Al-Qurtubi - At-Tahrim : 2
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ : تحقیق فرض کیا اللہ نے لَكُمْ : تمہارے لیے تَحِلَّةَ : کھولنا اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ : اور اللہ تعالیٰ مولا ہے تمہارا وَهُوَ الْعَلِيْمُ : اور وہ علم والا ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کرد یا ہے اور خدا ہی تمہارا کا رساز ہے اور وہ دانا (اور) حکمت والا ہے
اس میں تین مسائل ہیں : قسم کی تحلیل کفارہ ہے مسئلہ نمبر 1 ۔ قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم یمین کی تحلیل کفارہ ہے یعنی جب تم نے جس امر کے بارے میں قسم اٹھائی ہے اس کو مباح کرنے کو پسند کرو تو کفارہ ہی اس کی تحلیل (ختم کرنے والا) بن سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی ہے فکفارتہ اطعام عشرۃ مسکین (المائدہ : 89) اس سے یہ چیز حاصل ہوتی ہے جس نے ماکول یا مشروب میں سے کسی چیز کو حرام کیا۔ ہمارے نزدیک وہ چیز اس پر حرام نہ ہوگی کیونکہ کفارہ، قسم کے لئے ہوتا ہے تحریم کے لئے نہیں ہوتا جیسے ہم بیان کرچکے ہیں۔ امام ابوحنیفہ ہر حال میں اسے قسم خیال کرتے ہیں اور اس میں مقصود، انتقاع کا اعتبار کرتے ہیں جس کو وہ حرام قرار دیتے ہیں۔ جب اس نے کھانے کو حرام قرار دیا تو اس نے اس کے کھانے کے بارے میں قسم اٹھائی۔ جب لونڈی کو حرام کیا تو اس نے اس کے ساتھ وطی کے بارے میں قسم اٹھائی، بیوی کو حرام کیا تو اس سے ایلاء کیا جب اس کی کوئی نیت نہ ہو۔ اگر ظہار کی نیت کی تو ظہار ہوگا۔ اگر طلاق کی نیت کی تو طلاق بائنہ ہوگی۔ اس طرح اگر اس نے دو یا تین طلاقوں کی نیت کی۔ اگر اس نے کہا : میں نے جھوٹ کی نیت کی ہے، تو دیانۃً اس کی تصدیق کی جائے گی۔ قضائً اس کی تصدیق نہ کی جائے گی کہ ایلاء کو باطل کیا جائے۔ اگر اس نے کہا : ہر حلال چیز اس پر حرام ہے تو مراد کھانا اور مشروب ہوگا جب وہ نیت نہ کرے بصورت دیگر جس کی وہ نیت کرے۔ امام شافعی اسے قسم شمار نہیں کرتے لیکن عورتوں میں صرف ایک کفارہ کا سبب مانتے ہیں۔ اگر طلاق کی نیت کی تو یہ ان کے نزدیک طلاق رجعی ہوگی جس طرح پہلے وضاحت گزر چکی ہے۔ اگر قسم اٹھائی کہ وہ اسے نہیں کھائے گا، وہ حانث ہوجائے گا اور کفارہ ادا کرنے سے قسم سے فارغ ہوجائے گا۔ لونڈی یا بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کی صورت میں کفارہ کالزوم مسئلہ نمبر 2 ۔ اگر اس نے اپنی لونڈی یا اپنی بیوی کو حرام کیا تو اس پر کفارہ یمین لازم ہوگا جس طرح صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جب ایک آدمی نے اپنے اوپر اپنی بیوی کو حرام کرلیا تو یہ قسم ہے اس کا کفارہ ادا کرے (1) ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (الاحزاب :21) نبی کریم ﷺ کے بارے میں کفارہ کی ادائیگی میں پایا جانے والا اختلاف مسئلہ نمبر 3 ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : نبی کریم ﷺ نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا۔ حضرت حسن بصری سے مروی ہے : آپ ﷺ نے کفارہ ادا نہیں کیا (2) کیونکہ آپ کی شان ہے : قد غفرلہ ماتقدم من ذنبہ وماتاخر اس سورت میں کفارہ یمین کا حکم امت کو دیا گیا ہے جبکہ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ مراد نبی کریم ﷺ کی ذات ہے پھر امت آپ ﷺ کی اقتدا کرتی ہے۔ ہم پہلے حضرت زید بن اسلم سے روایت نقل کرچکے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے غلام آزاد کر کے کفارہ ادا کیا۔ مقاتل سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ماریہ کو جو اپنے اوپر حرام کیا تھا، اس سلسلہ میں ایک غلام کو آزاد کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے لونڈی کو تم پر حلال کیا ہے اس کی وضاحت اس ارشاد میں ہے : ما کان علی النبی من حرج فیما فرض اللہ لہ (الاحزاب :38) یعنی حلال عورتوں میں سے جو آپ ﷺ کے لئے مشروع کیں یعنی تمہارے لئے ملک یمین (لونڈی) کو حلال کیا تو تم ماریہ کو اپنی ذات پر کیوں حرام کرتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے تم پر حلال کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تحلۃ الیمین سے مراد استثناء کرنا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے استثناء کو مقدر کیا ہے جس کو یمین سے خارج کردیا گیا ہے۔ پھر ایک قوم کے نزدیک قسم سے استثناء جائز ہے جب وہ چاہے اگرچہ ایک عدت درمیان میں حائل ہوچکی ہو۔ اکثر علماء کے نزدیک متصل ہی جائز ہے۔ گویا فرمایا : جن امور کے بارے میں قسم اٹھائی ہے اس میں استثناء کرلو۔ قسم کو کفارہ کے ساتھ ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ لفظ اصل میں تحللۃ ہے اس میں ادغام کردیا گیا ہے۔ تفعلۃ یہ باب تفعیل کا مصدر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تحلۃ یہ کفارہ ہے۔ قسم اٹھانے والے نے جسے اپنے اوپر حرام کیا تھا کفارہ اسے قسم اٹھانے والے پر حلال کر دے گا۔ جب اس نے کفارہ ادا کردیا تو وہ اس طرح ہوجائے گا گویا اس نے قسم اٹھائی ہی نہیں تھی۔ واللہ مولکم اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے جس چیز کو تم اپنے اوپر حرام کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے ممنوعیت کو زائل فرماتا ہے اور کفارہ کے ذریعے قسموں کو ختم کر کے تمہارے لئے رخصت پیدا فرماتا ہے اور جو تم کفارہ ادا کرتے ہو اس پر تمہیں ثواب عطا فرماتا ہے۔
Top