Al-Qurtubi - An-Nisaa : 12
وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ١ۚ فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ۙ غَیْرَ مُضَآرٍّ١ۚ وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌؕ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے نِصْفُ : آدھا مَا تَرَكَ : جو چھوڑ مریں اَزْوَاجُكُمْ : تمہاری بیبیاں اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّھُنَّ : ان کی وَلَدٌ : کچھ اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو لَھُنَّ وَلَدٌ : ان کی اولاد فَلَكُمُ : تو تمہارے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا تَرَكْنَ : اس میں سے جو وہ چھوڑیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْنَ : وہ وصیت کرجائیں بِھَآ : اس کی اَوْ دَيْنٍ : یا قرض وَلَھُنَّ : اور ان کے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا : اس میں سے جو تَرَكْتُمْ : تم چھوڑ جاؤ اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّكُمْ وَلَدٌ : تمہاری اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَكُمْ : ہو تمہاری وَلَدٌ : اولاد فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے الثُّمُنُ : آٹھواں مِمَّا تَرَكْتُمْ : اس سے جو تم چھوڑ جاؤ مِّنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت تُوْصُوْنَ : تم وصیت کرو بِھَآ : اس کی اَوْ : یا دَيْنٍ : قرض وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو رَجُلٌ : ایسا مرد يُّوْرَثُ : میراث ہو كَلٰلَةً : جس کا باپ بیٹا نہ ہو اَوِ امْرَاَةٌ : یا عورت وَّلَهٗٓ : اور اس اَخٌ : بھائی اَوْ اُخْتٌ : یا بہن فَلِكُلِّ : تو تمام کے لیے وَاحِدٍ مِّنْهُمَا : ان میں سے ہر ایک السُّدُسُ : چھٹا فَاِنْ : پرھ اگر كَانُوْٓا : ہوں اَكْثَرَ : زیادہ مِنْ ذٰلِكَ : اس سے (ایک سے) فَھُمْ : تو وہ سب شُرَكَآءُ : شریک فِي الثُّلُثِ : تہائی میں (1/3) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصٰى بِھَآ : جس کی وصیت کی جائے اَوْ دَيْنٍ : یا قرض غَيْرَ مُضَآرٍّ : نقصان نہ پہنچانا وَصِيَّةً : حکم مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَلِيْمٌ : حلم والا
اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں، اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو ان کے ذمہ ہو کی جائے گی) اور جو مال تم مرد چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے بعد تقسیم کیے جائیں گے اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس کے بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ۔ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی) ادائے وصیت و قرض بعد کے بشرطیکہ انسے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کیے جائیں گے) یہ خدا کا فرمان ہے اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے۔
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان یکن غنیا او فقیرا فاللہ اولی بھما “۔ (النساء : 135) اور ” اولی بھما “۔ جائز ہے، یہ فراء وغیرہ سے مروی ہے۔ اور امرأۃ کے لیے مراۃ بھی کہا جاتا ہے یہ اس کی اصل ہے اخ کی اصل اخو ہے اس پر دلیل اخوان ہے، اخ سے واؤ کو حذف کیا گیا اور بغیر قیاس کے اس میں یہ تبدیلی کی گئی، فراء نے کہا : اخت کے ہمزہ کو ضمہ دیا گیا ہے، کیونکہ اس سے واؤ کو حذف کیا گیا ہے اور بنت کے پہلے حرف کو کسرہ دیا گیا ہے، کیونکہ اس سے یاء حذف کی گئی ہے اور یہ حذف اور تعلیل غیر قیاسی ہے۔ مسئلہ نمبر : (30) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکآء فی الثلث “۔ یہ تشریک مذکر اور مؤنث کے درمیان برابری کا تقاضا کرتی ہے اگرچہ زیادہ بھی ہوں، جب وہ ماں کی وجہ سے حصہ پائیں گے تو مؤنث پر مذکر کو ترجیح نہ ہوگی، اس پر علماء کا اجماع ہے اور فرائض میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں مذکر اور مؤنث برابر ہوں مگر ماں کی طرف سے بھائیوں کی میں یہ برابر ہوتے ہیں، جب کہ کوئی عورت فوت ہوجائے اور اپنا خاوند، ماں اور ماں کی طرف سے بھائی چھوڑ جائے تو خاوند کو نصف حصہ ملے گا، ماں کو 3؍1 حـصہ ملے گا اور 6؍1 حصہ ماں کی طرف سے بھائی کو ملے گا، اور اگر دو بھائی اور دو بہنیں چھوڑے تو مسئلہ پھر بھی اسی طرح ہوگا خاوند کے لیے 2؍1 ماں کے لیے 6؍1 اور بھائیوں اور بہنوں کے لیے 3؍1 حصہ ہوگا۔ اس طرح فریضہ مکمل ہوگیا، اسی پر عام صحابہ کا مسلک ہے، کیونکہ انہوں نے ماں کو بھائی اور بہن کی وجہ سے ثلث سے سدس کی طرف محجوب کردیا ہے، لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے عول کا اعتبار نہیں کیا، اگر ماں کے لیے 3؍1 ہوں تو مسئلہ میں عول ہوگا وہ عول کا نظریہ نہیں رکھتے، عول کی وضاحت دوسرے مقام پر آئے گی یہ اس کا مقام نہیں ہے، اگر عورت اپنے خاوند، ماں کی طرف سے بہت سے بھائی اور سگا ایک بھائی چھوڑ کر جائے تو خاوند کے لیے 2؍1 حصہ ہوگا ماں کی طرف سے بھائیوں کو 3؍1 حصہ ملے گا اور باقی بھائیوں کے لیے ہوگا، اسی طرح جس کے لیے مقررہ حصہ ہوگا وہ اسے دیا جائے گا اور باقی اگر بچے گا تو عصبہ کے لیے ہوگا، اگر عورت چھ متفرق بھائی چھوڑ جائے تو یہ مسئلہ حماریہ ہے اسے مشترکۃ بھی کہا جاتا ہے، ایک قوم نے کہا : ماں کی طرف سے بھائیوں کے لیے 3؍1 ہے اور خاوند کے لیے 2؍1 ہے اور ماں کے لی 6؍1 ہے، سگے بھائی اور بہن اور باپ کی طرف سے بھائی اور بہن محروم ہوجائیں گے، حضرت علی ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابو موسیٰ ؓ ، شعبی، شریک اور یحی بن آدم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے یہی مروی ہے اور یہی قول امام احمد بن حنبل (رح) کا ہے اور ابن المنذر ؓ نے اس کو اختیار کیا ہے، کیونکہ خاوند، ماں اور ماں کی طرف سے بھائی اصحاب فرائض ہیں اور عصبہ کے لیے کچھ نہیں بچا ہے، ایک قوم نے کہا : ماں ایک ہے اور ان کا باپ گدھا تھا اور انہوں نے ان کے درمیان ثلث میں اشتراک کی ہے اسی وجہ سے اسے مشترکہ اور حماریہ مسئلہ کہتے ہیں، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت ابن مسعود، مسروق اور شریح رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے یہی مروی ہے، امام مالک، امام شافعی، اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم کا یہی قول ہے، یہ مسئلہ درست نہیں رہتا اگر میت مرد ہو، یہ علم الفرائض کے مسائل تھے جن کو یہ ِآیت متضمن تھی واللہ الموفق۔ زمانہ جاہلیت میں وراثت مرد ہونے اور قوت والا ہونے کی حیثیت سے جاری ہوتی تھی اور لوگ صرف مردوں کو وارث بناتے تھے عورتوں کو وارث نہیں بناتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” للرجال نصیب، وللنسآء نصیب “۔ کے ارشاد کے ساتھ اس باطل نظریہ کو ختم کردیا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ ورثاء زمانہ جاہلیت میں اسی طرح تھے اور اسلام کے آغاز میں حلیف ہونے کے اعتبار سے وارث ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “۔ اس کی وضاحت آگے آئے گی، حلیف ہونے کے بعد ہجرت کی وجہ سے ورثہ ملتا تھا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والذین امنوا ولم یھاجروا مالک من ولا یتھم من شیء حتی یھاجروا “۔ (الانفال : 72) اس کی تفصیل آئندہ آئے گی وہاں ذوی الارحام اور ان کی میراث کے متعلق قول آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور سورة النور میں ملاعنۃ کے لڑکے ولد الزنا (حرامی) اور مکاتب کی میراث کا ذکر توفیق الہی سے ہوگا، جمہور علماء فرماتے ہیں : وہ قیدی جس کی زندگی معلوم ہوا اس کی میراث ثابت ہے، کیونکہ وہ بھی ان مسلمانوں میں داخل ہے جن پر احکام اسلام جاری ہوتے ہیں اور سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ جو دشمن کے ہاتھ میں قیدی ہے وہ وارث نہیں ہے۔ اور مرتد کی میراث سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ والحمد للہ۔ مسئلہ نمبر : (31) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” غیر مضآر “۔ اس کو نصب حال کی بنا پر ہے اور اس کا عامل یوصی ہے ای یوصی بھا غیر مضار، یعنی ورثاء پر ضرر (نقصان) کو داخل کرنے والا نہ ہو یعنی اسے اپنے اوپر ایسے فرض کی وصیت کرنا مناسب نہیں جو اس پر نہیں ہے تاکہ ورثاء کو ضرر نہ ہو اور نہ قرض کا اقرار کرے۔ الاضرار کا تعلق وصیت اور دین سے (قرض) دے اگر وہ 3؍1 سے زائد کی وصیت کرے گا تو اسے لوٹایا جائے گا مگر یہ کہ ورثاء اسے جائز قرار دیں، کیونکہ زیادہ وصیت سے روکنا ورثاء کے حقوق کی وجہ سے ہے نہ کہ حق اللہ کی وجہ سے ہے، اگر وہ وارث کے لیے وصیت کرے گا تو وہ میراث کی طرف لوٹے گا، علماء کا اجماع ہے کہ وارث کے لیے وصیت جائز نہیں یہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، رہا اضرار کو قرض کی طرف لوٹانا تو وہ یہ ہے کہ وہ ایسی حالت میں قرض کا اقرار کرے جس میں اس کے لیے اقرار جائز نہیں ہے جیسا کہ اگر وہ مرض میں وراث کے لیے یا مہربان دوست کے لیے قرض کا اقرار کرے تو یہ ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے۔ حسن سے مروی ہے کہ انہوں نے غیر مضار وصیۃ من اللہ پڑھا ہے یعنی مضار کو وصیت کی طرف مضاف کرکے پڑھا ہے، نحاس نے کہا : بعض اہل لغت کا خیال ہے کہ یہ غلطی ہے، کیونکہ اسم فاعل مصدر کی طرف مضاف نہیں ہوتا اور حذف پر قرات بہتر ہے اور معنی یہ ہے غیر مضار ذی وصیۃ یعنی وہ وصیت کی وجہ سے اپنے ورثاء کو ان کی میراث میں نقصان دینے والا نہ ہو، علماء کا اجماع ہے کہ حالت مرض میں غیر وارث کے لیے قرض کا اقرار جائز ہے جبکہ صحت کی حالت میں اس پر قرض نہ ہو۔ مسئلہ نمبر : (32) اگر صحت کی حالت میں قرض اس پر دلیل سے ثابت ہو اور وہ اجنبی کے لیے قرض کا اقرار کرے تو ایک جماعت کا خیال ہے کہ صحت کے دین سے ادائیگی کا آغاز کیا جائے گا، یہ نخعی اور کو فیوں کا قول ہے، فرماتے ہیں : حالت صحت میں قرض دینے والا جب اپنا قرض وصول کرلے گا تو مرض میں جن لوگوں کے لیے اس نے قرض کا اقرار کیا ہے پھر وہ حصہ لیں گے ایک طائفہ نے کہا کہ حالت صحت میں قرض دینے والے اور حالت مرض میں جن کے لیے اس میت نے اقرار کیا ہے دونوں برابر ہوں گے جب کہ وہ اقرار غیر وارث کے لیے ہو، یہ امام شافعی، ابو ثور اور ابو عبید رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے، ابو عبید نے ذکر کیا ہے کہ یہ اہل مدینہ کا قول اور انہوں نے حسن سے یہ روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (33) سورة بقرہ میں وصیت میں اضرار کے بارے میں وعید اور اس کی وجوہ گزر چکی ہیں ابو داؤد نے شہر بن حوشب (اس پر طعن کیا گیا ہے) کی حدیث سے روایت کیا ہے شہر بن حوشب نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مرد یا عورت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا عمل ساٹھ سال کرتا رہتا ہے پھر ان پر موت آتی ہے تو وہ وصیت میں نقصان پہنچاتے ہیں تو ان کے لیے آگ ثابت ہوجاتی ہے (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الوصایا، باب ماجاء فی کراھیۃ الاضرار فی الوصیۃ حدیث نمبر 2483، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) فرمایا : حضرت ابوہریرہ ؓ نے مجھ پر یہ آیت ” من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین، غیرمضآر “۔ سے لے کر ” ذالک الفوز العظیم “۔ تک پڑھی، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وصیت میں اضرار، کبیرہ گناہوں میں سے ہے یہ انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے ورایت کیا ہے مگر امام مالک (رح) اور ابن القاسم (رح) کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کا فعل 3؍1 حصہ میں نقصان دینے والا شمار نہ ہوگا، کیونکہ تہائی میں تصرف کرنا اس کا حق ہے جیسے چاہے تصرف کرے، اور المذہب میں یہ قول ہے کہ نقصان کی صورت میں اسے لوٹایا جائے گا، وباللہ التوفیق۔ مسئلہ نمبر : (34) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وصیۃ “ اس کو حال کی حیثیت سے نصب دی گئی ہے، یہ مصدر ہے اس کا عامل (آیت) یوصیکم “ ہے۔ اس میں مضار کا عمل کرنا بھی صحیح ہے، مطلب یہ ہے کہ وصیت کے ساتھ ضرر واقع ہو یا اس کے سبب واقع ہو اس پر ضرر کا واقع مجازا ہے، یہ ابن عطیہ کا قول ہے۔ حسن بن ابی الحسن نے (آیت) ” غیر مضار وصیۃ “ کو اضافت کے ساتھ پڑھا ہے جیسے تو کہتا ہے : شجاع حرب وبضۃ المسجرد، یہ طرفہ بن العبد کے شعر میں استعمال ہوا ہے اور معنی کی صحت کی وجہ سے لفظ میں مجاز ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے پھر فرمایا (آیت) ” واللہ علیم حلیم “۔ یعنی اہل میراث کو جاننے والا ہے اور تم میں جاہل لوگوں کو جاننے والا ہے اور بعض متقدمین نے واللہ علیم حکیم “۔ پڑھا ہے یعنی میراث اور وصیت کی تقسیم کو پختہ کرنے والا ہے۔ مسئلہ نمبر : (35) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” تلک حدود اللہ “۔ تلک، ھذہ کے معنی میں ہے یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں جن کو اس نے تمہارے لیے بیان کیا ہے تاکہ تم ان کو پہچان لو اور ان کے مطابق عمل کرو، (آیت) ” ومن یطع اللہ ورسوالہ “ جو میراث کی تقسیم میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اور اس کا اقرار کرے گا اور ان کے مطابق عمل کرے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ حکم فرمایا : (آیت) ” یدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھر “ تجری، جنت کی نعت کی بنا پر منصوب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” من یعص اللہ ورسولہ “۔ یعنی جو میراث کی تقسیم نہیں کرتا اور ان پر عمل نہیں کرتا (آیت) ” ویتعد حدودہ “۔ اور اللہ تعالیٰ کے امر کی مخالفت کرتا ہے۔ (آیت) ” یدخلہ نارا خالدا فیھا “۔ اگر نافرمانی سے مراد کفر ہے تو آگ میں ہمیشہ رہنا اپنے مفہوم پر صحیح ہوگا، اگر اس سے مراد گناہ کبیرہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے اوامر سے تجاوز ہو تو ہمیشہ رہنا ایک مدت تک کے لیے ہوگا، جیسے تو کہتا ہے : خلد اللہ ملکہ (اللہ تعالیٰ اس کا مالک ہمیشہ رکھے) زہیر نے کہا : ولا خالدا الا الجبال الرواسیا “۔ (یعنی گاڑھے ہوئے پہاڑوں کے علاوہ کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں) یہ مفہوم بہت سے مقام پر گزر چکا ہے۔ نافع اور ابن عامر نے ندخلہ اور دونوں جگہ نون کے ساتھ پڑھا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف نسبت فرمائی ہے اور باقی علماء نے دونوں جگہ یا کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اسم پاک کا ذکر پہلے ہوچکا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اسے داخل کرے گا۔
Top