Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Noor : 32
وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآئِكُمْ١ؕ اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَاَنْكِحُوا
: اور تم نکاح کرو
الْاَيَامٰى
: بیوی عورتیں
مِنْكُمْ
: اپنے میں سے (اپنی)
وَالصّٰلِحِيْنَ
: اور نیک
مِنْ
: سے
عِبَادِكُمْ
: اپنے غلام
وَاِمَآئِكُمْ
: اور اپنی کنیزیں
اِنْ يَّكُوْنُوْا
: اگر وہ ہوں
فُقَرَآءَ
: تنگدست (جمع)
يُغْنِهِمُ
: انہیں غنی کردے گا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ فَضْلِهٖ
: اپنے فضل سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
وَاسِعٌ
: وسعت والا
عَلِيْمٌ
: علم والا
اور نکاح کردو رانڈوں کا اپنے اندر اور جو نیک ہوں تمہارے غلام اور لونڈیاں اگر وہ ہوں گے مفلس اللہ ان کو غنی کر دے گا اپنے فضل سے اور اللہ کشائش والا ہے سب کچھ جانتا ہے ،
خلاصہ تفسیر
(احرار میں سے) جو بےنکاح ہوں (خواہ مرد ہوں یا عورتیں) اور بےنکاح ہونا بھی عام ہے خواہ ابھی تک نکاح ہوا ہی نہ ہو یا ہونے کے بعد بیوی کی موت یا طلاق کے سبب بےنکاح رہ گئے) تم ان کا نکاح کردیا کرو اور (اسی طرح) تمہارے غلام اور لونڈیوں میں جو اس (نکاح) کے لائق ہوں (یعنی حقوق نکاح ادا کرسکتے ہوں) ان کا بھی (نکاح کردیا کرو محض اپنی مصلحت سے ان کی خواہش نکاح کی مصلحت کو فوت نہ کیا کرو اور احرار کے نکاح پیغام دینے والے کے فقر و افلاس پر نظر کر کے انکار نہ کردیا کرو جبکہ اس میں کسب معاش کی صلاحیت موجود ہو کیونکہ) اگر وہ لوگ مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ (اگر چاہے گا) ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا (خلاصہ یہ ہے کہ نہ تو مالدار نہ ہونے کی وجہ سے نکاح سے انکار کرو اور نہ یہ خیال کرو کہ نکاح ہوگیا تو خرچ بڑھ جائے گا جو موجودہ حالت میں غنی و مالدار ہے وہ بھی نکاح کرنے سے محتاج و مفلس ہوجائے گا کیونکہ رزق کا مدار اصل میں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہے وہ کسی مالدار کو بغیر نکاح کے بھی فقیر و محتاج کرسکتا ہے اور کسی غریب نکاح والے کو نکاح کے باوجود فقر و افلاس سے نکال سکتا ہے) اور اللہ تعالیٰ وسعت والا ہے (جس کو چاہے مالدار کر دے اور سب کا حال) خوب جاننے والا ہے (جس کو غنی کرنا مقتضائے حکمت و مصلحت ہوگا اس کو غنی کردیا جاوے گا اور جس کے محتاج و فقیر رہنے ہی میں اس کی مصلحت ہے اس کو فقیر رکھا جائے گا) اور (اگر کسی کو اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے نکاح کا سامان میسر نہ ہو تو) ایسے لوگوں کو کہ جن کو نکاح کا مقدور نہیں ان کو چاہئے کہ (اپنے نفس کو) قابو میں رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (اگر چاہے تو) ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے (اس وقت نکاح کرلیں۔)
معارف و مسائل
بعض احکام نکاح
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سورة نور میں زیادہ تر وہ احکام ہیں جن کا تعلق عفت و عصمت کی حفاظت اور فواحش و بےحیائی کی روک تھام سے ہے۔ اس سلسلہ میں زنا اور اس کے متعلقات کی شدید سزاؤں کا ذکر کیا گیا پھر استیذان کا، پھر عورتوں کے پردے کا۔ شریعت اسلام چونکہ ایک معتدل شریعت ہے اس کے احکام سب ہی اعتدال پر اور انسان کے فطری جذبات و خواہشات کی رعایت کے ساتھ تعدی اور حد سے نکلنے کی ممانعت کے اصول پر دائر ہیں۔ اس لئے جب ایک طرف انسان کو ناجائز شہوت رانی سے سختی کے ساتھ روکا گیا تو ضرروی تھا کہ فطری جذبات و خواہشات کی رعایت سے اس کا کوئی جائز اور صحیح طریقہ بھی بتلایا جائے۔ اس کے علاوہ بقاء نسل کا عقلی اور شرعی تقاضا بھی یہی ہے کہ کچھ حدود کے اندر رہ کر مرد و عورت کے اختلاط کی کوئی صورت تجویز کی جائے۔ اسی کا نام قرآن و سنت کی اصطلاح میں نکاح ہے۔ آیت مذکورہ میں اس کے متعلق حرہ عورتوں کے اولیاء اور کنیزوں غلاموں کے آقاؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کا نکاح کردیا کریں۔ وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ الایة
اَيَامٰى، ایم کی جمع ہے جو ہر اس مرد عورت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس کا نکاح موجود نہ ہو۔ خواہ اول ہی سے نکاح نہ کیا ہو یا زوجین میں سے کسی ایک کی موت سے یا طلاق سے نکاح ختم ہوچکا ہو۔ ایسے مردوں و عورتوں کے نکاح کے لئے ان کے اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کے نکاح کا انتظام کریں۔
آیت مذکورہ کے طرز خطاب سے اتنی بات تو باتفاق ائمہ فقہاء ثابت ہے کہ نکاح کا مسنون اور بہتر طریقہ یہی ہے کہ خود اپنا نکاح کرنے کے لئے کوئی مرد یا عورت بلا واسطہ اقدام کے بجائے اپنے اولیاء کے واسطے سے یہ کام انجام دے۔ اس میں دین و دنیا کے بہت سے مصالح اور فوائد ہیں۔ خصوصاً لڑکیوں کے معاملہ میں کہ لڑکیاں اپنے نکاح کا معاملہ خود طے کریں، یہ ایک قسم کی بےحیائی بھی ہے اور اس میں فواحش کے راستے کھل جانے کا خطرہ بھی۔ اسی لئے بعض روایات حدیث میں عورتوں کو خود اپنا نکاح بلا واسطہ ولی کرنے سے روکا بھی گیا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک یہ حکم ایک خاص سنت اور شرعی ہدایت کی حیثیت میں ہے اگر کوئی بالغ لڑکی اپنا نکاح بغیر اجازت ولی کے اپنے کفو میں کرے تو نکاح صحیح ہوجائے گا اگرچہ خلاف سنت کرنے کی وجہ سے وہ موجب ملامت ہوگی جبکہ اس نے کسی مجبوری سے اس پر اقدام نہ کیا ہو۔
امام شافعی اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک اس کا نکاح ہی باطل کالعدم ہوگا جب تک ولی کے واسطہ سے نہ ہو۔ یہ جگہ اختلافی مسائل کی مکمل تحقیق اور دونوں فقہاء کے دلائل بیان کرنے کی نہیں لیکن اتنی بات ظاہر ہے کہ مذکورہ آیت سے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں اولیاء کا واسطہ ہونا چاہئے باقی یہ صورت کہ کوئی بلا واسطہ اولیاء نکاح کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا یہ آیت قرآن اس سے ساکت ہے۔ خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ لفظ اَيَامٰى میں بالغان مرد و عورت دونوں داخل ہیں اور بالغ لڑکوں کا نکاح بلا واسطہ ولی سب کے نزدیک صحیح ہوجاتا ہے اس کو کوئی باطل نہیں کہتا۔ اسی طرح ظاہر یہ ہے کہ لڑکی بالغ اگر اپنا نکاح خود کرے تو وہ بھی صحیح اور منعقد ہوجائے۔ ہاں خلاف سنت کام کرنے پر ملامت دونوں کی کی جائے گی۔
نکاح واجب ہے یا سنت یا مختلف حالات میں حکم مختلف ہے
اس پر ائمہ مجتہدین تقریباً سبھی متفق ہیں کہ جس شخص کو نکاح نہ کرنے کی صورت میں غالب گمان یہ ہو کہ وہ حدود شریعت پر قائم نہیں رہ سکے گا گناہ میں مبتلا ہوجائے گا اور نکاح کرنے پر اس کی قدرت بھی ہو کہ اس کے وسائل موجود ہوں تو ایسے شخص پر نکاح کرنا فرض یا واجب ہے جب تک نکاح نہ کرے گا گنہگار رہے گا۔ ہاں اگر نکاح کے وسائل موجود نہیں کہ کوئی مناسب عورت میسر نہیں یا اس کے لئے مہر معجل وغیرہ کی حد تک ضروری خرچ اس کے پاس نہیں تو اس کا حکم اگلی آیت میں یہ آیا ہے کہ اس کو چاہئے کہ وسائل کی فراہمی کی کوشش کرتا رہے اور جب تک وہ میسر نہ ہوں اپنے نفس کو قابو میں رکھنے اور صبر کرنے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ مسلسل روزے رکھے۔ اس سے غلبہ شہوت کو سکون ہوجاتا ہے۔
مسند احمد میں روایت ہے کہ حضرت عکاف سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تمہاری زوجہ ہے انہوں نے عرض کیا نہیں۔ پھر پوچھا کوئی شرعی لونڈی ہے کہا کہ نہیں پھر آپ نے دریافت کیا کہ تم صاحب وسعت ہو یا نہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ صاحب وسعت ہوں۔ مراد یہ تھی کہ کیا تم نکاح کے لئے ضروری نفقات کا انتظام کرسکتے ہو جس کے جواب میں انہوں نے اقرار کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو اور فرمایا کہ ہماری سنت نکاح کرنا ہے۔ تم میں بدترین آدمی وہ ہیں جو بےنکاح ہوں اور تہمارے مردوں میں سب سے رذیل وہ ہیں جو بےنکاح مر گئے۔ (مظہری)
اس روایت کو بھی جمہور فقہاء نے اسی حالت پر محمول فرمایا ہے جبکہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کا خطرہ غالب ہو۔ عکاف کا حال رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوگا کہ وہ صبر نہیں کرسکتے۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کرنے کا حکم دیا اور تبتُّل یعنی بےنکاح رہنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا (مظہری) اسی طرح کی اور بھی روایات حدیث ہیں۔ ان سب کا محمل جمہور فقہاء کے نزدیک وہی صورت ہے کہ نکاح نہ کرنے میں ابتلاء معصیت کا خطرہ غالب ہو۔ اسی طرح اس پر بھی تقریباً سبھی فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس شخص کو بظن غالب یہ معلوم ہو کہ وہ نکاح کرنے کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوجائے گا مثلاً بیوی کے حقوق زوجیت ادا کرنے پر قدرت نہیں اس پر ظلم کا مرتکب ہوگا یا اس کے لئے نکاح کرنے کی صورت میں کوئی دوسرا گناہ یقینی طور پر لازم آجائے گا ایسے شخص کو نکاح کرنا حرام یا مکروہ ہے۔
اب اس شخص کا حکم باقی رہا جو حالت اعتدال میں ہے کہ نہ تو ترک نکاح سے گناہ کا خطرہ قوی ہے اور نہ نکاح کی صورت میں کسی گناہ کا اندیشہ غالب ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں کہ اس کو نکاح کرنا افضل ہے یا ترک نکاح کر کے نفلی عبادات میں مشغول ہونا افضل ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نفلی عبادات میں لگنے سے افضل نکاح کرنا ہے اور امام شافعی کے نزدیک اشتغال عبادت افضل ہے۔ وجہ اس اختلاف کی اصل میں یہ ہے کہ نکاح اپنی ذات کے اعتبار سے تو ایک مباح ہے جیسے کھانا پینا سونا وغیرہ ضروریات زندگی سب مباح ہیں اس میں عبادت کا پہلو اس نیت سے آجاتا ہے کہ اس کے ذریعہ آدمی اپنے آپ کو گناہ سے بچا سکے گا اور اولاد صالح پیدا ہوگی تو اس کا بھی ثواب ملے گا اور ایسی نیک نیت سے جو مباح کام بھی انسان کرتا ہے وہ اس کے لئے بالواسطہ عبادت بن جاتی ہے کھانا پینا اور سونا بھی اسی نیت سے عبادت ہوجاتا ہے اور اشتغال بالعبادت اپنی ذات میں عبادت ہے اس لئے امام شافعی عبادت کے لئے خلوت گزینی کو نکاح سے افضل قرار دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نکاح میں عبادت کا پہلو بہ نسبت دوسرے مباحات کے غالب ہے احادیث صحیحہ میں اس کو سنت المرسلین اور اپنی سنت قرار دے کر تاکیدات بکثرت آئی ہیں۔ ان روایات حدیث کے مجموعہ سے اتنا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نکاح عام مباحات کی طرح مباح نہیں بلکہ سنت انبیاء ہے جس کی تاکیدات بھی حدیث میں آئی ہیں صرف نیت کی وجہ سے عبادت کی حیثیت اس میں نہیں بلکہ سنت انبیاء ہونے کی حیثیت سے بھی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس طرح تو کھانا پینا سونا بھی سنت انبیاء ہے کہ سب نے ایسا کیا ہے مگر جواب واضح ہے کہ ان چیزوں پر سب انبیاء کا علم ہونے کے باوجود یہ کسی نے نہیں کہا نہ کسی حدیث میں آیا کہ کھانا پینا اور سونا سنت انبیاء ہے بلکہ اس کو عام انسانی عادت کے تابع انبیاء کا عمل قرار دیا ہے بخلاف نکاح کے اس کو صراحة سنت المرسلین اور اپنی سنت فرمایا ہے۔
تفسیر مظہری میں اس موقع پر ایک معتدل بات یہ کہی ہے کہ جو شخص حالت اعتدال میں ہو کہ نہ غلبہ شہوت سے مجبور و مغلوب ہو اور نہ نکاح کرنے سے کسی گناہ میں پڑنے کا اندیشہ رکھتا ہو۔ یہ شخص اگر یہ محسوس کرے کہ نکاح کرنے کے باوجود نکاح اور اہل و عیال کی مشغولیت میرے لئے کثرت ذکر اللہ اور توجہ الی اللہ سے مانع نہیں ہوگی تو اس کے لئے نکاح افضل ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اور صلحاء امت کا عام حال یہی تھا، اور اگر اس کا اندازہ یہ ہے کہ نکاح اور اہل و عیال کے مشاغل اس کو دینی ترقی، کثرت ذکر وغیرہ سے روک دیں گے تو بحالت اعتدال اس کے لئے عبادت کے لئے خلوت گزینی اور ترک نکاح افضل ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس کی تطبیق پر شاہد ہیں ان میں ایک یہ ہے يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ اس میں یہی ہدایت ہے کہ انسان کے مال و اولاد اس کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردینے کا سبب نہ بننے چاہئیں۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ، یعنی اپنے غلاموں اور کنیزوں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کرا دیا کرو۔ یہ خطاب ان کے آقاؤں اور مالکوں کو ہے اس جگہ صالحین کا لفظ اپنے لغوی معنے میں آیا ہے یعنی ان میں جو شخص نکاح کی صلاحیت و استطاعت رکھتا ہو اس کا نکاح کرا دینے کا حکم ان کے آقاؤں کو دیا گیا ہے مراد اس صالحیت سے وہی ہے کہ بیوی کے حقوق زوجیت اور نفقہ و مہر معجل ادا کرنے کے قابل ہوں اور اگر صالحین کو معروف یعنی نیک لوگوں کے معنے میں لیا جائے تو پھر ان کی تخصیص بالذکر اس وجہ سے ہوگی کہ نکاح کا اصل مقصد حرام سے بچنے کا وہ صالحین ہی میں ہوسکتا ہے۔
بہرحال اپنے غلاموں اور کنیزوں میں جو صلاحیت نکاح کی رکھنے والے ہوں ان کے نکاح کا حکم ان کے آقاؤں کو دیا گیا ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ اگر وہ اپنی نکاح کی ضرورت ظاہر کریں اور خواہش کریں کہ ان کا نکاح کردیا جائے تو آقاؤں پر بعض فقہاء کے نزدیک واجب ہوگا کہ ان کے نکاح کردیں اور جمہور فقہاء کے نزدیک ان پر لازم ہے کہ ان کے نکاح میں رکاوٹ نہ ڈالیں بلکہ اجازت دیدیں کیونکہ مملوک غلاموں اور کنیزوں کا نکاح بغیر مالکوں کی اجازت کے نہیں ہوسکتا تو یہ حکم ایسا ہی ہوگا جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ یعنی عورتوں کے اولیاء پر لازم ہے کہ اپنی زیر ولایت عورتوں کو نکاح سے نہ روکیں اور جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص منگنی لے کر آوے اور اخلاق آپ کو پسند ہوں تو ضرور نکاح کردو اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور وسیع پیمانے کا فساد پیدا ہوجائے گا۔ (رواہ الترمذی)
خلاصہ یہ ہے کہ یہ حکم آقاؤں کو اس لئے دیا گیا کہ وہ اجازت نکاح دینے میں کوتاہی نہ کریں۔ خود نکاح کرانا ان کے ذمہ واجب ہو یہ ضروری نہیں۔ واللہ اعلم
اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ اس میں ان غریب فقیر مسلمانوں کے لئے بشارت ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لئے نکاح کرنا چاہتے ہیں مگر وسائل مالیہ ان کے پاس نہیں کہ جب وہ اپنے دین کی حفاظت اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنے کی نیت صالحہ سے نکاح کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو مالی غنا بھی عطا فرما دیں گے اور اس میں ان لوگوں کو بھی ہدایت ہے جن کے پاس ایسے غریب لوگ منگنی لے کر جائیں کہ وہ محض ان کے فی الحال غریب فقیر ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار نہ کردیں۔ مال آنے جانے والی چیز ہے اصل چیز صلاحیت عمل ہے اگر وہ ان میں موجود ہے تو ان کے نکاح سے انکار نہ کریں۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے اس میں آزاد اور غلام سب کو داخل فرمایا ہے اور نکاح کرنے پر ان سے غنا کا وعدہ فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) اور ابن ابی حاتم نے حضرت صدیق اکبر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم نکاح کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو تو اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ غناء عطا فرمانے کا کیا ہے وہ پورا فرما دیں گے پھر یہ آیت پڑھی۔ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ تم غنی ہونا چاہتے ہو تو نکاح کرلو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ (رواہ ابن جریرو ذکر البغوی عن عمر نحواہ۔ کثیر)
تنبیہ
تفسیر مظہری میں ہے کہ مگر یہ یاد رہے کہ نکاح کرنے والے کو غنی اور مال عطا فرمانے کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی حال میں ہے جبکہ نکاح کرنے والے کی نیت اپنی عفت کی حفاظت اور سنت پر عمل ہو اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد ہو اس کی دلیل اگلی آیت کے یہ الفاظ ہیں۔
Top