بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو ؟ کیا اس سے اپنی بیبیوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
آیت کریمہ کے نزول کا سبب مسئلہ نمبر 1 ۔ یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت زینب بنت حجش کے ہاں رکتے وہاں آپ ﷺ شہد نوش فرماتے (1) ۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا : میں اور حضرت حفصہ نے آپس میں اتفاق کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائیں تو وہ کہے : میں آپ ﷺ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں۔ آپ ﷺ نے مغافیر کھاتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ ان میں سے ایک کے پاس تشریف لے گئے تو اس زوجہ نے آپ ﷺ سے یہ بات کی۔ فرمایا : ” میں نے تو حضرت زینب بنت حجش کے پاس شہد پیا ہے، میں دوبارہ ایسے نہ کروں گا “ تو یہ آیات ان تتوبا تک نازل ہوئیں۔ ان تتوبا میں مراد حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ ہیں۔ واذا اسرالنبی الی بعض ازواجہ سے مراد ہے : میں نے شہد پیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے یہ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حلوہ اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے (2) ۔ جب آپ ﷺ عصر کی نماز ادا فرما لیتے تو اپنی ازواج مطہرات کے ہاں تشریف لے جاتے۔ ان کے قریب ہوتے۔ آپ حضرت حفصہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ اس سے زیادہ رک گئے جتنا آپ رکا کرتے تھے۔ میں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا : ان کی قوم کی ایک عورت نے شہد کی ایک کپی پیش کی ہے۔ حضرت حفصہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو شہد پلایا ہے۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم ضرور حیلہ کریں گی۔ میں نے اس کا ذکر حضرت سودہ سے کیا اور میں نے کہا : جب حضور ﷺ تیرے پاس تشریف لائیں۔ آپ ﷺ ضرور تیرے قریب تشریف لائیں گے تو آپ ﷺ سے عرض کرنا یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے مغافیر کھائے ہیں ؟ آپ ﷺ فرمائیں گے : نہیں۔ تو عرض کرنا : یہ بوسی کیسی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ بو سے سخت نفرت کرتے۔ آپ ﷺ فرمائیں گے : حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے۔ تو عرض کرنا : شہد کی مکھی نے عرفط کو چوسا ہوگا۔ میں بھی یہی بات عرض کروں گی، اے صفیہ ! تو بھی یہ بات کرنا۔ جب رسول اللہ ﷺ حضرت سودہ کے ہاں تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا : حضرت سودہ ؓ کہتی تھیں : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! جو بات تو نے مجھے کہی تھی میں اسے اس وقت ہی کرنے والی تھی جبکہ آپ ﷺ دروازے پر تھے۔ یہ صرف تیری ملامت کے ڈر کی وجہ سے تھا (مگر میں نے نہ کی) جب رسول اللہ ﷺ قریب تشریف لائے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے مغافیر کھائے ہیں ؟ فرمایا، ” نہیں “۔ عرض کی : یہ بوسی کیسی ہے ؟ فرمایا : ” حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے “۔ عرض کی : اس کی مکھی نے عرفط کو چوسا ہوگا۔ جب آپ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے بھی اسی کی مثل عرض کی۔ پھر آپ ﷺ حضرت صفیہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی اسی کی مثل بات کی۔ جب رسول اللہ ﷺ حضرت حفصہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔ عرض کی : یا رسول اللہ ! کیا میں آپ ﷺ کو شہد نہ پلائوں ؟ فرمایا : ” مجھے حاجت نہیں “۔ کہا : حضرت سودہ ؓ کہا کرتیں : سبحان اللہ ! ہم نے آپ ﷺ کو اس سے روک دیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا : میں نے حضرت سودہ کو کہا : چپ رہ۔ اس روایت میں ہے جس کے ہاں شہد پیا گیا وہ حضرت حفصہ ؓ تھیں۔ پہلی روایت میں ہے وہ حضرت زینب ؓ تھیں۔ ابن ابی ملیکہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے۔ وہ حضرت سودہ ؓ تھیں (1) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ حضرت سلمہ ؓ تھیں، اسے اسباط نے سدی سے روایت نقل کی ہے۔ یہ عطا بن ابی مسلم نے روایت کی ہے۔ ابن عربی نے کہا : یہ سب جہالت ہے اور علم کے بغیر تصورات ہیں (2) ۔ باقی عورتوں نے اس زوجہ سے حسد اور غیرت کی بنا پر کہا : ہم آپ ﷺ سے مغافیر کی بوسی پاتے ہیں۔ مغافیر سبزی ہے یا گوند ہے جس کی خوشبو بدل چکی ہو، اس میں مٹھاس ہوتی ہے۔ اس کی واحد مغفور ہے جرست یعنی اس نے کھایا۔ عرفط یہ ایک ایسی بوٹی ہے جس کی بو شراب کی بو جیسی ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ یہ پسند کرتے تھے کہ آپ سے عمدہ خوشبو پائی جائے یا آپ ﷺ اسے پائیں اور فرشتہ سے کلام کرنے کی وجہ سے بو کو ناپسند کرتے تھے، یہ ایک قول ہے۔ ایک دوسرا قول بھی ہے : مراد وہ عورت ہے جس نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ پر پیش کیا (3) ۔ حضور ﷺ نے ازواج مطہرات کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا، یہ حضرت ابن عباس اور عکرمہ کا قول ہے۔ تیسرا قول ہے : حضور ﷺ نے حضرت ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام کیا تھا جو مقوقس، شاہ سکندریہ نے آپ ﷺ کی خدمت میں بطور تحفہ بھیجی تھی۔ ابن اسحاق نے کہا : یہ انصنا ضلع کے ایک ایسے شہر سے تھی جسے حفن کہتے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ کے حجرہ میں ان کے ساتھ حقوق زوجیت ادا کئے تھے۔ دارقطنی نے حضرت ابن عباس سے انہوں نے حضرت عمر ؓ سے روایت نقل کی ہے (1) کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ام ولد حضرت ماریہ ؓ کو حضرت حفصہ ؓ کے گھر میں داخل کیا۔ حضرت حفصہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ان کے پاس پایا جبکہ حضرت حفصہ ؓ اپنے والد کے گھر جانے کی وجہ سے اپنے گھر میں موجود نہ تھیں۔ حضرت حفصہ ؓ نے عرض کی : آپ ﷺ ام ولد کو میرے گھر میں داخل کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی بیویوں میں سے صرف میرے ساتھ یہ سلوک اس لئے کیا ہے کیونکہ میں آپ پر کم مرتبہ محسوس ہوتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ سے فرمایا : ” یہ واقعہ حضرت عائشہ ؓ سے ذکر نہ کرنا اگر میں اس حضرت ماریہ کے قریب جائوں تو وہ مجھ پر حرام ہے “۔ حضرت حفصہ ؓ نے کہا : آپ ﷺ اسے اپنے اوپر کیسے حرام کرتے ہیں جبکہ وہ تو آپ ﷺ کی لونڈی ہے رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ کے سامنے قسم اٹھائی کہ وہ حضرت ماریہ کے قریب نہ جائیں گے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے ارشاد فرمایا۔ ” اس کا ذکر کسی سے بھی نہ کرنا “۔ حضرت حفصہ ؓ نے اس کا ذکر حضرت عائشہ ؓ سے کردیا۔ حضور ﷺ نے قسم اٹھا دی کہ آپ ﷺ ایک ماہ تک اپنی ازواج کے ہاں تشریف نہیں لے جائیں گے۔ آپ ﷺ ازواج مطہرات سے انتیس دن تک الگ تھلگ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت کریم کے نزول کے اسباب میں سے قوی اور صحیح سبب مسئلہ نمبر 2 ۔ ان اقوال میں سے زیادہ صحیح پہلا قول ہے۔ سب سے کمزدوردرمیانا ہے۔ ابن عربی نے کہا : سند میں ضعف اس لئے ہے کیونکہ اس کے راوی عادل نہیں (2) ۔ معنی میں ضعف اس لئے ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا موہوبہ چیز کا رد کرنا یہ اسے حرام قرار دینا نہیں کیونکہ جو چیز کسی کو ہبہ کی جائے اس کو رد کرنے سے وہ چیز اس پر حرام نہیں ہوجاتی۔ بیشک حقیقی حرمت تو حلت کے بعد ہوتی ہے۔ جہاں تک جو یہ روایت کی گئی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام کیا تو یہ روایت سند کے اعتبار سے سب سے اچھی ہے اور معنی کے اعتبار سے واقعہ کے زیادہ قریب ہے لیکن صحیح میں مذکور نہیں۔ اسے مرسل روایت کیا گیا ہے۔ ابن وہب نے روایت کی ہے (3) ، وہ امام مالک سے وہ حضرت زید بن اسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم کی والدہ حضرت ماریہ کو اپنے اوپر حرام قرار دیا۔ فرمایا : ” تو مجھ پر حرام ہے۔ اللہ کی قسم ! میں تیرے پاس نہیں آئوں گا “ تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی۔ اس کی مثل ابن قاسم نے روایت نقل کی ہے۔ اشہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ انصار سے تعلق رکھنے والی حضرت عمر ؓ کی بیوی نے آپ سے تکرار کیا تو حضرت عمر اس سے کا نپ گئے (4) ۔ فرمایا : بیویاں تو اس طرح نہیں ہوتی تھیں۔ بیوی نے کہا : کیوں نہیں جبکہ نبی کریم ﷺ کی ازواج آپ ﷺ سے تکرار کرتی ہیں آپ نے اپنا کپڑا لیا اور حضرت حفصہ کی طرف نکلے پوچھا : کیا تو رسول اللہ ﷺ سے تکرار کرتی ہے ؟ عرض کی : ہاں اگر میں جانتی کہ آپ اسے ناپسند کرتے ہیں تو میں ایسا نہ کرتی۔ جب حضرت عمر ؓ کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ فرمایا : حفصہ کی ناک خاک آلود ہو۔ صحیح یہ ہے کہ یہ واقعہ شہد کے بارے میں ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب ؓ کے ہاں پیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ نے اس مسئلہ میں ایک دوسرے کی مدد کی تو واقعہ ہوا جو ہوا رسول اللہ ﷺ نے قسم اٹھا دی کہ اسے نہ پئیں گے اور اسے مخفی رکھا۔ یہ آیت ان تمام کے بارے میں نازل ہوئی۔ مرد مطلقاً حرمت کا قول کرے تو اس کا اطلاق کس پر ہوگا ؟ مسئلہ نمبر 3 ۔ لم تحرم اگر نبی کریم ﷺ نیحرام کیا اور قسم نہ اٹھائی تو ہمارے نزدیک یہ قسم نہیں (1) مرد کا یہ قول : ھذا علی حرام بیوی کے سوا کسی چیز کو حرام نہیں کرتا۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : جب اس نے اسے مطلق ذکر کیا تو اس کا اطلاق کھانے اور پینے والی چیزوں پر ہوگا، لباس پر نہیں ہوگا۔ یہ قسم ہوئی اور کفارہ کو واجب کرے گی۔ امام زفر نے کہا : یہ تمام چیزوں میں قسم ہوگی یہاں تک کہ حرکت وغیرہ میں بھی قسم ہوگی (2) ۔ مخالف نے یہ استدلال کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شہد کو حرام کیا تو آپ ﷺ پر کفارہ لازم ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم (التحریم : 2) اللہ تعالیٰ نے اسے قسم قرار دیا ہے، ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : یایھا الذین امنوا لاتحرموا طیبت ما احل اللہ لکم ولا تعتدوا (المائدہ : 87) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : قل ارئیتم ما انزل اللہ لکم من رزق فجعلتم منہ حراما و حللا ط قل اللہ اذن لکم ام علی اللہ تفترون (یونس) اللہ تعالیٰ نے حلال چیز کو حرام قرار دینے پر مذمت کی ہے اس پر کفارہ کو واجب قرار نہیں دیا۔ زجاج نے کہا : کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ اس چیز کو حرام قرار دے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہو اور نبی کریم ﷺ کی یہ شان نہیں کہ کسی چیزکو حرام قرار دیں مگر اسے ہی حرام قرار دے سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہے جس نے اپنی بیوی یا لونڈی سے کہا : تو مجھ پر حرام ہے اور طلاق و ظہار کی نیت نہ کی۔ یہ لفظ کفارہ یمین کو واجب کرے گا۔ اگر اس نے اس لفظ کیساتھ بیویوں اور لونڈیوں کی ایک جماعت کو خطاب کیا تو اس پر ایک کفارہ ہوگا۔ اگر اس نے اپنی ذات پر کھانا یا کوئی اور چیز حرام کی تو امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک اس پر کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ حضرت ابن مسعود ؓ ، امام ثوری اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک کفارہ واجب ہوگا۔ مرد کا اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام قرار دینا مسئلہ نمبر 4 ۔ علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے کہ ایک مرد اپنی بیوی کو کہتا ہے : تو مجھ پر حرام ہے۔ اس بارے میں اٹھارہ اقوال ہیں۔ اس پر کچھ بھی لازم نہیں (1) اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہوگا (3) : امام شعبی، مسروق، ربیعہ، ابو مسلم اور اصبغ نے یہی کہا ہے۔ یہ ان کے نزدیک پانی اور کھانے کو حرام کرنے کی طرف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : یایھا الذین امنوا لا تحرموا طیبت ما احل اللہ لکم (المائدہ : 87) بیوی پاکیزہ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ولا تقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھذا حلل وھذا حرام (النحل : 116) جسے اللہ تعالیٰ حرام قرار نہ دے کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ اسے حرام قرار دے، نہ اس بندے کے حرام قرار دینے سے وہ حرام ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے فرمایا ہو ما احلہ اللہ ھو علی حراما اللہ تعالیٰ نے جو چیز مجھ پر حلال کی ہے وہ مجھ پر حرام ہے۔ نبی کریم ﷺ حضرت ماریہ سے رک گئے اس قسم کیوجہ سے جو آپ سے واقع ہوئی۔ وہ یہ تھی واللہ لا اقربھا بعد البوم آج کے بعد میں اس کے قریب نہیں جائوں گا۔ آپ ﷺ سے فرمایا گیا : اللہ تعالیٰ نے جو چیز آپ کے لئے حلال کی ہے اس سے قسم کی وجہ سے کیوں رکتے ہیں۔ یعنی اس کے پاس جائیے اور کفارہ ادا کیجئے۔ (2) یہ قسم ہے وہ کفارہ ادا کرے، یہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور امام اوزاعی کا نقطہ نظر ہے۔ آیت کا مقتضا بھی یہی ہے۔ سعید بنی جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا : جب کوئی آدمی اپنی بیوی اپنے اوپر حرام کرے تو یہ قسم ہوگی وہ کفارہ ادا کرے (1) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ (الاحزاب : 21) نبی کریم ﷺ نے اپنی لونڈی کو اپنے اوپر حرام کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیم۔ قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم آپ نے اپنی قسم کا کفارہ دیا اور حرام کو قسم بنا دیا۔ دارقطنی نے اس کی تخریج کی ہے۔ اس میں کفارہ واجب ہوگا، یہ قسم نہیں (3) اس میں کفارہ واجب ہوگا (2) ، یہ قسم نہ ہوگی، یہ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ دو روایتوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔ امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک یہ ہے۔ اس قول میں نظر و فکر کی گنجائش ہے۔ آیت اس کا رد کرتی ہے۔ یہ ظہار ہے اس میں کفارہ نہیں (4) یہ ظہار ہے اس میں کفار ظہار ہے (3): یہ حضرت عثمان غنی، امام احمد بن حنبل اور اسحاق کا نقطہ نظر ہے۔ مرد کی نیت کو دیکھا جائے گا (5) اگر اس نے یہ قول کر کے ظہار کی نیت کی (4) ، وہ یہ نیت کرتا ہے وہ حرام ہے جس طرح اس کی ماں کی پیٹھ حرام ہے تو یہ ظہار ہوگا۔ اگر طلاق کے بغیر اس کی ذات کو اپنے اوپر حرام مطلق کیا تو کفارہ یمین واجب ہوگا۔ اگر کسی چیز کی نیت نہ کی تو اس پر کفارہ یمین ہوگا، یہ امام شافعی کا قول ہے۔ یہ طلاق رجعی ہے (6) یہ طلاق رجعی ہے ( 1): یہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ، زہری، عبد العزیز بن ابی سلمہ اور ابن ماجشون کا قول ہے۔ یہ طلاق بائنہ ہے (7) یہ طلاق بائنہ ہے (2): یہ حماد بن ابی سلیمان اور حضرت زید بن ثابت کا قول ہے۔ اسے ابن خویز منداد نے امام مالک سے نقل کیا ہے۔ یہ طلاق مغلظہ ہے (8) یہ تین طلاقیں ہیں (3) ، یہ حضرت علی بن ابی طالب، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول ہے۔ مدخول بہا اور غیر مدخول بہا کے بارے میں حکم مختلف ہے (9) جس بیوی کے ساتھ حقوق زوجیت ادا کئے ہوتے ہوں اس کو تین طلاقیں ہوجائیں گی (4) اور جس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہیں کئے۔ اس میں نیت کرے گا : یہ حضرت حسن بصری، علی بن زید اور حکم کا قول ہے۔ یہ امام مالک کا مشہور مذہب ہے۔ ہر حال میں یہ طلاق مغلظہ ہے (10) یہ تین طلاقیں ہوں گی کسی حال میں بھی نیت نہ کرے اور کسی محل میں نیت نہ کرے (5) ۔ اگرچہ اس نے حقوق زوجیت ادا نہ کئے ہوں، یہ عبد المالک کا قول ہے جو مبسوط میں ہے۔ ابن ابی لیلی نے یہی کہا ہے۔ مدخول بہا کو تین جب کہ غیر مدخول بہا کو ایک طلاق ہو گی (11) جس سے دخول نہیں کیا اس میں ایک طلاق ہے (6) اور جس کے ساتھ دخول کیا ہوا ہے اس کو تین طلاقیں ہیں، یہ ابو مصعب اور محمد بن عبد الحکم کا قول ہے۔ احناف کا نقطہ نظر (12) اگر اس نے طلاق کی نیت کی یا ظہار کی نیت کی تو وہ واقع ہوگا جو اس نے نیت کی (7) ۔ اگر طلاق کی نیت کی تو ایک بائنہ ہوگی مگر اس صورت میں تین واقع ہوجائیں گی جب وہ تین کی نیت کرے۔ اگر دو کی نیت کرے تو ایک واقع ہوگی۔ اگر کوئی نیت نہ کی تو وہ قسم ہوگی۔ مرد اپنی بیوی سے ایلاء کرنے والا ہوگا۔ یہ امام ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب کا نقطہ نظر ہے۔ اس کی مثل امام زفر کا قول ہے مگر فرمایا : جب وہ دو کی نیت کرے تو ہم اسے لازم کردیں گے۔ ابن قاسم کا نقطہ نظر (13) ظہار کی نیت اسے کوئی نفع نہ دے گی (8) ۔ یہ طلاق ہوگی، یہ ابن قاسم کا قول ہے۔ یحییٰ بن عمر کا نقطہ نظر (14) یحییٰ بن عمر نے کہا : یہ طلاق ہوگی (1) ۔ اگر اس نے بیوی کی طرف رجوع کیا تو اس کے لئے وطی کرنا جائز نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ کفارہ ظہار ادا کرے۔ امام شافعی کا نقطہ نظر (15) اگر طلاق کی نیت کرے تو جو جتنی تعداد کا ارادہ کیا (2) ، اگر ایک کی نیت کی تو ایک طلاق رجعی ہوگی، یہ امام شافعی ؓ کا قول ہے۔ اس کی مثل حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر ؓ اور دوسرے صحابہ وتابعین کا قول ہے۔ سفیان ثوری کا نقطہ نظر (16) اگر یہ لفظ بول کر تین کی نیت کی تو تین ہوجائیں گی، اگر ایک کی نیت کی تو ایک ہوجائے گی، اگر قسم کی نیت کی تو یہ قسم ہوگی، اگر کسی چیز کی نیت نہ کی تو کوئی چیز لازم نہ ہوگی، یہ سفیان کا قول ہے۔ اسی کی مثل امام اوزاعی اور ابو ثور کا قول ہے مگر دونوں نے کہا : اگر کچھ بھی نیت نہ کی تو ایک طلاق ہوگی۔ ابن شہاب اور ابن عربی کا نقطہ نظر (17) اس کی نیت کا اعتبار ہوگا (3) ۔ ایک سے کم نہیں ہو سکتی : یہ ابن شہاب کا قول ہے۔ اگر کچھ بھی نیت نہ کی تو کوئی چیز لازم نہ ہوگی، یہ ابن عربی کا قول ہے۔ میں نے سعید بن جبیر کا بھی یہی قول دیکھا ہے۔ اس پر غلام کو آزاد کرنا لازم ہے (18) اس پر ایک غلام آزاد کرنا لازم ہے اگرچہ وہ اسے ظہار نہ بنائے۔ میں اس کی کوئی توجیہ نہیں جانتا۔ میرے پاس جو مقالات ہیں ان میں یہ متعدد نہ ہوں گے۔ میں کہا ہوں : دارقطنی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی (4) م کہ حسین بن اسماعیل، محمد بن منصور سے وہ روح سے وہ سفیان ثوری سے وہ سالم افطس سے وہ سعید بن جبیر سے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا۔ عرض کی : میں نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔ فرمایا : تو نے جھوٹ بولا ہے۔ وہ تجھ پر حرام نہیں۔ پھر اس آیت کی تلاوت کی۔ تجھ پر سب سے بھاری کفارہ ہے، وہ غلام آزاد کرنا ہے۔ مفسرین میں سے ایک جماعت نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنی قسم کا کفارہ ایک غلام کو آزاد کرکے ادا کیا اور حضرت ماریہ کی طرف لوٹے ! یہ زید بن اسلم اور دوسرے لوگوں کا قول ہے۔ اس مسئلہ میں پائے جانے والے اختلاف کی وجہ مسئلہ نمبر 5 ۔ ہمارے علماء نے کہا : اس باب میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ نہ کتاب اللہ میں اور نہ سنت رسول اللہ میں کوئی نص یا ظاہر، صحیح ہے جس پر اس مسئلہ میں اعتماد کیا جاسکے۔ اس وجہ سے علماء نے اس بارے میں اپنی اپنی رائے قائم کی۔ جس نے برأت اصلیہ سے تمسک کیا، اس نے کہا : کوئی حکم نہیں، اس سے کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔ جس نے کہا : یہ قسم ہے ! اس نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اسے قسم کا نام دیا ہے۔ جس نے کہا : اس میں کفارہ واجب ہوگا اور یہ قسم نہیں اس کی بنیاد دو امروں میں سے ایک امر ہے۔ (1) اس نے گمان کیا : اللہ تعالیٰ نے اس میں کفارہ واجب کیا ہے، اگرچہ یہ قسم نہیں۔ (2) ان کے نزدیک یمین کا معنی حرام کرنا ہے تو کفارہ معنی کے اعتبار سے واقع ہوا۔ جس نے کہا : یہ طلاق رجعی ہے اس نے لفظ کو اقل وجوہ پر محمول کیا ہے۔ طلاق رجعی بھی وطی کو حرام کرتی ہے تو لفظ کو اسی پر محمول کیا جائے گا۔ یہ امام مالک کو لازم ہوگا کیونکہ آپ فرماتے ہیں : طلاق رجعی وطی کو حرام کردیتی ہے۔ اسی طرح جس نے کہا : یہ تین طلاقیں ہیں اس کی توجیہ یہ ہے کہ اس نے اسے سب سے غلیظ صورت پر محمول کیا۔ وہ تین طلاقیں ہیں۔ جس نے کہا : یہ ظہار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تحریم کے درجات میں سے سب سے کم درجہ کی تحریم ہے کیونکہ یہ ایسی تحریم ہے جو نکاح کو ختم نہیں کرتی۔ جس نے کہا : یہ طلاق بائنہ ہے، اس نے اس پر اعتماد کیا کہ طلاق رجعی مطلقہ کو حرام نہیں کرتی اور طلاق بائنہ اسے حرام کرتی ہے۔ جہاں تک یحییٰ بن عمر کے قول کا تعلق ہے انہوں نے اس میں احتیاط کی ہے کہ اسے طلاق بنائیں جب وہ اس سے رجوع کرے تو اس میں احتیاط کی کہ کفارہ لازم کریں۔ ابن عربی نے کہا : یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ تو دو متضاد چیزوں کو جمع کرنا ہے کیونکہ ایک لفظ کے معنی میں ظہار اور طلاق جمع نہیں ہوسکتے تو جس کا اجتماع دلیل میں صحیح نہیں اس میں احتیاط کی کوئی وجہ نہیں۔ جس نے کہا : جس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہیں کئے گئے اس میں نیت کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ ایک طلاق اسے جدا کردیتی ہے اور شرعا اسے حرام کردیتی ہے، یہی اجماع ہے۔ اسی طرح کہا : جس نے نیت کا اعتبار کرتے ہوئے کوئی حکم نہ لگایا۔ دخول سے پہلے ایک طلاق بھی حرمت ثابت کرتی ہے یہی اجماع ہے کہ قل، جس پر سب کا اتفاق ہے اس کو اپنا لینا کافی ہے۔ جس نے کہا : دونوں میں یہ تین طلاقیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے حکم اعظم کو لیا ہے کیونکہ اگر وہ تین کی تصریح کردیتا تو جس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہیں کئے گئے اس میں بھی یہ تینوں نافذ ہوجاتیں جس طرح اس میں نافذ ہوجاتی ہیں جس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا کئے ہیں۔ ضروری ہے کہ معنی اسی کی مثل ہو، وہ تحریم ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ یہ سب بیوی کے بارے میں ہے۔ جہاں تک لونڈی کا تعلق ہے تو ان میں سے کوئی چیز لازم نہ ہوگی مگر امام مالک کے نزدیک جب وہ آزادی کی نیت کرے۔ عام علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس پر کفارہ یمین ہوگا۔ ابن عربی نے کہا : صحیح یہ ہے کہ یہ ایک طلاق ہے کیونکہ اگر وہ طلاق کا ذکر کرتا تو یہ کم سے کم ہی واقع ہوتی وہ ایک ہی ہے مگر اس صورت میں کہ اسے متعدد ذکر کرے (1) ۔ اسی طرح جب تحریم کا ذکر کیا تو کم سے کم واقع ہوگی مگر جب وہ اکثر کا ذکر کرے، جس طرح وہ کہے : انت علی حرام الا بعد زوج یہ مراد پر نص ہے۔ میں کہتا ہوں : اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت حضرت حفصہ کے بارے میں نازل ہوئی جب نبی کریم ﷺ نے اپنی لونڈی کے ساتھ خلوت کی : ثعلبی نے اس کا ذکر کیا۔ اس تعبیر کی بنا پر گویا فرمایا : جو آپ نے اپنی ذات پر حرام کیا ہے وہ آپ پر حرام نہیں بلکہ آپ پر اس کا کفارہ ہے اگرچہ یہ شہد اور لونڈی کی حرمت کے بارے میں بھی ہے۔ گویا فرمایا : جو آپ ﷺ نے حرام کیا ہے وہ آپ پر حرام نہیں بلکہ آپ نے تحریم کو یمین کے ساتھ ملا دیا ہے تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کیجئے، یہ قول صحیح ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے پہلے حرام کیا، پھر قسم اٹھائی۔ جس طرح دارقطنی نے ذکر کیا (1) ۔ امام بخاری نے اس کا معنی شہد کے قصہ میں بیان کیا (2) جو عبید بن عمیر سے مروی ہے وہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حضرت زینب بنت حجش کے ہاں شہد نوش فرماتے اور ان کے ہاں ٹھہرتے۔ میں نے اور حضرت حفصہ نے آپس میں مشاورت کی کہ ہم میں سے جس کے ہاں ب ھی رسول اللہ تشریف لائیں تو وہ کہے : آپ نے مغافیر کھائے ہیں ؟ میں آپ سے مغافیر کی بوسی محسوس کرتی ہوں۔ فرمایا : ” نہیں میں نے تو شہد پیا ہے میں دوبارہ ایسا نہ کروں گا۔ میں نے قسم اٹھا دی ہے اس بارے میں کسی کو بھی نہ بتانا “۔ مقصد اپنی ازواج کی خوشنودی تھی۔ ولن اعودلہ یہ تحریم کی صورت میں تھا اور حلفت مراد باللہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر عتاب کا حکم نازل کیا اور اپنے ارشاد : یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک سے کفارہ یمین لازم کیا۔ تبتغی مرضات ازواجک آپ یہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ ازواج کی رضا حاصل کریں۔ واللہ غفور رحیم۔ جس امر نے معاتبہ کو واجب کیا اس کو بخشنے والا ہے اور مواخذہ کو ختم کر کے رحم فرمانے والا ہے۔ ایک قول یہ کیا جاتا ہے : یہ گناہ صغیرہ ہے۔ صحیح یہ ہے یہ ترک اولیٰ پر معاتبہ ہے اور آپ کا صغیرہ اور کبیرہ گناہ نہیں۔
Top