Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
(اور آپ ﷺ نہ کہیں کسی چیز کے لیے کہ میں یہ کل کردوں گا۔
وَلاَ تَقُوْلَنَّ لِشَایْ ئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا۔ اَلاَّ ٓ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ ز وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ وَقُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّھْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ھٰذَا رَشَدًا۔ (الکہف : 23، 24) (اور آپ ﷺ نہ کہیں کسی چیز کے لیے کہ میں یہ کل کردوں گا۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے اور جب آپ ﷺ بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کریں اور کہیں کہ امید ہے کہ میرا رب اس سے بھی کم مدت میں صحیح بات کی طرف میری رہنمائی فرما دے۔ ) آیت کا شان نزول اور وعدہ سے متعلق ہدایت گزشتہ آیت کریمہ جس کی حیثیت ایک جملہ معترضہ کی ہے اس کے آخر میں نبی کریم ﷺ کو ایک ہدایت فرمائی کہ جو لوگ محض بحث و مناظرہ کے لیے سوالات کریں یا بات کو آگے بڑھائیں آپ ﷺ ان کے ساتھ اس فضول مشق میں شریک نہ ہوں۔ اسی پر اضافہ کرتے ہوئے اس آیت کریمہ میں دوسری ہدایت جاری فرمائی۔ البتہ اس کا ایک شان نزول بھی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) سے روایت ہے کہ جب قریش نے یہود کے اکسانے پر نبی کریم ﷺ سے چند سوالات کیے جن میں ایک سوال اصحابِ کہف کے بارے میں تھا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ میں کل اس کا جواب دوں گا۔ مقصد یہ تھا کہ چونکہ اشرافِ قریش آپ ﷺ کی ذات اور آپ ﷺ کی دعوت سے دلچسپی کا اظہار کررہے تھے کیونکہ مختلف سوالات کرنا یقینا اسی ضمن میں تھا تو آپ ﷺ نے یہ سوچا کہ ان کے سوالات کا جواب انھیں جلد از جلد ملنا چاہیے تاکہ ان کی دلچسپی میں کمی نہ آنے پائے اور وقت پر جواب جو اثر رکھتا ہے یقینا تاخیر اس اثر کو کم کردیتی ہے اور مزید یہ بات بھی کہ آپ ﷺ کی طبیعت میں لوگوں کے ایمان کے بارے میں جو شدید حرص پائی جاتی تھی اس کا بھی تقاضا یہ تھا کہ آپ ﷺ جواب دینے میں جلدی کریں۔ چناچہ آپ ﷺ کی اسی شدید خواہش کے باعث جو سراسر خیر ہی خیر تھی آپ ﷺ کے ذہن سے یہ بات نظرانداز ہوگئی کہ میں جس بات کا جواب دین کی مصلحت کے لحاظ سے جلدی دینا چاہتا ہوں، عین ممکن ہے کہ حکمت الٰہی کا تقاضا اس کے برعکس ہو۔ مشیتِ الٰہی کا فیصلہ یہ ہو کہ انھیں جواب بالکل نہ دیا جائے یا تاخیر سے دیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے نبی کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ وحی کے اعتماد پر کوئی غیرمشروط وعدہ کر بیٹھے بلکہ اس کے بلند مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ہر وعدہ خدا کی مشیت کے ساتھ مشروط ہونا چاہیے۔ اس لیے آئندہ کے لیے یہ ہدایت کی گئی کہ آپ ﷺ جب بھی کسی سے کوئی وعدہ فرمائیں تو انشاء اللہ ضرور کہیں۔ یہ انشاء اللہ کہنا نہ تو تعلیق کے معنی میں ہے اور نہ یہ فقہی معنی میں شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی کے لیے انشاء اللہ کہنا تو بسا اوقات حکمت الٰہی کا تقاضا ہوتا ہے، لیکن عام امت کے لیے ایسا کہنا تبرک کے لیے ہے۔ اور اب چونکہ یہ مسلمانوں کی روایت بن چکا ہے اس لیے مسلمانوں کی ثقافت کا حصہ ہے۔ اس کے بعد مزید فرمایا کہ اگر آپ کبھی انشاء اللہ کہنا بھول جائیں تو جب یاد آئے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں یعنی انشاء اللہ کہیں اور پھر اس پر اس بات کا اضافہ فرمایا کہ آپ ﷺ جس بات کا وعدہ فرما رہے ہیں تو یقینا آپ ﷺ کے ذہن میں یہ ہے کہ اس بات میں یقینا خیر ہے۔ لیکن آپ ﷺ کو حتمی طور پر یہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ اس میں خیر ہے یا نہیں، کیونکہ مستقبل کے حالات سے تو صرف اللہ تعالیٰ باخبر ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ ﷺ یہ بھی کہا کریں کہ کیا عجب اللہ تعالیٰ مجھے اس معاملے میں اس سے بھی زیادہ صحیح بات یا صحیح طرزعمل کی رہنمائی فرما دے۔
Top