Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور (اس واقعہ کو یاد کرو) جب کہ کہا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے نوجوان سے کہ میں نہیں باز آؤں گا یہاں تک کہ میں پہنچ جاؤں دو دریاؤں کے سنگھم پر ، یا میں چلتا جاؤں مدت دراز تک ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان نافرمانوں کا ذکر کیا جو قرآن کریم کی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہیں اور حق کو گرانے کے لیے باطل کو ہمراہ لے کر جھگڑا کرتے ہیں فرمایا یہ محض اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو جلدی ہلاک نہیں کرتا بلکہ اپنے قانون کے مطابق مہلت دیتا ہے ، اللہ نے ہلاکت کا سبب ظلم و زیادتی کو قرار دیا ، قرآن پاک میں سابقہ اقوام ، عاد ، ثمودم ، قوم فرعون ، قوم لوط ، اہل مدین ، وغیرہ کا حال بھی مذکور ہے جب انہوں نے کفر وشرک کی انتہا کردی ظلم و زیادتی کو مستقل وطیرہ بنا لیا تو پھر اللہ کی گرفت آئی اور نافرمان لوگ صفحہ ہستی سے ناپید کردیے گئے گذشتہ آیات میں باغ والے مغرور شخص کا حال بھی بیان ہوچکا ہے جس پر بربادی آئی ، پھر اللہ نے ابلیس کے تکبر کا ذکر فرمایا مکہ والوں کے غرور کا حال بھی بیان ہوچکا ہے کہ وہ اہل ایمان کو حقیر سمجھتے تھے اور حضور ﷺ سے کہتے تھے کہ آپ ان لوگوں کو اپنی مجلس سے اٹھا دیں تو ہم آپ کی بات سننے کے لیے تیار ہیں ۔ آج کی آیات کو بھی اس موضوع کے ساتھ مناسبت ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے غرور وتکبر سے دور رہتے ہیں ، وہ تو اللہ کے سامنے ہمیشہ عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور مخلوق کے ساتھ بھی تواضع سے پیش آتے ہیں ہاں اگر کسی لغزش کی بناء پر اس ضمن میں کچھ کوتاہی ہوجائے تو پھر وہ اس کی تلافی کرلیتے ہیں ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ایک معمولی سی لغزش ہوگئی تھی جس سے کسی حد تک تکبر کی عکاسی ہوتی تھی تو اللہ نے اس پر فورا تنبیہ کردی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ابتلاء میں ڈال دیا ، موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا جو واقعہ ان آیات میں بیان ہو رہا ہے وہ بلاشبہ عجیب و غریب اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے اس واقعہ کو اصحاب کہف کے واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا (آیت) ” ام حسبت ان اصحب الکھف والرقیم کانوا من ایتنا عجبا “۔ (آیت ۔ 9) کیا آپ سمجھتے ہیں کہ صرف اصحاب کہف کا واقعہ ہی ہماری قدرت کی نشانیوں میں عجیب و غریب واقعہ ہے نہیں بلکہ اس جیسے بھی بہت سے واقعات کائنات میں رونما ہوچکے ہیں ، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا واقعہ بھی انہیں عجائبات قدرت میں سے ہے گویا اس واقعہ کا تعلق مذکورہ بالا آیت کے ساتھ بھی ہے ۔ (واقعہ کا پس منظر) اس واقعہ کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کسی موقع پر اپنی قوم سے خطاب کر رہے تھے کہ کسی شخص نے سوال کیا کہ کیا اس وقت روئے زمین پر آپ سے کوئی بڑا عالم بھی موجود ہے ؟ آپ نے نفی میں جواب دیا ، اگرچہ یہ جواب صحیح تھا ، موسیٰ (علیہ السلام) اپنے دور میں اللہ کے سب سے بڑے نبی اور صاحب کتاب رسول تھے اور اس لحاظ سے آپ اس وقت کے سب سے بڑے عالم بھی تھے کہ شریعت کا علم آپ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا ، تاہم اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ اس کا نبی اپنی زبان سے اپنے آپ کو سب سے زیادہ عالم تصور کرے ، اس شخص کے سوال کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) کو چاہئے تھا کہ وہ معاملے کو اللہ کی طرف سونپتے ہوئے کہتے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ سب سے زیادہ عالم کون ہے ، چناچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! ہمارے بندوں میں ایک بندہ ایسا بھی ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے آپ پریشان ہوگئے اور اللہ سے عرض کیا ، اے پروردگار ! , (آیت) ” کیف السبیل الی لقیہ “۔ میں اس بندے سے کیسے ملاقات کروں تاکہ اس سے فیض حاصل کرسکوں ، تو اللہ نے فرمایا کہ فلاں سفر پر روانہ ہوجاؤ ، توشہ کے طور پر ایک بھونی ہوئی مچھلی لے لو ، جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے گی ، ہمارا بندہ تمہیں اسی جگہ مل جائے گا ۔ امام بیضاوی (رح) نے لکھا ہے کہ بعض روایات میں اس واقعہ کا پس منظر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے خود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا اے مولا کریم ! ” ای عبادک احب الیک “۔ تیرے بندوں میں سے تجھے کون سا بندہ زیادہ محبوب ہے تو اللہ نے فرمایا ” الذی یذ کرنی ولا انسنی “۔ میرا محبوب بندہ وہ ہے جو میرا ذکر کرتا ہے اور مجھے کسی وقت فراموش نہیں کرتا ، موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر عرض کیا ، اے پروردگار ” ای عبادک اقضی “۔ تیرے بندوں میں سے سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہے ؟ اللہ نے فرمایا ” الذی یقضی ولا یتبع الھوی “۔ جو فیصلہ کرتا ہے مگر خواہش کی پیروی نہیں کرتا ، ایسا جج جو رشوت کی بجائے حق و انصاف کے مطابق فیصلہ کرتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے تیسرا سوال یہ کیا اے پروردگار ! تیرے بندوں میں زیادہ علم والا کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” الذی یبتغی علم الناس الی علمہ “۔ یعنی وہ شخص جو لوگوں سے علم حاصل کرکے اپنے پاس موجود علم کے ساتھ ملا لیتا ہے تاکہ بوقت ضرورت وہ اس مجموعی علم سے مستفید ہو سکے اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس اہل علم بندے سے ملاقات کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذریعہ یہ بتایا جو اس واقعہ میں بیان ہوا ہے بخاری اور مسلم کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) تم فلاں سفر پر روانہ ہوجاؤ اور اپنے ساتھ ایک تلی ہوئی مچھلی توشے کے طور پر لے لو ، جس مقام پر یہ مچھلی گم ہوجائے گی ، اسی جگہ پر تمہیں میرا وہ بندہ مل جائے گا جس کے علم کا تذکرہ ہوا ہے ۔ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نوجوان) اپنے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک نوجوان کا انتخاب کیا جو آپ کا ہم سفر ہو اور دوران سفر آپ کی خدمت کرسکے اس نوجوان کا نام یوشع بن نون تھا آپ موسیٰ (علیہ السلام) کے شاگرد تھے آپ کو اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں ہی نبوت عطا فرمائی پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد آپ ان کے جانشین ہوئے بنی اسرائیل نے آپ کی قیادت میں جہاد کرکے فلسطین کو فتح کیا آپ افراہیم بن یوسف (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام تو نہیں لیا بلکہ فتی کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا عام فہم معنی نوجوان ہے ، اس لفظ کا اطلاق غلام اور لونڈی پر بھی ہوتا ہے جو کہ خدمت کے لیے ہوتے ہیں اور اگر یہ نوجوان بھی ہوں تو حق خدمت زیادہ بہتر طریقے سے انجام سکتے ہیں ۔ (مجمع البحرین کا سفر) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے سفر کے واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے (آیت) ” واذ قال موسیٰ لفتہ “ اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے نوجوان یعنی حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) سے کہا (آیت) ” لا ابرح حتی ابلغ مجمع البحرین “۔ میں نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے سنگھم پر پہنچ جاؤں ، جہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے سے ملاقات کی نشاندہی کی ہے میں وہاں ضرور جاؤنگا (آیت) ” اوامضی حقبا “۔ خواہ مجھے مدت دراز تک چلنا پڑے حقب لمبے زمانے کو کہتے ہیں ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ایک حقب اسی (80) سال کا ہوتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی مراد یہی تھی کہ مجھے کتنا لمبا سفر اختیار کرنا پڑے گا یا کتنی مدت تک چلنا پڑے ، میں اس اللہ کے بندے سے ضرور ملاقات کروں گا۔ دودریاؤں کے ملنے کی جگہ کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے بعض مفسرین نے اسے بحرروم اور بحرفارس پر محمول کیا ہے مگر اس روایت میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہ دو سمندر تو آپس میں ملتے ہی نہیں کیونکہ ان کے درمیان خشکی حائل ہے ، چونکہ یہ دونوں قریب قریب ہیں ، اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس قربت کو ملاپ سے تعمیر کیا گیا ہو بعض مفسرین نے بحرین سے بحر قلزم اور اردن کا دریا مراد لیا ہے بعض کہتے ہیں کہ دو دریاؤں سے مراد میٹھا اور کڑوا پانی ہے اور جہاں پر یہ دونوں قسم کے پانی ملتے ہیں ، وہی مجمع البحرین ہے بعض حضرات نے اس کا مجازی معنی پہنائے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ بحریف سے مراد حقیقی دریا یا سمندر نہیں بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) ظاہری علم یعنی شریعت اور احکام الہی کے سمندر ہیں اور خضر (علیہ السلام) باطنی علم کے سمندر ہیں ، یہ دونوں حضرات جس مقام پر بھی ملیں کے وہی مجمع البحرین ہے آگے ذکر آئے گا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کی ملاقات ہوگئی تو خضر (علیہ السلام) نے فرمایا ، اے موسیٰ (علیہ السلام) اللہ نے تجھے وہ علم دیا ہے جسے میں نہیں جانتا ہوں اور مجھے اس علم سے نوازا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے ، بہرحال اس واقعہ سے علم کی فضیلت بھی واضح ہوتی ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کا استقلال بھی ، انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے تازیست لمبے سفر پر روانہ ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا ، اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سفر میں توشہ ساتھ رکھنا خلاف توکل نہیں بلکہ سنت انبیاء ہے نیز سفر میں اپنے شاگرد یا خادم کو خدمت کے لیے ساتھ رکھنا بھی جائز ہے ۔ (علمی سفر) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ سفر ” رحلۃ العلمیۃ “ یعنی علمی سفر تھا کیونکہ اپنے سے زیادہ عالم شخص سے اکتساب فیض کے لیے ملاقات کرنا چاہتے تھے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ” من سلک طریقا یطلب العلم فیہ سلک اللہ بہ طریق الجنۃ “ جو شخص حصول علم کی خاطر کسی راستے پر چلتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ جو لوگ خلوص نیت کے ساتھ علم دین حاصل کرنے کے لیے نکلتے ہیں ، ” ان الملئکۃ لتضع اجنحتھا “۔ اللہ کے فرشتے ان کے پاؤں کے نیچے پر بچھاتے ہیں ، تاریخ اسلام میں ایسے ایسے محدثین اور بزرگان کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے حصول علم کی خاطر چالیس چالیس ہزار میل کا سفر طے کیا ، یہ اس قدیم زمانے کا ذکر ہے جب اونٹ گھوڑے یا خچر وغیرہ کے علاوہ کوئی سواری میسر نہ ہوتی تھی بلکہ لوگ تو پاپیادہ ہی سفر کرتے تھے ، اس زمانے میں آج کی سہولتوں کی وجہ سے ایک گھرانے کی طرح سمٹ چکی ہے کراچی سے صرف اڑھائی گھنٹے میں جدہ اور چوبیس گھنٹے میں امریکہ پہنچ جاتے ہیں ، اب تو افریقہ کا ناقابل عبور وسیع و عریض صحرا بھی پانچ دس گھنٹوں میں عبور کرلیا جاتا ہے پرانے زمانے میں سفر کرنا جان جوکھوں کا کام تھا اس کے باوجود ہمارے بزرگوں نے بڑے طویل سفر اختیار کئے ، امام احمد (رح) عبدالرزاق (رح) ابن ھمام (رح) امام بخاری (رح) ، امام مسلم (رح) ، ابن ماجہ (رح) ، وغیرہم اس زمانے کے تمام متمدن شہروں میں حصول علم کے لیے پہنچے اور بہت سے اساتذہ سے فیض حاصل کیا ، کہتے ہیں کہ امام بخاری (رح) نے اٹھارہ سو اساتذہ سے علم حاصل کیا ، اسی طرح امام ابوحنیفہ (رح) نے کم وبیش چار ہزار اساتذہ سے فیض حاصل کیا جن میں بڑی بڑی جلیل القدر ہستیوں کے نام آتے ہیں ۔ (مچھلی کا واقعہ) بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) اپنے خادم حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوگئے ، (آیت) ” فلما بلغا مجمع بینھما “۔ پھر جب وہ دو دریاؤں کے ملاپ کی جگہ پر پہنچے (آیت) ” نسیا حوتھما “۔ تو وہ دونوں اپنی اس مچھلی کو بھول گئے جو انہوں نے بھون کر توشہ کے طور پر تھیلے میں رکھی ہوئی تھی ، یہاں پر بھولنے کی نسبت دونوں کیطرف کی گئی ہے حالانکہ مچھلی کے واقعہ کو صرف یوشع (علیہ السلام) ہی بھول گئے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ابھی اس واقعہ کا علم ہی نہیں تھا ، ہوا یہ کہ دونوں ساتھی ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ چلتے رہے حتی کہ انہوں نے ایک بڑے پتھر یا چٹان کے قریب تھوڑی دیر کے لیے آرام کیا ، یوشع (علیہ السلام) تو وہیں بیٹھے رہے البتہ موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بعض روایات میں آتا ہے کہ سو گئے اور بعض میں آتا ہے کہ قضائے حاجت کے لیے ذرا دور چلے گئے اس دوران میں یہ واقعہ پیش آیا کہ تھیلے میں بند بھنی ہوئی مچھلی نے (آیت) ” فاتخذ سبیلہ فی البحر سربا “۔ اپنا راستہ سمندر میں سرنگ کی صورت میں بنا لیا ، یعنی وہ مچھلی تھیلے سے نکل کر سمندر میں کود گئی اور جس جگہ سے پانی میں داخل ہوئی وہ جگہ سوراخ یا سرنگ کی شکل میں واضح طور پر نظر آرہی تھی ۔ وہ تلی ہوئی مچھلی زندہ کیسے ہوگئی ؟ اس کے متعلق قرآن پاک کی کسی آیت یا حضور ﷺ کے فرمان سے کچھ ثابت نہیں ، البتہ امام بخاری (رح) نے امام سفیان ثوری (رح) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جس پتھر کے قریب ان دو ساتھیوں نے آرام کیا تھا ، وہاں آب حیات کا چشمہ تھا اس چشمہ کے متعلق مشہور ہے کہ جو شخص اس چشمہ کا پانی پی لے اسے حیات جاودانی حاصل ہوجاتی ہے ، پھر یہ بھی مشہور ہے کہ سکندر یہ پانی نہ پی سکا ، مگر حضرت خضر (علیہ السلام) کی قسمت میں تھا ، انہیں نصیب ہوگیا ، بہرحال اس چشمے کے پانی کا کوئی چھینٹا اس تلی ہوئی مچھلی پر پڑگیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کردیا اور وہ تھیلے میں سے کود کر سمندر میں چلی گئی ۔ یہ سارا واقعہ یوشع (علیہ السلام) کے سامنے پیش آیا مگر جب کچھ دیر آرام کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے یا وہ قضائے حاجت سے واپس آئے تو انہوں نے خادم کو کہا کہ چلو اپنا سفر دوبارہ شروع کردیں یہ وہ موقع تھا جب یوشع (علیہ السلام) کو چاہئے تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو بتا دیتے کہ کھانے کے لیے رکھی ہوئی مچھلی سمندر میں کود گئی ہے ، مگر وہ بھول گئے اور دونوں ساتھی ایک دفعہ پھر سفر پر روانہ ہوگئے ۔ (کھانا طلبی) فرمایا (آیت) ” فلما جاوزا “۔ جب وہ آگے بڑھے (آیت) ” قال لفتہ “۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے نوجوان سے کہ ا (آیت) ” اتنا غدآء نا “۔ ہمارا کھانا لاؤ کہ بھول لگ رہی ہے (آیت) ” لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا “۔ تحقیق ہم نے اس سفر میں بڑی مشقت اٹھائی ہے ہم تھک چکے ہیں آؤ ناشتہ کرلیں ، اس موقع پر بزرگان دین نے یہ کلام کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو وہاں تو آپ کو تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی تھی مگر اس سفر میں آپ نے تھکاوٹ کی شکایت کی ، اس کے جواب میں بزرگ فرماتے ہیں کہ کوہ طور کا سفر خالق کی طرف تھا اس لیے آپ نے وہاں تھکاوٹ محسوس نہیں کی جب کہ یہ سفر مخلوق کی طرف تھا اللہ کے خاص بندے سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے اس لیے یہاں تھکاوٹ محسوس ہوئی ۔ بہرحال جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کھانا طلب کیا تو اس وقت خادم کو یاد آیا کہ کھانے کی مچھلی تو سمندر میں کود گئی تھی چناچہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جواب دیا (آیت) ” قال ارء یت اذ اوینا الی الصخرۃ فانی نسیت الحوت “۔ حضرت دیکھئے ، ! جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں آپ کو مچھلی والی بات بتانا بھول گیا کہ وہ زندہ ہو کر پانی میں چلی گئی تھی پھر ساتھ ہی اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا (آیت) ” وما انسنیہ الا الشیطن ان اذکرہ “۔ دراصل مچھلی کا ذکر کرنا مجھے شیطان نے بھلا دیا اور میں وہاں آپ کو یہ بات نہ بتا سکا ۔ اس آیت میں اس واقعہ کو بھلا دینے کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے حالانکہ حقیقت میں تو اللہ ہی نے بھلا دیا تھا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی اکثر وبیشتر باتیں شیطان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر دوران نماز نکسیر پھوٹ پڑے یا عورت کو حیض شروع ہوجائے تو یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے حالانکہ نکسیر کا پھوٹنا تو کسی جسمانی بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے اور حیض بھی ایک طبعی امر ہے جو وقفے وقفے سے آتا رہتا ہے ، مگر اسے بھی شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے غرضیکہ جب بھی کسی مومن کے امر خیر میں خلل واقع ہوتا ہے تو اسے شیطان ہی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لہذا یہاں پر مچھلی کے واقعہ کے نسیان کی نسبت شیطان ہی کی طرف کی گئی ہے اسی لیے فرمایا کہ مجھے شیطان نے مچھلی کا ذکر کرنا بھلا دیا ، (آیت) ” واتخذ سبیلہ فی البحر ، عجبا “۔ بات یہ ہے کہ مچھلی نے اپنا راستہ سمندر میں بنا لیا اور ہے یہ بڑی عجیب بات کہ تلی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں کود گئی ۔ قال : موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا (آیت) ” ذلک ما کنا نبغ “۔ اللہ کے بندے ! یہی تو وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم تھے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے سے ملاقات کے لیے یہی تو نشانی بتلائی تھی کہ جس مقام پر جا کر مچھلی گم ہوجائے گی ، میرے بندے سے تمہاری وہیں ملاقات ہوگی ، فرمایا ہمیں تو وہیں چٹان کے پر رک جانا چاہئے تھا ، ہم خواہ مخواہ آگے نکل آئے ، بہرحال (آیت) ” فارتدا علی اثارھما قصصا “۔ دونوں ہم سفر اپنے پاؤں کے نشانات پر چلتے ہوئے واپس اسی جگہ پر پلٹ آئے نامعلوم وہ کتنا زائد سفر کرچکے تھے جہاں سے انہیں پھر واپس آنا پڑا ، آگے اس مقام پر اللہ کے بندے خضر (علیہ السلام) کی ملاقات کا ذکر آرہا ہے ۔
Top