Mutaliya-e-Quran - Al-Faatiha : 5
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں
[ اِیَّاکَ : صرف تیری ہی ][ نَعْبُدُ : ہم تیری عبادت کرتے ہیں ][ وَاِیَّاکَ : اور صرف تجھ سے ہی ][ نَسْتَعِیْنُ : ہم مدد مانگتے ہیں ] ع ب د عَبَدَیَعْبُدُ (ن) عِبَادَۃً : احسان مندی کے احساس کے ساتھ محسن کی مکمل اطاعت کرنا ‘ غلامی کرنا ‘ بندگی کرنا۔ عَبْدٌ جمع عِبَادٌ اور عَبِیْدٌ : جس کی کوئی چیز اپنی نہ ہو ‘ جس کی زندگی ‘ خواہش ‘ غرضیکہ ہر چیز اس کے آقا کی ملکیت ہو ‘ غلام ‘ بندہ۔ عِبَادَۃً : غلامی ‘ بندگی۔ { وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا } (الکہف :110) ” اور اسے چاہیے کہ وہ شریک نہ کرے اپنے رب کی غلامی میں کسی ایک کو بھی۔ “ ع و ن عَوَنَ یَعُوْنُ (ن) عَوْنًا : پشت پناہ ہونا ‘ درمیان میں ہونا۔ اَعْوَنَ یَعْوَنُ (افعال) اِعَانَۃً : پشت پناہی کرنا ‘ مدد کرنا۔ { فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّۃٍ } (الکہف :95) ” پس میری مدد کرو قوت سے۔ “ تَعَاوَنَ یَتَعَاوَنُ (تفاعل) تَعَاوُنًا : ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ { وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی } (المائدۃ :2) ” باہم مدد کرو نیکی اور تقویٰ پر۔ “ اِسْتَعْوَنَ یَسْتَعْوِنُ (استفعال) اِسْتِعَانَۃً : مدد مانگنا ‘ مددچاہنا۔ مُسْتَعَانٌ (اسم المفعول) : جس کی مدد چاہی جائے۔{ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ } (یوسف :18) ” اور اللہ ہی مدد چاہے جانے والا ہے اس پر جو تم لوگ بناتے ہو۔ “ عَوَانٌ : درمیان ‘ ادھیڑ عمر۔ { اِنَّھَا بَقَرَۃٌ لاَّ فَارِضٌ وَّلَا بِکْرٌ عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِکَ } (البقرۃ :68) ” بیشک وہ ایک گائے ہے نہ بوڑھی ہے اور نہ کنواری ہے ‘ ادھیڑ عمر ہے ان کے مابین۔ “ اِیًّـا : یہ کلمہ ضمائر منصوبہ متصلہ یعنی ضمیر مفعولی کو منفصل لکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور بالعموم حصر کا مفہوم پیدا کرتا ہے مثلاً ضَرَبْتُہٗ ۔ اس میں ضمیر مفعولی فعل کے ساتھ ملا کر یعنی متصل لکھی ہے اور اس کے معنی ہیں ” میں نے اس کو مارا “۔ اس میں کسی اور کو مارنے کی نفی نہیں ہے۔ اب اگر ہم کہیں ضربت ایاہ تو اس کے معنی ہیں ” میں نے اس کو ہی مارا “۔ اس میں کسی اور کو مارنے کی نفی شامل ہے۔ اس کو حصر کا مفہوم کہتے ہیں۔ اب اگر ہم کہیں اِیَّاہُ ضَرَبْتُ تو معنی وہی رہیں گے البتہ حصر میں مزید زور اور تاکید پیدا ہوجائے گی جیسے He Must Come میں جب مزید زور پیدا کرنا ہو تو ہم کہتے ہیں ComeHeMust !۔ اب یہ نوٹ کرلیں کہ بات سمجھانے کی غرض سے ہم نے صرف ضَرَبْتُ اِیَّاہُ استعمال کیا ہے ورنہ عربی میں اس کا رواج نہیں ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ ضمیر مفعولی جب اِیَّاکے ذریعہ منفصل کی جائے گی تو وہ فعل سے پہلے آئے گی۔ یعنی اِیَّاہُ ضَرَبْتُ کہا جائے گا ۔ مثلاً { وَاشْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ۔ }(النحل)” اور تم لوگ شکر کرو اللہ کی نعمت کا اگر تم لوگ صرف اور صرف اس کی ہی عبادت کرتے ہو۔ “ اس قاعدہ کے دواستثناء ہیں۔ پہلا استثناء یہ ہے کہ کسی فعل کے بعد اگر اِلاَّ آئے تو اِیَّا اور ضمیر مفعولی فعل کے بعد آسکتی ہے جیسے { وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیَّاہُ }(بنی اسرائیل :23) ” اور فیصلہ کردیا تیرے رب نے کہ تم لوگ عبادت مت کرو مگر صرف اس کی ہی۔ “ نوٹ کرلیں کہ ایسی صورت میں حصرکا مفہوم اِیَّاکی وجہ سے نہیں بلکہ جملہ کی ساخت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ دوسرا استثناء یہ ہے کہ کسی فعل کے بعد اگر دو ضمیر مفعولی لانا ہو تو ان کے درمیان اِیَّا لگاتے ہیں۔ یعنی ضَرَبْتُ ھُمْ وَکُمْکہنا درست نہیں ہے۔ بلکہ ضَرَبْتُھُمْ وَاِیَّاکُمْ کہا جائے گا۔ جیسے { نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِیَّاکُمْ } (بنی اسرائیل :31)” ہم رزق دیتے ہیں ان کو اور تم کو بھی “ ۔ ایسی صورت میں بھی اِیَّا میں حصر کا مفہوم باقی نہیں رہتا۔ عبادت : عبادت میں بنیادی مفہوم اطاعت کا ہے لیکن اطاعت کبھی جزوی بھی ہوتی ہے اور کبھی بادل نخواستہ بھی ہوتی ہے۔ ایسی اطاعت ‘ عبادت نہیں کہلائے گی۔ جب کسی کے احسانات کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی محبت میں ڈوب کر اطاعت کی جائے اور زندگی کے ہر معاملہ اور ہر لمحہ میں کی جائے تو ایسی اطاعت ‘ عبادت کہلاتی ہے۔ نوٹ (1) : یہ ہم پڑھ چکے ہیں کہ اس آیت میں حصر کا مفہوم ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کی نفی شامل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ والدین ‘ اساتذہ ‘ افسران ‘ حکام وغیرہ کی اطاعت نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی تمام اطاعتیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرہ کے اندر اندر ہوں گی۔ نوٹ (2) : اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اسباب و علل (Cause and effect) کا جو نظام تخلیق کیا ہے اس کے تحت ایک دوسرے کی مدد کرنا اور ایک دوسرے سے مدد مانگنا مطلوب بھی ہے اور محمود بھی ہے۔ البتہ اس نظام کے باہر غیب میں مدد اللہ کے علاوہ کسی اور سے نہیں مانگی جائے گی۔
Top