلوا المشرکین کافۃ اور آنحضرت ( علیہ السلام) کا یہ قول : امرت ان اقاتل الناس حتٰی یقولوا لآ الٰہ اِلَّا اللہ۔ میں کہتا ہوں یہ استدلال ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ان آیتوں کا عام ہونا مکلفین اور ان کے احوال کے بارے میں ہے نہ کہ زمانوں کی بابت کہ اس میں اشہر حرم داخل ہوجائیں اور ان پر منسوخ ہونے کا حکم لگ جائے بلکہ زمانوں کا اگر ثابت ہوگا تو اقتضاء الننص سے ہوگا اوراقتضاء النص یہاں ہے نہیں لہٰذا اس میں تخصیص اور نسخ جاری نہیں ہوسکتا اور اشہر حرام میں قتل و قتال کی حرمت منسوخ ہونے کا کوئی کس طرح دعویٰ کرسکتا ہے حالانکہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھرا فی کتاب اللہ یوم خلق السمواٰت والارض منھا اربعۃ حرم ذٰلک الدین القیم فلا تظلموا فیھن انفسکم ( یعنی بیشک مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جس دن کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ان میں چار ( مہینے) حرام ہیں۔ یہ مضبوط دین ہے پس ان ( مہینوں) میں ( قتل و قتال کرکے) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو) وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ واعلموا ان اللہ مع المتقین انما النسی زیادۃ فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاما و یحرمونہ عاما لیواطؤا عدۃ ما حرم اللہ فیحلوا ما حرم اللہ زین لھم سوء اعمالھم وا اللہ لا یھدی القوم الکافرین ( یعنی اور تمام مشرکوں سے لڑو جس طرح وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ سو اس کے نہیں کہ ( مہینے کا) آگے پیچھے کرلینا کفر میں زیادتی ہے جو لوگ کافر ہیں اس کے ذریعہ سے گمراہ کیے جاتے ہیں ایک سال (تو) وہ اس ( مہینہ) کو حلال کرلیتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام کرلیتے ہیں تاکہ ان مہینوں کا شمار کرلیں جن کو اللہ نے حرام کیا ہے اور جو اللہ نے حرام کیا ہے اسے ( اس تدبیر) سے حلال کرلیں ان کے لیے انکے برے کام زینت دیئے گئے ہیں اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کرتا) یہ آیت قتال کی آیتوں میں سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے اور یہی آیت سیف ہے جو 9 ھ کے آخر میں نازل ہوئی ہے اور اس میں ان مہینوں کے حرام ہونے کا ذکر ہے لہٰذا اس سے یہ خصوصیت ثابت ہوئی کہ ان مہینوں کے سوا ہی میں قتال و قتال کرنا واجب ہے ( ان میں جائز نہیں) ۔ وا اللہ اعلم اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی وفات سے دو مہینے پہلے حجۃ الوداع میں بقر عید کے روز کا خطبہ جو حضور ﷺ نے پڑھا تھا ان اشہر حرم میں قتل و قتال کرنے کی حرمت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ یاد رکھو زمانہ پھر اسی حالت پر آگیا ہے کہ جس حالت پر آسمان و زمین پیدا ہونے کے دن تھا سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں ان میں سے چار مہینے حرام ہیں تین پے در پے ذی قعدہ ذی الحجہ محرم اور ایک ( ان سے علیحدہ یعنی) رجب۔ اسی حدیث کے آخر میں فرمایا کہ تمہارے خون تمہارے مال تمہارے اسباب ایک دوسرے پر ایسے حرام ہیں جسے تمہارے اس شہر اور اس مہینے میں آج کے دن کی حرمت ہے۔ یہ حدیث حضرت ابوبکر کی سند سے متفق علیہ ہے۔ ابن ہمام کہتے ہیں کہ ماہ ذی الحجہ کی بیسویں تاریخ آنحضرت ﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا تھا اور یہ محاصرہ محرم کے آخر تک یا ایک مہینہ تک رہا غرض یہ ہے کہ اس سے اس آیت کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ قول ٹھیک نہیں کیونکہ طائف کا محاصرہ ماہ شوال 8 ھ میں ہوا تھا ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ماہ رمضان شریف کی دوسری تاریخ کو ہم رسول اللہ کے ساتھ مدینہ سے چلے تھے یہ روایت امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ نقل کی ہے بیہقی نے زہری سے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ رمضان شریف کی تیرہویں تاریخ انحضرت ﷺ نے مکہ پر فتح پائی تھی۔ میں کہتا ہوں اس روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بارہ روز آنحضرت کہیں راستہ میں ٹھہر گئے تھے اور انیس روز اور ایک روایت میں سترہ روز آپ نے مکہ معظمہ میں قیام کیا یہ روایت بخاری نے نقل کی ہے اور ایک روایت میں اٹھارہ روزہ ہیں پھر مکہ فتح ہوجانے کے بعد شوال کی چھٹی تاریخ کو ہفتہ کے دن آپ حنین کو روانہ ہوگئے ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپ پانچویں ( شوال) کو روانہ ہوئے تھے یہی قول عروہ اور ابن جریر کا ہے۔ ابن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ شوال کی دسویں کو آنحضرت حنین پہنچ گئے تھے اور جب (قبیلہ) ہوازن کے لوگ شکست کھا کر بھاگ گئے اور آپ نے سب غنائم اکٹھی کرالیں تو ( قبیلہ) ثقیف کا سردار نوفل طائف چلا آیا اور سب لوگوں کو اندر کرکے شہر کے دروازے بند کردیئے اور ان لوگوں نے جنگ کی تیاری کرلی ادھر حضور بھی لوٹ کر مکہ نہیں گئے اور نہ حنین کے غنائم تقسیم کرنے سے پہلے سوائے جنگ طائف کے اور کہیں کی چڑھائی کی۔ قیدیوں کو آپ جعرانہ ہی میں چھوڑ آئے تھے یہاں آکر آپ نے طائف کا محاصرہ کرلیا۔ مسلم نے انس ؓ سے روایت کی ہے کہ یہ محاصرہ چالیس روز رہا تھا۔ ہدایہ میں اس روایت کو غریب کہا ہے ابن اسحاق نے محاصرہ کی مدت تیس دن بیان کی ہے اور ابن اسحاق کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ محاصرہ بیس روز سے کچھ اوپر رہا تھا۔ بعض بیس روز ہی کہتے ہیں اور بعض نے دس روز سے کچھ اوپر کہا ہے۔ یہ روایت ابو داؤد نے نقل کی ہے۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ بلاشک یہی صحیح ہے پھر آنحضرت ﷺ نے مکہ کو کوچ فرمایا اور ذیقعدہ کی پانچویں تاریخ کو جمعرات کے دن آپ جعرانہ پہنچ گئے۔ جعرانہ سے آگے نہیں بڑھے تیرہ روز وہیں رہے اور وہیں عمرہ کرلیا۔ پھر ذیقعدہ کی اٹھارہویں کو بدھ کے دِن آپ ﷺ مدینہ کو روانہ ہوگئے اور ذیقعدہ کی ستائیسویں تاریخ کو جمعہ کے دن مدینہ پہنچ گئے ابو عمر کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے مدینہ میں نہ رہنے کی مدت اس وقت سے لے کر آپ ﷺ مدینہ سے مکہ کو روانہ ہوئے اوّل مکہ فتح کیا پھر ہوازن پر چڑھائی کی پھر اہل طائف سے جنگ کی (ان سب سے فارغ ہو کر) مدینہ واپس آنے تک دو مہینے اور سولہ دن بلکہ دو مہینے اور چھبیس دن ہیں۔ پھر ابن ہمام کا یہ کہنا کیونکہ خیال میں آسکتا ہے کہ طائف کا محاصرہ ذی الحجہ کی بیسیویں تاریخ سے لے کر محرم کے آخرتک رہا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اشھرحرم کی حرمت کا منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوا وا اللہ اعلم ہاں یہ آیت اس آیت سے منسوخ ہے جو پہلے گذر چکی ہے کہ الشھر الحرام بالشھر الحرام والحرمات قصاص فمن اتدایٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدٰی علیکم کیونکہ یہ آیت اشہر حرم میں قتل و قتال کے مباح ہونے پر دلالت کرتی ہے ایسی حالت میں کہ جنگ کی ابتداء کفار کی طرف سے ہو کیونکہ یہ آیت جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئی ہے اور وہ آیت عمرہ قضا 7 ہجری میں نازل ہوئی ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں۔ پس اشہر حرم میں ( مسلمانوں کو) جنگ شروع کرنی حرام ہی رہی۔ وا اللہ اعلم وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ ( اور اللہ کی راہ سے (یعنی اسلام اور طاعات سے) روکنا اور اس کو ( یعنی اللہ کو) نہ ماننا اور مسجد حرام سے روکنا) المسجد الحرام میں مضاف محذوف ہے یعنیوصدا المسجد الحرام اور مجرور ضمیر پر ( جو یہ ہے) اس کا عطف جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں ( حرف) جار کا اعادہ واجب ہوگا اور نہ سبیل اللہ پر جائز ہے کیونکہکفر بہٖ کا عطف اس سے مانع ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ صد پر عطف ہونا اس عطف سے مقدم نہیں ہوسکتا جو موصول پر ہے اور یہاں و کفر المسجد الحرام سے مقدم ہے۔ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِهٖ ( اور اس کے رہنے والوں کو نکال دینا) یعنی مسجد والوں کو اور وہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ ؓ ہیں۔ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ ( اللہ کے نزدیک بڑا گناہ ہے) اس سے جو ( حضور کے) اس چھوٹے سے لشکر نے کیا تھا کیونکہ کفار مکہ سے جس قدر گناہ سر زد ہوئے قصداً اور عناداً سر زد ہوئے اور اس لشکر سے وہ گناہ بلا قصد اور ایک گمان کی وجہ سے سرزد ہوگیا تھا۔ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ( اور فساد ( یعنی شرک) کرنا اس قتل سے ( بھی) زیادہ سخت ہے) یعنی حضرمی کو قتل کردینے سے پھر یہ کفار مکہ ان مسلمانوں پر کیوں طعن وتشنیع کرتے ہیں باوجودیکہ ان سے وہ فعل غلطی سے ہوگیا انہوں نے تو اس سے بدرجہا بڑھ کر جان بوجھ کیا ہے۔ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ۭ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ( اور وہ تو تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے ( کفار قریش کی طرف اشارہ ہے) یہاں تک کہ وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر قابو پائیں ( اس میں قابو نہ پانے کا اشارہ ہے اور جو تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا اور کفر کی حالت میں مرجائے تو ایسوں کے عمل ضائع ہوجائیں گے) اس آیت سے امام شافعی (رح) نے اس پر استدلال کیا ہے کہ جو شخص مرتد ہوجائے تو جب تک وہ کفر کی حالت پر نہ مرے اس کے عمل ضائع نہیں ہوتے کیونکہ مثلاً جس نے ظہر کی نماز پڑھی پھر وہ مرتد ہوگیا نعوذ باللہ منہا اور ابھی وقت ( نماز کا) باقی تھا کہ وہ پھر مسلمان ہوگیا تو اس نماز کو پھر پڑھنا اس پر واجب نہیں ہے اور اسی طرح جو شخص حج کرکے مرتد ہوجائے پھر مسلمان ہوجائے تو اس پر بھی دوبارہ حج کرنا واجب نہیں ہے شافعی کا یہ استدلال صفت کے مفہوم کے ساتھ ہے اور یہ ( یعنی مفہوم صفت) امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک معتبر نہیں ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ مسلمان ہوجائے اور وقت نماز کا باقی ہو تو دو بارہ نماز پڑھنی اس پر واجب ہے اور اسی طرح حج بھی دوبارہ کرنا لازم ہے۔ ہماری دلیل یہ آیت ہے : و من یکفر بالایمان فقد حبط عملہٗ ( یعنی جو کوئی ایمان سے پھر گیا اس کے عمل ضائع ہوگئے) اور یہ آیت مطلق ہے اور مطلق کو مقید پر حمل کرنا ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے۔ وا اللہ اعلم۔ فِي الدُّنْيَا ( دنیا میں) پس ایسے شخص کے دنیا میں مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کا خون اور مال محفوظ نہ رہے گا۔ اس کو قتل کردیا جائے گا اور ( رفع شکوک کے لیے) تین دن تک اسے مہلت دینی بھی واجب نہ ہوگی ہاں مستحب ہے پس یہ آیت امام شافعی پر حجت ہے کیونکہ مہلت دینے کو وہ واجب فرماتے ہیں۔ وَالْاٰخِرَةِ ( اور آخرت میں) یعنی ثواب ساقط ہوجائے گا۔ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ( اور یہی لوگ دوزخی ہیں وہ ابد الآباد تک اس میں رہیں گے) جیسے کہ اور کفار پھر ان لشکریوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ کیا ہمارے اس سفر کا ہمیں اجر ملے گا اور کیا یہ جہاد شمار ہوگا ؟ اس وقت اللہ پاک نے یہ ( اگلی) آیت نازل فرمائی۔
Top