Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 32
وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآئِكُمْ١ؕ اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَاَنْكِحُوا
: اور تم نکاح کرو
الْاَيَامٰى
: بیوی عورتیں
مِنْكُمْ
: اپنے میں سے (اپنی)
وَالصّٰلِحِيْنَ
: اور نیک
مِنْ
: سے
عِبَادِكُمْ
: اپنے غلام
وَاِمَآئِكُمْ
: اور اپنی کنیزیں
اِنْ يَّكُوْنُوْا
: اگر وہ ہوں
فُقَرَآءَ
: تنگدست (جمع)
يُغْنِهِمُ
: انہیں غنی کردے گا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ فَضْلِهٖ
: اپنے فضل سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
وَاسِعٌ
: وسعت والا
عَلِيْمٌ
: علم والا
اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کردیا کرو) اگر وہ مفلس ہوں گے تو خدا ان کو اپنے فضل سے خوش حال کردے گا۔ اور خدا (بہت) وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے
وانکحوا الایامی منکم جب کہ گزشتہ آیات میں اللہ نے ان باتوں کی ممانعت فرما دی جو اکثر زنا کی طرف لے جاتی ہیں تو اب اس آیت میں نکاح کا حکم دیا (تاکہ فطرت انسانی کا تقاضا جائز طور پر پورا ہو سکے) نکاح نظروں کو نیچا رکھنے والا اور زنا سے بچانے والا ہے۔ انکحوا میں خطاب اولیا اور سرپرستوں کو ہے۔ ایامیٰ اصل میں ایایم تھا ‘ جیسے یتامیٰ کی اصل یتایم تھی اتم کی جمع ایامیٰ ہے ایم اس مرد کو بھی کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو اور اس عورت کو بھی کہتے ہیں جس کا شوہر نہ ہو۔ والصلحین من عبادکم وامآئکم اور اپنے غلاموں اور باندیوں میں سے ان کا بھی نکاح کر دو جو صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ امر استحبابی ہے (واجب نہیں ہے) صالحین نیک لوگ۔ صالح ہونے کی شرط نکاح کرانے کے لئے لازم نہیں غیر صالح کا نکاح کرانا بھی مستحب ہے لیکن جو باندی غلام نیک ہوں ان کے دین کی حفاظت اور ان کی پرہیزگاری کی نگہداشت کی اہمیت زیادہ ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ صالحین کا نکاح کرانے کی ہدایت کی۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ صالحین سے مراد ہیں وہ لوگ جن میں نکاح کرنے اور حقوق نکاح ادا کرنے کی صلاحیت و اہلیت ہو۔ مسئلہ اگر جوش صنفی غالب ہو اور حرام میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو نکاح واجب ہے۔ صاحب نہایہ نے لکھا ہے کہ اگر زنا میں مبتلا ہوجانے کا ڈر ہو اور بچنے پر قدرت نہ ہو تو ایسی حالت میں نکاح فرض ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے اگر ایسا قوی اندیشہ ہو کہ نکاح نہ کرے گا تو اپنے پر قابو نہ پا سکے گا۔ یقیناً حرام میں مبتلا ہوجائے گا تو نکاح فرض ہے اور اگر مغلوبیت اس حد تک نہ ہو بلکہ جوش کی وجہ سے مبتلاء معصیت ہوجانے کا خطرہ ہو تو نکاح واجب ہے لیکن یہ وجوب اس وقت ہے جب حقوق نکاح ادا کرنے کا یقین ہو نکاح کے بعد حق تلفی کا اندیشہ نہ ہو ‘ اگر لوازم نکاح ادا نہ کرسکنے کا خوف ہو تو نکاح مکروہ ہے۔ ابن ہمام نے یہ بھی لکھا ہے کہ حق تلفی کا خوف بھی تفصیل طلب ہے اگر فریضہ نکاح کے تلف ہونے کا یقین ہو تو نکاح حرام ہے اگر حق تلفی کا خطرہ ہو یقین نہ ہو تو نکاح مکروہ تحریمی ہے۔ بدائع میں ذکر کیا گیا ہے جوش شہوانی (کے وقت جو نکاح فرض ہوجاتا ہے اس) کے لئے یہ شرط بھی ضروری ہے کہ بقدر مہر معجل ادا کرنے اور نفقہ برداشت کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ اگر جوش شہوانی کے ساتھ یہ شرطیں بھی موجود ہوں اور نکاح نہ کرے تو گناہگار ہوگا۔ اگر اعتدال کی حالت ہو تو داؤد اور دوسرے اہل ظاہر کہتے ہیں کہ اس حالت میں بھی ہر مرد اور عورت پر نکاح فرض عین ہے لیکن عمر میں ایک مرتبہ بشرطیکہ جماع پر قدرت ہو اور نفقہ برداشت کرسکتا ہو۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے ( فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ ) (یعنی یہ امر وجوب کیلئے ہے) حضرت سمرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ مجرد رہنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ رواہ الترمذی وابن ماجہ۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے عکاف سے فرمایا کیا تیری بیوی ہے عکاف نے کہا نہیں۔ فرمایا اور کوئی باندی بھی نہیں ہے۔ عکاف نے کہا نہیں۔ فرمایا تو خوش حال (مالدار) بھی ہے۔ عکاف نے کہا میں فراخ حال ہوں (مالدار ہوں) فرمایا تب تو تو شیطان کے بھائیوں میں سے ہے۔ یہ بھی حضور ﷺ نے فرمایا ہماری سنت (طریقہ) نکاح ہے تم میں جو لوگ مجرد ہیں وہ برے لوگ ہیں اور جو مجرد ہونے کی حالت میں مرگئے وہ بہت رذیل مردے ہیں۔ رواہ احمد۔ حضرت انس ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نکاح کرنے کا حکم دیتے تھے اور مجرد رہنے کی سختی کے ساتھ ممانعت فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے اس عورت سے نکاح کرو جو شوہر سے زیادہ محبت کرنے والی اور بکثرت بچے پیدا کرنے والی ہو۔ میں قیامت کے دن متقی لوگوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔ رواہ احمد و ابو داؤد والنسائی۔ سورت نساء کی آیت فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْکی تفسیر میں اسی طرح کی حدیث گزر چکی ہے۔ بعض حنفیہ قائل ہیں کہ نکاح واجب بالکفایہ ہے یعنی سب پر واجب ہے لیکن سب کا نکاح کرنا ضروری نہیں کچھ لوگ نکاح کرلیں تو سب کی طرف سے واجب ادا ہوجائے گا۔ قانون نکاح جاری کرنے کی غرض یہ ہے کہ مسلمان دنیا میں باقی رہیں ان کی نسل ختم نہ ہوجائے اور یہ غرض کچھ لوگوں کے نکاح کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے۔ نکاح فرض عین نہیں ہے اس پر اجماع امت ہے ‘ داؤد جیسے لوگوں کا اس کو فرض عین قرار دینا خلاف اجماع ہے۔ بعض علماء نے واجب بالکفایہ ہونے کے ثبوت میں آیت (فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآءِ ) پیش کی ہے اس آیت میں جتنی عورتوں سے بیک وقت نکاح کیا جاسکتا ہے ان کی تعداد بیان کرنی مقصود ہے اور خطاب سرپرستوں کو ہے کہ اگر ایامیٰ نکاح کرنا چاہیں تو وہ نکاح سے نہ روکیں۔ رہیں احادیث مذکورہ تو وہ آحاد ہیں اور احادیث آحاد سے فرضیت ثابت نہیں ہوتی۔ بعض کے نزدیک نکاح سنت مؤکدہ ہے بعض کے نزدیک مستحب لیکن سنت یا مستحب ہونا صرف اس شرط کے ساتھ ہے کہ جماع پر قدرت رکھتا ہو بیوی کا خرچ اٹھا سکتا ہو اور حق تلفی کا اس کو خطرہ نہ ہو ان میں سے اگر کوئی شرط مفقود ہو تو نکاح مکروہ ہے یا حرام۔ عملی سنت ہونے کا ثبوت رسول اللہ ﷺ کے دوامی عمل سے ملتا ہے اور قولی سنت کے ثبوت کے لئے یہ حدیث کافی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اے گروہ جو انان تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہے وہ نکاح کرلے اور جس میں (مالی) استطاعت نہ ہو وہ روزے رکھے روزہ اس کے لئے شہوت شکن ہے۔ (خصی بننے کی ضرورت نہیں ‘ روزہ خود ایسا ہی شہوت شکن ہے جیسے خصی ہونا) متفق علیہ من حدیث ابن مسعود۔ ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا نکاح میری سنت ہے ‘ جس نے میری سنت پر عمل نہیں کیا وہ مجھ سے (متعلق) نہیں ہے۔ (یعنی میری تعلیم سے اس کا تعلق نہیں) نکاح کرو۔ دوسری امتوں کے مقابلہ میں ‘ مَیں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔ جو استطاعت رکھتا ہو اس کو نکاح کرنا چاہئے جو استطاعت نہ رکھتا ہو اس کو روزہ رکھنا ضروری ہے۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی عیسیٰ بن میمون ہے اور یہ راوی ضعیف ہے۔ صحیحین میں حضرت انس ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ (حضور ﷺ نے فرمایا) میں روزے رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ جو میری سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے (یعنی وہ میرا نہیں ہے مجھ سے اس کا تعلق نہیں ہے) ۔ ترمذی نے ایوب کی روایت سے لکھا ہے کہ پیغمبروں کی چار سنتیں ہیں حیا ‘ خوشبو کا استعمال ‘ مسواک اور نکاح۔ ابن ماجہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص طاہر اور مطہر ہونے کی حالت میں اللہ سے ملنے کا خواستگار ہو اس کو آزاد عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے۔ نکاح کا جو حکم ہم نے سطور بالا میں بیان کیا وہ علمائے حنفیہ کے موافق ہے امام احمد کا بھی یہی قول ہے امام شافعی (رح) کے نزدیک ہر حالت میں نکاح استحباب سے آگے نہیں بڑھتا اور استحباب بھی اس وقت ہوگا کہ جماع پر قدرت رکھتا ہو ‘ خرچ برداشت کرسکتا ہو اور حق تلفی کا اس کو خطرہ نہ ہو ان شرائط کی موجودگی میں اگرچہ نکاح مستحب ہے لیکن عبادت کے لئے یکسوئی حاصل کرنے کی غرض سے نکاح نہ کرنا افضل ہے اور اگر مذکورہ تینوں شرطوں میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو نکاح حرام یا مکروہ تحریمی ہے ‘ ہاں اگر جوش شہوانی سے مغلوب ہو اور حرام میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہو تو نکاح کا استحباب زیادہ قوی ہوجاتا ہے۔ اس حالت میں نفل نماز ‘ نفل روزے ‘ نفل حج اور نفل جہاد سے نکاح افضل ہے۔ امام مالک (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ فریقین کے اختلاف کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو حقوق ادا نہ کرسکنے کا خوف ہو یا نکاح کرنے کی وجہ کسی حرام کام میں پڑجانے کا اندیشہ ہو تو اس کے لئے نکاح حرام یا مکروہ تحریمی ہے اور جو شخص جوش شہوانی سے مغلوب ہو اور خوف ہو کہ نکاح نہ کرنے کی وجہ سے زنا میں مبتلا ہوجائے گا اور حقوق نکاح ادا کرنے کی اس میں استطاعت بھی ہو تو امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک نکاح واجب ہے اور امام شافعی (رح) کے نزدیک واجب تو نہیں مگر تاکیدی مستحب ہے۔ میں کہتا ہوں زنا حرام ہے اور حرام کی ضد واجب ہی ہے پس جس شخص کو زنا میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہو اس کے لئے نکاح واجب ہی ہوگا۔ باقی اگر اعتدال کی حالت ہو مغلوب کن جوش نہ ہو اور زنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو اور نکاح کرنے کی صورت میں حق تلفی کا خطرہ نہ ہو اور حقوق نکاح ادا کرنے پر قدرت ہو تو ایسے شخص کے لئے نکاح اگرچہ سنت مستحبہ ہے لیکن عبادت کے لئے یکسوئی حاصل کرنے کی غرض سے نکاح نہ کرنا افضل ہے یا نکاح کرنا ‘ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک عبادت کے لئے یکسوئی حاصل کرنے سے نکاح افضل ہے اور امام شافعی (رح) عبادتی یکسوئی کا حصول اور ترک نکاح کو افضل کہتے ہیں۔ امام شافعی (رح) نے اپنے قول کے ثبوت میں حضرت یحییٰ پیغمبر کی شخصیت کو پیش کیا ہے جن کی اللہ نے تعریف کی ہے انہوں نے عورتوں سے کامل انقطاع کرلیا تھا باوجودیکہ ان کے اندر قدرت اور مردانگی تھی لیکن انہوں نے اپنے آپ کو روکے رکھا اللہ نے ان کی تعریف میں سَیَّدًا وَّ حُصُوْرًا فرمایا ‘ حضور کا یہی معنی ہے۔ ابن ہمام نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ یہ وصف قابل ستائش حضرت یحییٰ کی شریعت میں تھا ‘ اس لئے اللہ نے اس وصف کی وجہ سے حضرت یحییٰ کی تعریف فرمائی ہے۔ ہماری شریعت میں تو رہبانیت ناجائز ہے۔ پھر ایک طرف حضرت یحییٰ کا یہ حال تھا کہ آپ نے کبھی کسی عورت سے نکاح نہیں کیا ‘ دوسری طرف رسول اللہ : ﷺ کی سیرت ہے کہ حضور ﷺ نے متعدد عورتوں سے نکاح کئے ‘ دونوں میں تضاد ہے۔ ہمارے لئے ہمارے رسول کی سیرت ہی شمع راہ ہے اگر ترک نکاح افضل ہوتا تو ناممکن تھا کہ اللہ افضل الانبیاء کو وقت وفات تک ترک افضل پر قائم رکھتا۔ شیخین نے صحیحین میں بیان کیا ہے کہ چند صحابہ نے امہات المؤمنین سے (اندرون خانہ) پوشیدگی میں رسول اللہ ﷺ کے اعمال کے متعلق دریافت کیا معلوم ہوا کہ گھر کے اندر رسول اللہ ﷺ : کی زندگی کے اوقات غیر معمولی عبادت میں نہیں گزرتے تھے ‘ آپ ﷺ سوتے بھی تھے عبادت بھی کرتے تھے تو کہنے لگے ہم میں سے کون رسول اللہ ﷺ : کی طرح ہوسکتا ہے ‘ حضور ﷺ کی فروگزاشتیں تو اللہ نے پہلے ہی سے معاف فرما دی ہیں ایک صاحب بولے میں تو عورتوں سے قربت ہی چھوڑ دوں گا ‘ دوسرے نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا ‘ تیسرے کہنے لگے میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ اس گفتگو کی اطلاع رسول اللہ ﷺ : کو بھی پہنچ گئی (دوسرے دن حضور ﷺ نے ایک تقریر کی اور خطبہ میں) حمد وثناء کے بعد فرمایا کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے ایسی باتیں کیں میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں روزہ بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ‘ جو میری سنت سے اعراض کرے گا۔ وہ مجھ سے (متعلق) نہیں ہے۔ بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا نکاح کرو۔ اس امت کے سب سے افضل آدمی کی بیبیاں بہت تھیں ‘ یعنی رسول اللہ ﷺ جو سب سے افضل تھے آپ کی بیبیاں بھی بہت تھیں اور بیبیوں کی کثرت نے آپ ﷺ کے مرتبہ کی عظمت کم نہیں کی۔ اوپر گزر چکا ہے کہ مجرد رہنے کی حضور ﷺ نے سخت ممانعت فرمائی ہے۔ تحقیق موضوع میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ جو شخص اپنے لئے نکاح کرنے اور اہل و عیال سے تعلق رکھنے کو تعلق باللہ رکھنے میں رکاوٹ نہیں سمجھتا اس کو اپنے اوپر اتنا قابو ہے کہ باوجود ان مشاغل کے عبادت اور ذکر اللہ کی کثرت اور تعمیر اوقات میں اس کے کوئی فرق نہیں آسکتا تو اس کے لئے نکاح افضل ہے رسول اللہ ﷺ اکثر انبیاء ‘ صحابہ کرام ؓ اور پیشتر علمائے صالحین اسی درجہ پر فائز تھے ‘ باوجود کثرت موانع کے ان بزرگوں کے مجاہدے میں کوئی فرق نہیں آسکتا تھا ان کا مرتبہ یقیناً بہت اونچا تھا اور ان کا ثبات فکر و نظر نہایت پختہ تھا اور ان کا عملی جہاد نفس سب عوائق و موانع پر غالب تھا۔ لیکن جو شخص اپنے آپ کو اتنا راسخ القدم نہیں سمجھتا وہ ڈرتا ہے کہ نکاح کرنے اور اہل و عیال کی پرورش میں مشغول ہونے سے اس کے تعمیری اوقات میں فرق آجائے گا اس کے دل کی دنیا اجاڑ ہوجائے گی وہ پراگندہ خاطر ہو کر ذکر اللہ کی کثرت نہ کرسکے گا اور انقطاع کلی میں رخنہ پیدا ہوجائے گا۔ اس لئے ترک نکاح افضل ہے لیکن یہ ترک کی افضلیت اس وقت ہے جب اس کو زنا میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو۔ اللہ نے ذکر خدا اور تعلق باللہ اور جہادِ فی سبیل اللہ پر زور دیتے ہوئے تمام پُر کشش اسباب دنیا اور پُر فریب جذبات قرابت سے مغلوب نہ ہونے کی تعلیم دی ہے اور فرمایا ہے۔ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلاَ اَوْلاَدَکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰءِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۔ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآءُ کُمْ وَاَبْنَآءُ کُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَامْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ۔ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلاَدِکُمْ عُدُوًّا لَکُمْ ۔ فَاحْذَرُوْہُمْ ۔ اے ایمان والو ! تم کو تمہارے مال و اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کریں جو لوگ ایسا کریں گے وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔ اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے باپ ‘ تمہارے بیٹے ‘ تمہارے بھائی ‘ تمہاری بیبیاں اور تمہارے مال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت میں جس کے خراب ہونے کا تم کو اندیشہ ہے اور تمہارے پسندیدہ مکان جو تمہارے مسکن ہیں اگر تم کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو منتظر رہو کہ اللہ اپنے امر کو لے آئے۔ اے ایمان والو ! تمہاری کچھ بیبیاں اور اولاد تمہاری دشمن ہیں ان سے احتیاط رکھو۔ یہ ظاہر ہے کہ نفل عبادت بہرحال عبادت ہے اور نکاح فی نفسہٖ ایک جائز کام ہے اپنی اصلیت کے لحاظ سے عبادت نہیں ہے اس کو عبادت کے لئے وضع نہیں کیا گیا اگر نکاح فی نفسہٖ عبادت ہوتا تو نکاح کرنے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہوتا۔ تمام عبادات کے لئے اسلام اوّلین شرط ہے۔ بخاری و مسلم نے صحیحین میں حضرت عمر ؓ بن خطاب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اس کی ہجرت (فی سبیل اللہ ہجرت نہ ہوگی بلکہ) اسی کام کے لئے ہوگی جس کے لئے اس نے وطن چھوڑا ہوگا۔ غور کرو کہ اگر نکاح فی نفسہٖ عبادت ہوتا تو کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ترک وطن کرنے کو فی سبیل اللہ (یعنی عبادت کے لئے) ہجرت قرار دیا جاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ دنیا کی چیزوں میں سے میرے لئے عورتیں اور خوشبو مرغوب بنا دی گئی ہیں اور خنکی چشم مجھے نماز میں ملتی ہے۔ رواہ النسائی والطبرانی واسنادہ حسن۔ یہ حدیث صراحۃً بتارہی ہے کہ عورتوں سے نکاح خوشبو کی طرح دنیوی مباح امور میں سے ہے۔ حقیقت میں نکاح سے جو فوائدحاصل ہوتے ہیں اور جو مصالح اس سے وابستہ ہیں ان کی وجہ سے نکاح کو امر مستحب کہا جاتا ہے ورنہ امر مباح سے زائد اس کی فی نفسہٖ کوئی حیثیت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے نکاح اور خوشبو لگانے کو پیغمبروں کا طریقہ فرمایا ہے اور سنن انبیاء میں سے قرار دیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ چیز سنن ہدیٰ میں سے ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ سنت زائدہ ہے سنت عادیہ ہے۔ سنت ہدیٰ تو وہ سنت ہے جس پر بطور عبادت رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ پابندی کی ہو۔ ایک شبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نکاح میری سنت ہے اور جو میری سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے (متعلق) نہیں ہے۔ یہ حدیث دلالت کر رہی ہے کہ نکاح سنت ہدیٰ ہے۔ جواباس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نکاح سنن ہدیٰ میں سے ہے ‘ بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس کام کو خود کیا اور پسند فرمایا اس سے کترانا اور برا سمجھنا ضرور موجب عتاب اور باعث ناراضگی ہے لیکن برا نہ سمجھنا اور انکار نہ کرنا صرف ترک کرنا تو موجب عتاب نہیں ہے۔ حدیث میں اعراض سے مراد ہے انکاری اعراض اور برا سمجھ کر ترک کرنا۔ ہاں سنت ہدی کو تو ترک کرنا بھی موجب عتاب ہے اس لئے نکاح سنت ہدیٰ نہیں ہے۔ معارضہ حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا دنیا کی تین چیزیں مجھے محبوب ہیں ‘ خوشبو ‘ عورتیں اور (نماز) نماز کو میری آنکھ کی ٹھنڈک بنا دیا گیا ہے ‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر نکاح دنیوی امور میں سے ہے تو نماز بھی دنیوی امور میں سے ہے۔ جوابحافظ ابن حجر نے اس حدیث کو مسند نہیں قرار دیا اور صراحت کی ہے کہ کسی مسند طریق سے ہم کو تین کا لفظ نہیں پہنچا۔ بلکہ اس کے خلاف وہ حدیث ہے جو مسلم نے حضرت عمرو بن العاص کی روایت سے مرفوعاً بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا دنیا متاع (فائدہ اندوزی کی چیز) ہے اور دنیا کے متاع میں صالحہ عورت سب سے اچھی متاع ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح دنیاوی امور میں سے ہے۔ حاصل مدعا یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں نکاح کے متعلق جو امر کا صیغہ آیا ہے اس سے مراد امر اباحت یا امر استحباب ہے (وجوبی امر مراد نہیں ہے) ۔ رہی عکاف والی حدیث جس میں عکاف کی بیوی اور جاریہ نہ ہونے کی بنا پر اخوان الشیاطین میں سے قرار دیا گیا ہے تو اس کا تعلق ایک خاص حالت سے ہے جب جوش شہوانی مغلوب کن حدود میں داخل ہوگیا ہو اور فتنۂ زنا میں پڑجانے کا خوف ہو (جیسا کہ عکاف کا واقعہ تھا) تو اس وقت بیشک یہی حکم ہوگا۔ نکاح اگر امر مباح ہے عبادت نہیں ہے لیکن اگر اس کے اندر حسن نیت کا شمول ہو تو عبادت بن جاتا ہے مثلاً اپنی نظر نیچی رکھنا یا مسلمانوں کی تعداد بڑھانا مقصود ہو تو نکاح عبادت بن جاتا ہے مگر یہ بات صرف نکاح ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ کھانا ‘ پینا ‘ خریدنا ‘ بیچنا اور دوسرے مباح معاملات میں بھی اگر حسن نیت شامل ہو اور ثواب کے ارادہ سے کئے جائیں تو وہ بھی عبادت بن جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اللہ کے) فرض کے بعد حلال کی طلب بھی فرض ہے۔ رواہ الطبرانی والبیہقی عن ابن مسعود ؓ ۔ طبرانی نے حضرت انس بن مالک کی روایت سے حدیث مذکور ان الفاظ کے ساتھ بھی بیان کی ہے کہ حلال کی طلب ہر مسلمان پر واجب ہے۔ بقائے نسل کے لئے نکاح جس طرح فرض کفایہ ہے (تا کہ مسلمانوں کی نسل دنیا میں ختم نہ ہو) اسی طرح بقدر بقائے زندگی کھانا پینا ہر شخص پر فرض عین ہے اور تجارت زراعت وغیرہ دوسرے معاملات اور پیشے فرض کفایہ ہیں ‘ اگر سب لوگ ان کو چھوڑ دیں گے تو معاشی انتظام درہم برہم ہوجائے گا اور دینی نظم بھی بگڑ جائے گا (اور سب گناہگار ہوں گے) رسول اللہ ﷺ : کا ارشاد ہے کہ امانت دار سچا تاجر (قیامت کے دن) انبیاء اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ رواہ الترمذی عن ابی السعید الخدی وحسنہ وابن ماجۃ من حدیث ابن عمر۔ بغوی نے شرح السنۃ میں حضرت انس کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ لیکن (نکاح ہو یا تجارت یا زراعت یا کھانا پینا) ان تمام امور کی خوبی (یعنی عبادت ہوجانا) بالغیر ہے (حسن نیت کی وجہ سے یہ امور عبادت بن جاتے ہیں) اور ذکر خداوندی اور سب سے کٹ کر اللہ سے لو لگانا فی نفسہٖ عبادت ہیں ان کی خوبی ذاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ : کا ارشاد نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ نوافل کی وجہ سے برابر میرا مقرب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ‘ الحدیث رواہ البخاری۔ اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ بندہ نکاح یا کھانے پینے سے برابر میرا قرب حاصل کرتا جاتا ہے۔ یہ بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس وحی نہیں آئی کہ میں مال جمع کروں اور تاجروں میں سے ہوجاؤں بلکہ یہ وحی آئی ہے کہ اپنے رب کی تسبیح وتحمید کروں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں۔ رواہ البغوی فی تفسیر سورة الحجر۔ حضرت یحییٰ کے مجرد رہنے کے سلسلے میں یہ کہنا کہ ان کی شریعت میں مجرد رہنا افضل تھا اور ہماری شریعت میں رہبانیت منسوخ کردی گئی ہے یہ جواب قطعاً بیکار ہے بلکہ تمام پیغمبروں کی شریعتوں میں نکاح کرنا مجرد رہنے سے افضل تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے چار چیزوں کو سنن انبیاء میں شمار کیا ہے ان چار چیزوں میں ایک نکاح کو بھی شامل کیا ہے۔ آدم ( علیہ السلام) ‘ نوح ( علیہ السلام) ‘ ابراہیم (علیہ السلام) ‘ اسماعیل ( علیہ السلام) ‘ اسحاق ( علیہ السلام) ‘ یعقوب ( علیہ السلام) ‘ یوسف ( علیہ السلام) ‘ موسیٰ ( علیہ السلام) ‘ ہارون ( علیہ السلام) ‘ ایوب ( علیہ السلام) ‘ داؤد ( علیہ السلام) ‘ سلیمان ( علیہ السلام) ‘ زکریا ( علیہ السلام) وغیرہم سب ہی نے نکاح کئے تھے اور یہ سب یحییٰ سے افضل تھے ‘ شاید حضرت یحییٰ نے اپنے حق میں نکاح کرنا مناسب نہ سمجھا ہو ‘ ان کو خوف ہو کہ نکاح سے میرے بعض اہم امور میں خلل پڑجائے گا ‘ پھر یہ کہنا غلط ہے کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ کی شریعت میں رہبانیت افضل تھی اور شریعت اسلامیہ میں منسوخ کردی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ رہبانیت جو نصاریٰ نے اختیار کی تھی وہ بدعت تھی اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ اللہ نے فرمایا ہے ( وَرَہْبَانِیَۃَ ابْتَدَعُوْہَا) حدیث میں جس رہبانیت و ترک دنیا کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد وہی عیسائیوں والی رہبانیت ہے۔ اللہ کے ذکر کے لئے خلوت گزین ہونے اور مخلوق سے کٹ کر خالق سے لو لگائے رکھنے کی ممانعت نہیں ہے۔ اللہ کے ذکر اور انقطاع عن الخلق کا تو اللہ نے حکم دیا ہے فرمایا ہے واذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً ۔ رسول اللہ ﷺ : کا ارشاد ہے مسلمانوں کا بہترین مال وہ بکریاں ہیں جن کو ہنکار کر وہ پہاڑ کی چوٹی پر لے جائے (اور سب سے الگ ہوجائے) ۔ تاکہ فتنوں سے اپنے دین کو بچا کر بھاگ جائے رہبانیت سے مراد ہے ان جائز امور کو ترک کردینا جن کو ترک کرنے کا کوئی ثواب نہیں ‘ جیسے نکاح کا ترک کردینا بستر پر سونا ترک کردینا ‘ گوشت ترک کردینا ‘ ہمیشہ چپ رہنا اور کلام کو ترک کردینا۔ جیسے نصاریٰ کے راہب کیا کرتے تھے ‘ اللہ نے فرمایا ہے (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ) شریعت میں ممانعت اسی اختراعی خود ساختہ رہبانیت کی ہے۔ جائز شرعی رہبانیت کی ممانعت نہیں ہے۔ صحابۂ کرام کی تعریف میں حدیث میں آیا ہے وہ رات میں راہب اور دن میں شیر تھے۔ فائدہ امام شافعی (رح) کے مسلک کی تائید کرتے ہوئے بغوی نے لکھا ہے کہ آیت میں اللہ نے بیوہ عورتوں کے سرپرستوں اور رانڈوں کے نکاح کرا دینے کا حکم دیا ہے ‘ بالکل اسی طرح جیسے آقاؤں کو غلاموں اور باندیوں کا نکاح کرانے کا اختیار دیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیواؤں سے نکاح کرانے کا کامل اختیار ان کے سرپرستوں کو ہے۔ بغوی کا مقصد یہ ہے کہ (حسب مسلک شافعی (رح) آزاد عاقلہ بالغہ عورت کا نکاح (خواہ وہ اپنی زبان سے ایجاب کرلے) ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ سورة بقرہ کی آیت ولا تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ کی تفسیر میں ہم نے اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف مفصل بیان کیا ہے۔ اس موضوع پر بغوی کا اس آیت سے استدلال غلط ہے کیونکہ (ایامیٰ کا ترجمہ صرف بیوائیں غلط ہے) ایم اس مرد کو کہتے ہیں جس کی بی بی نہ ہو اور اس عورت کو بھی کہتے ہیں جس کا شوہر نہ ہو خواہ دونوں کی شادی ہی نہ ہوئی۔ ناکت خدا ہوں یا شادی ہونے کے بعد بیوی شوہر سے اور شوہر بیوی سے محروم ہوگیا ہو۔ نابالغ اور بالغ کی بھی کوئی شرط نہیں۔ بڑے ہوں یا بچے بہرحال سب پر لفظ ایم کا اطلاق ہوتا ہے اور علماء امت کے نزدیک بالاتفاق مسلمہ ہے کہ بالغ مردوں کے نکاح کا اختیار سرپرستوں کو نہیں ہے اور یہ بھی مسلمہ ہے کہ نابالغ چھوٹی لڑکی کا کامل اختیار ولی کے ہاتھ میں ہے اس لئے ایامیٰ سے صرف عورتیں مراد لینا بےدلیل بات ہے۔ ہاں اگر چھوٹے لڑکے اور نابالغ لڑکیاں مراد ہوں تو ٹھیک ہے (کیونکہ بالاتفاق نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح کا اختیار سرپرستوں کا ہے) ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مجاز نکاح کرا دینے سے مراد نکاح سے نہ روکنا اور نکاح کرنے میں مدد کرنا گویا آیت یہ تعلیم دے رہی ہے کہ اگر غلام آقا سے یا بالغ عورت سرپرست سے اپنا نکاح کرانے کی درخواست کرے تو آقا اور ولی پر ان کا نکاح کرا دینا واجب ہے یہ مطلب امام شافعی (رح) کے مسلک پر ہوگا اور ان لوگوں کے نزدیک بھی آیت کا یہی مفہوم ہوگا جو عورتوں کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ سے نکاح کو جائز نہیں قرار دیتے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تو آیت کا مقصد صرف یہ ہے کہ سرپرست لوگ عورتوں کو نکاح سے نہ روکیں۔ یہی مفہوم آیت ولا تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضوا بَیْنَہُمْ بالْمَعْرُوْفِکا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیام نکاح بھیجے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے (اپنی بہن ‘ بیٹی یا عزیزہ کا) نکاح کر دو اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر فتنہ اور لمبا چوڑا بگاڑ پیدا ہوجائے گا (رسوائی ذلت اور زناکاری کا برا نتیجہ پیدا ہوگا) ۔ رواہ الترمذی۔ حضرت عمر ؓ بن خطاب اور انس بن مالک راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا توریت میں لکھا ہوا تھا کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے اس حالت میں اگر لڑکی کسی گناہ کا ارتکاب کرلے تو گناہ نکاح نہ کرنے والے پر پڑے گا۔ حضرت ابو سعید اور حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے لڑکا ہو وہ لڑکے کا اچھا نام رکھے اور اچھی تہذیب سکھائے ‘ جوان ہوجائے تو اس کا نکاح کر دے ‘ اگر بالغ ہوجانے کے بعد اس کا نکاح نہیں کرے گا اور وہ کوئی گناہ کر بیٹھے گا تو اس کا گناہ باپ پر ہوگا ‘ دونوں حدیثیں بیہقی نے شعب الایمان میں بیان کی ہیں۔ ان یکونوا فقرآء یغنہم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیم۔ اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اور اللہ سمائی والا (اور) بخوبی جاننے والا ہے۔ نکاح سے روکنے والی چیز ناداری ہوسکتی ہے اس کے رد میں فرمایا کہ ناداری تم کو نکاح سے مانع نہ ہو کیونکہ اللہ تمام بندوں کے رزق کا ذمہ دار ہے مال تو آنے جانے والی چیز ہے (نہ اس کے ہونے پر بھروسہ نہ ‘ نہ ہونے پر مایوسی) ۔ بعض نے کہا اس جگہ غنی بنا دینے سے مراد ہے قانع بنا دینا۔ بعض نے کہا غنا عطا کرنے سے مراد یہ دہرا رزق عطا کرنا۔ شوہر کا رزق اور بیوی کا رزق۔ اوّل الذکر تفسیری معنی زیادہ صحیح ہے۔ نکاح کرنے والے سے اللہ نے اس آیت میں وعدہ کیا ہے کہ نکاح کے بعد اس کی محتاجی اللہ دور کر دے گا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس شخص پر تعجب ہے جو بغیر نکاح کے غنا کا طلبگار ہوتا ہے حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے۔ اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ دوسری جگہ فرمایا ہے اِنْ یَّتَفَرَّقَا بُغْنِ اللّٰہُ کُلَّا مِّنْ سَعَتِہٖ ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا نکاح کے سلسلہ میں اللہ کے حکم کی تعمیل کرو ‘ اللہ نے جو تم سے غنی بنا دینے کا وعدہ کیا ہے وہ اس کو پورا کرے گا۔ اللہ نے فرمایا ہے اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۔ حضرت قتادہ کا بیان ہے ‘ حضرت عمر ؓ بن خطاب کا فرمان ہم سے نقل کیا گیا ہے۔ میں نے اس شخص کی طرح (عجیب آدمی) نہیں دیکھا جو نکاح کے ذریعہ غنا کا طلبگار نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس سلسلہ میں اللہ نے وعدہ فرمایا ہے وہ فرماتا ہے نکاح کے ذریعہ سے غنا طلب کرو۔ نکاح کر کے ہی اللہ کے فضل کے خواستگار بنو۔ اس کے بعد آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ بزار ‘ خطیب اور دارقطنی نے حضرت عائشہ ؓ : کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں سے نکاح کرو ‘ وہ خود مال لے کر آئیں گی (یعنی نکاح کے بعد اللہ تمہارے لئے فراخ دستی کے دروازے کھول دے گا) ۔ رواہ ابو داؤد فی مراسیلہ مرسلاً عن عروۃ۔ ثعلبی اور دیلمی مؤلف مسند الفردوس نے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے نکاح کے ذریعہ سے رزق کی تلاش کرو۔ میں کہتا ہوں شاید یہ وعدہ ان لوگوں کے لئے ہے جو نکاح کے ذریعہ سے پاک دامن رہنے کے خواستگار ہوتے ہیں اور رزق کا بھروسہ اللہ پر رکھتے ہیں۔ ذیل کی آیت سے اس کی تائید ہو رہی ہے۔
Top